یزید کا خط ولیدکے نام
“یزید”نے”تخت حکومت”پہ آتے ہی “والیء مدینہ”ولید بن عتبہ بن ابی سفیان” کو خط لکھا کہ”حضرت حسین٫عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر رضوان اللہ علیہم اجمعین”کو”بیعت خلافت” پر مجبور کرے٫اور ان کو اس معاملہ میں مہلت نہ دے-
“ولید”کے پاس جب یہ خط پہنچا تو وہ فکر میں پڑ گیا کہ اس حکم
کی تعمیل کیسے کرے؟
اس نے”مروان بن حکم” کو جو ان سے پہلے”والیء مدینہ”رہ چکا تھا٫اس کو مشورے کے لئے بلایا٫اس نے مشورہ دیا کہ ابھی تک “امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ”کی وفات کی خبر مدینہ نہیں پہنچی ٫مناسب یہ ہے کہ ان لوگوں کو فوراً بلالیں ٫اگر وہ”یزید”کے لئے بیعت کر لیں تو مقصد حاصل ہوجائے گا ورنہ ان سب کو وہیں قتل کر دیا جائے-
“ولید” نے”عبداللہ بن عمرو بن عثمان”کو “ان لوگوں کو بلانے کے لئے بھیجا- “عبداللہ” نے”ان دونوں حضرات” کو مسجد میں پایا اور”ان کو”امیر مدینہ ولید” کا حکم پہنچا دیا-دونوں نے کہا کہ تم جاؤ ہم آتے ہیں-
اس کے جانے کے بعد “حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللّٰہ عنہ” نے “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” سے کہا کہ یہ وقت “امیر”کی مجلس کا نہیں ہے٫ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ “امیر المومنین حضرت معاویہ رضی اللّٰہ عنہ” کا انتقال ہوگیا ہے٫اور اب وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں میں “ان کے” انتقال کی خبر مشہور ہونے سے پہلے وہ ہمیں”یزید” کی بیعت پر مجبور کریں-“عبداللہ بن زبیر رضی اللّٰہ عنہ” نے بھی ان کی رائے سے اتفاق کیا اور کہا”کہ اب کیا رائے ہے؟ “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ”نے فرمایا کہ” میں جا کر اپنے نوجوانوں کو جمع کر لیتا ہوں اور پھر ان کو ساتھ لے کر “ولید” کے پاس پہنچتا ہوں-میں اندر جاؤنگااور نوجوانوں کو دروازہ پر چھوڑ جاؤنگا کہ کوئ ضرورت پڑے تو میں ان کی امداد حاصل کر سکوں-
اس کے بعد” حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” ولید کے پاس پہنچے٫وہاں ” مروان بھی موجود تھا-
“حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” نے سلام کے بعد “اول “تو”ولید اور مروان” کو نصیحت کی کہ تم دونوں میں پہلے کشیدگی تھی٫اب میں آپ دونوں کو مجتمع ریکھ کر خوش ہوا٫اور دعا کی کہ”اللہ تعالیٰ” آپ دونوں کے تعلقات خوشگوار رکھے٫ اس کے بعد”ولید”نے”یزید” کا خط”حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کے سامنے رکھ دیا٫جس میں “حضرت معاویہ رضی اللّٰہ عنہ”کی وفات کی خبر اور اپنی بیعت کا تقاضا تھا-“حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ نے”حضرت معاویہ رضی اللّٰہ عنہ”کی وفات پر”غم و افسوس کا اظہار کیا اور بیعت کے متعلق فرمایا کہ”میرے جیسے آدمی کے لئے مناسب نہیں کہ خلوت میں پوشیدہ طور پر بیعت کرلوں٫ مناسب یہ ہے کہ آپ سب کو جمع کریں٫اور بیعتِ خلافت” کا معاملہ سب کے سامنے رکھیں اس وقت میں حاضر ہوں گا پھر جو کچھ ہوگا سب کے سامنے ہوگا-
“ولید”ایک عافیت پسند انسان تھا٫اس بات کو قبول کر کے”حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کو واپسی کی اجازت دیدی-
مگر” مروان” نے ان کے سامنے ہی کہا کہ اگر “حسین رضی اللّٰہ عنہ” اس وقت ہمارے ہاتھ سے نکل گئے تو پھر تمہیں کبھی قدرت نہیں ہوگی- میرا خیال یہ ہے کہ “آپ” انکو” روک لیں اور جب تک بیعت نہ کریں جانے نہ دیں٫ورنہ قتل کردیں-
” حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” نے مروان کو سخت جواب دیا”کہ تو کون ہوتا ہے جو ہمیں قتل کرائے-یہ فرمایا اور وہاں سے نکل آئے-
“مروان”نے”ولید” کو ملامت کی کہ”تو نے موقع ضائع کر دیا٫ولید نے کہاکہ “خدا کی قسم مجھے ساری دنیا کی سلطنت اور دولت بھی اگر اسکے بدلے میں ملے” کہ میں”حسین رضی اللّٰہ عنہ” کو قتل کروں تو میں اس کے لئے تیار نہیں-روز قیامت “حسین رضی اللّٰہ عنہ”کے خون کا مطالبہ جس کی گردن پر ہو وہ نجات نہیں پاسکتا-“
(جاری ہے)
حوالہ: شہید کربلا-
مرسلہ:خولہ بنت سلیمان-