”حضرت حسین اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللّٰہ عنھما مکہ چلے گئے“
“حضرت عبدااللہ بن زبیر رضی اللّٰہ عنہ”اپنے بھائ “جعفر بن زبیر رضی اللّٰہ عنہ”کو کے کر راتوں رات “مدینہء منورہ”سے نکل گئے-جب وہ تلاش کرنے پر ہاتھ نہ آئے تو”حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کا تعاقب کیا-“حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” نے بھی یہی صورت اختیار کی کہ اپنی اولاد اور متعلقین کو لے کر”مدینہء منورہ”سے نکل گئے اور جا کر”مکہء مکرمہ” میں پناہ گزین ہو گئے-“یزید”کو جب ان واقعات کی اطلاع ملی تو”ولید بن عتبہ”کی سستی پر محمول کر کے ان کو معزول کر دیا اور ان کی جگہ”عمرو بن سعید اشدق” کو”امیر مدینہ”بنایا-اور ان کی پولیس کا افسر”حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللّٰہ عنہ”کے بھائ”عمرو بن زبیر” کو بنایا- کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ ان دونوں بھائیوں میں شدید اختلاف ہیں٫اس لئے “عمرو بن زبیر”ان دونوں کی گرفتاری میں کوئ کوتاہی نہیں کریں گے-
“گرفتاری کے لئے فوج کی روانگی”
“عمرو بن زبیر”نے پہلے تو “رؤساء مدینہ”میں”حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ”اور عبداللہ بن زبیر رضی اللّٰہ عنہ” کے حامی تھے ان سب کو بلا کر سخت تشدد کیا اور مار پیٹ کے ذریعہ ان پر رعب جمانا چاہا٫پھر”عمرو بن سعید اشدق” کے مشورے سے “2000”جوانوں کا لشکر لے کر”ان دونوں حضرات” کی گرفتاری کے لئے”مکہء مکرمہ” روانہ ہوا-“ابو شریح خزاعہ” نے”عمرو” کو اس حرکت سے روکا “کہ”حرم مکہ”میں”قتل و قتال جائز نہیں٫ جو لوگ “حرم مکہ” میں پناہ گزین ہیں ان کو گرفتار کرنے کے لئے فوج بھیجنا”اللہ تعالیٰ” کی حدود کو توڑنا ہے-مگر عمرو بن سعید” نے ان کی بات نہ مانی اور “حدیث نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”میں تاویلیں کرنے لگا-(صحیح بخاری)
“عمرو بن زبیر”2000″کا لشکر لے کر روانہ ہوا٫ اور مکہء مکرمہ” سے باہر قیام کرکے اپنے بھائ “عبداللہ بن زبیر رضی اللّٰہ عنہ”کے پاس آدمی بھیجے کہ مجھے”یزید” کا یہ حکم ہے کہ میں تمہیں گرفتار کر کے اس کے پاس بھیجوں٫مگر میں مناسب نہیں سمجھتا کہ”مکہء مکرمہ”کے اندر قتال ہو اس لئے تم خود کو میرے حوالے کردو- “حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللّٰہ عنہ”نے اپنے چند جوانوں کو اس کے مقابلے کے لئے بھیج دیا جنہوں نے اس کو شکست دی-عمرو نے “ابن علقمہ”کے گھر پناہ لی-
دوسری طرف جب “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ”مدینہء منورہ” سے نکلے تو راستے میں”عبداللہ بن مطیع” ملے٫انہوں نے دریافت کیا “کہاں جاتے ہیں٫فرمایا اس وقت تو”مکہ معظمہ”کا قصد ہے اس کے بعد استخارہ کروں گا کہ کہاں جاؤں؟”عبداللہ بن مطیع” نے کہا” کہ میں ایک خیر خواہانہ مشورہ دیتا ہوں کہ” آپ رضی اللّٰہ عنہ”مکہ”میں ہی رہیں٫ “اللہ” کے واسطے”آپ”کوفہ کا رخ نہ کریں وہ بڑا منحوس شہر ہے-اس میں “آپ رضی اللّٰہ عنہ” کے “والد خلیفہء چہارم “حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ” شہید کر دیئے گئے اور” آپ کے بھائ”حضرت حسن رضی اللّٰہ عنہ” کو بےیارو مددگار چھوڑ دیا گیا-“حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ”مکہ معظمہ”پہنچ کر مقیم ہو گئے اور اطراف کے مسلمان “ان کی” خدمت میں آنے جانے لگے-
“اہل کوفہ”کے خطوط”
ادھر جب”اہل کوفہ” کو “حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ”کی وفات کی خبر ملی اور یہ کہ ” حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ”اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللّٰہ عنہ”نے “یزید” کی بیعت”کرنے سے انکار کر دیا ہے تو کچھ حضرات”شیعہ سلیمان بن صرو خزاعہ”کے مکان پر جمع ہوئےاور”حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کو خط لکھا کہ”ہم بھی “یزید” کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار نہیں٫ “آپ رضی اللّٰہ عنہ”فورا”کوفہ” آجائیں ہم سب”آپ رضی اللّٰہ عنہ” کے ہاتھ پر بیعت کرینگے اور”یزید”کی طرف سے”کوفہ” کے”امیر حضرت نعمان بن بشیر رضی اللّٰہ عنہ” ہیں ہم ان کو یہاں سے نکال دیں گے-
اس کے دو روز بعد اسی مضمون کا ایک اور خط لکھا٫اور دوسرے خطوط “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کے پاس”یزید”کی شکایات کے بھی بھیجے اور اس کے خلاف اپنی “نصرت و تعاون” کا اور “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ”کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا بھی یقین دلایا گیا٫ اور چند وفود بھی”حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کے پاس پہنچے-“حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ”ان خطوط اور وفود” سے بہت متاثر تو ہوئے مگر “حکمت و دانش مندی” سے یہ کیا کہ بجائے خود جانے کے اپنے چچا زاد بھائی”حضرت مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ” کو کوفہ روانہ کیا-اور ان کے ہاتھ یہ خط لکھ بھیجا کہ
“بعد سلام مسنونہ!مجھے آپ لوگوں کے خطوط ملے اور حالات کا اندازہ ہوا٫میں اپنے چچا زاد بھائی”مسلم بن عقیل” کو تمہارے پاس بھیجتا ہوں تاکہ وہ حالات کا جائزہ لے کر مجھے خط لکھیں٫اگر وہ حالات کی تحقیق کرنے کے بعد مجھے خط لکھیں گے تو میں فوراً”کوفہ” پہنچ جاؤنگا-“
مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ”کوفہ جانے سے پہلے “مدینہء طیبہ” پہنچے٫مسجد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”میں نماز ادا کی اور اپنے اہل و عیال سے رخصت ہوئے-
“کوفہ”پہنچ کر “مختار”کے گھر میں مقیم ہوئے٫ یہاں کے”حضرات”ان کے پاس آنے جانے لگے-جب کوئ نیا آدمی آتا تو “مسلم بن عقیل” ان کو”حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کا خط پڑھ کر سناتے تھے٫جس کو سن کر سب پر گریہ طاری ہو جاتا تھا-
“مسلم بن عقیل” نے چند روز کے قیام میں ہی اندازہ لگا لیا تھاکہ یہاں کے”عام مسلمان ( عوام) “یزید” کی بیعت سے متنفر اور “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کی بیعت کے لئے بیچین ہیں-یہ دیکھ کر”انہوں”نے “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کے لئے” بیعت خلافت” لینی شروع کردی٫چند روز میں ہی صرف کوفہ سے “18000”مسلمانوں نے “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کے لئے بیعت کرلی٫اور یہ سلسلہ روز بروز بڑھتا ہی جا رہا تھا-
“مسلم بن عقیل”نے “”حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کو “کوفہ”آنے کی دعوت دے دی””
جب” مسلم بن عقیل” کو اطمینان ہو گیا” کہحضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” اگر “کوفہ”تشریف لے آئیں گے تو”پورا”عراق” ان سے “بیعت”ہو جائے گا٫اہل حجاز” تو ان کے پہلے ہی “تابع اور دلدادہ”ہیں٫اس لئے”ملت اسلامیہ” کے سر سے بآسانی”یزید” کی مصیبت”ٹل جائے گی اور ایک صحیح معیاری “خلافت” قائم ہو جائے گی-ان سب خوش گمانیوں کے ساتھ ہدایت کے موافق”انہوں نے” حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ”کو “کوفہ”آنے کی دعوت دے دی (کامل ابن اثیر)
(جاری ہے)
حوالہ: شہید کربلا-
مرسلہ: خولہ بنت سلیمان-
“الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف”