صدقۃ الفطر کا نصاب:
جس مرد یا عورت کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونایا ساڑھے باون تولہ چاندی یا نقدی مال یا تجارت کا سامان یا ضرورت سے زائد سامان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچوں چیزوں کا یا بعض کامجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرہوتوایسےمردوعورت پرصدقۃ الفطراداکرناواجب ہے۔ (الجوہرۃ النیرۃ:ج1ص160،باب من یجوز دفع الصدقۃ الیہ ومن لایجوز)
یاد رہے کہ وہ اشیاء جو ضرورت و حاجت کی نہ ہوں بلکہ محض نمود ونمائش کی ہوں یا گھروں میں رکھی ہوئی ہوں اور سارا سال استعمال میں نہ آتی ہوں تو وہ بھی نصاب میں شامل ہوں گی۔ (بدائع الصنائع: ج2ص،158)
ادائیگی کا وقت:
صدقہ فطر کی ادائیگی کا اصل وقت عید الفطر کے دن نماز عید سے پہلے ہے، البتہ رمضان کے آخر میں کسی بھی وقت ادا کیا جا سکتا ہے۔ (نور الانوار: ص56)
صدقہ فطر کی مقدار:
صدقہ فطر کھجور کشمش یا جَو کی صورت میں دیا جائے تو ایک صاع کی مقدار دینا چاہیے اور گندم کی صورت میں دیں تو نصف صاع دیا جائے گا۔ (الاختیار لتعلیل المختار: ج1 ص123، 124 باب صدقۃ الفطر)
ایک صاع کی مقدار ساڑھے تین سیر اور نصف صاع کی مقدار پونے دو سیر ہے۔ (اوزانِ شرعیہ از مفتی محمد شفیع: ص34، 38 ملخصاً)
صدقہ کے مصارف:
1: صدقۂ فطر کے مستحق ایسے غریب حضرات ہیں جن کو زکوٰۃ دی جاتی ہے۔ (الدر المختار: ج3 ص379 باب صدقۃ الفطر)
2: صدقۂ فطر ماں باپ دادا دادی نانا نانی اسی طرح بیٹا بیٹی پوتا پوتی اور نواسا نواسی کو دینا درست نہیں ہے۔ ایسے ہی بیوی شوہر کو اور شوہر بیوی کو اپنا صدقۂ فطر نہیں دے سکتا۔ (تحفۃ الفقہاء: ج1 ص303 باب من یوضع فیہ الصدقۃ)
3: ان رشتہ داروں کے علاوہ مثلاً بھائی بہن، بھتیجا بھتیجی، بھانجا بھانجی، چچا چچی، پھوپا پھوپی، خالہ خالو، ماموں ممانی، سسر ساس، سالہ بہنوئی، سوتیلی ماں سوتیلا باپ ان سب کو صدقۂ فطر دینا درست ہے بشرطیکہ یہ غریب اور مستحق ہوں۔ (البحر الرائق: ج2 ص425 کتاب الزکوٰۃ- باب مصرف الزکوٰۃ)
صدقہ فطر کے متفرق مسائل:
1: اگر عورت صاحبِ نصاب ہو تو اس پر بھی صدقہ فطر واجب ہے، مگر عورت پر کسی اور کی طرف سے فطرانہ نکالنا ضروری نہیں ہے، نہ بچوں کی طرف سے، نہ ماں باپ کی طرف سے، نہ شوہر کی طرف سے۔ (رد المحتار: ج3 ص370 باب صدقۃ الفطر، الاختیار لتعلیل المختار: ج1 ص123 باب صدقۃ الفطر)
2: مردوں پر جس طرح اپنی طرف سے صدقہ فطر دینا ضروری ہے، اس طرح نابالغ اولاد کی طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے۔والدین، بالغ اولاد اور بیوی کی طرف سے دینا واجب نہیں. (الاختیار لتعلیل المختار: ج1 ص123 باب صدقۃ الفطر)
اسی طرح بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کی طرف سے بھی ادا کرنا واجب نہیں اگرچہ وہ اس کے عیال داری میں کیوں نہ رہتے ہوں۔ (فتاویٰ عالمگیری: ج1 ص212 الباب الثامن فی صدقۃ الفطر)
البتہ اگر بالغ لڑکا یالڑکی مجنون ہو تو اس کی طرف سے اس کے والد صدقہ فطر ادا کریں گے۔ (رد المحتار: ج3 ص368 باب صدقۃ الفطر)
3: اگرگندم کے علاوہ کوئی اور غلہ باجرہ چاول وغیرہ دیا جائے تو اس میں گندم ں کی قیمت کا اعتبار ہو گا یعنی جس قدر پونے دو کلو گندم کی قیمت ہو اتنی رقم کا غلہ دیا جائے۔ (فتاوٰی رحیمیہ: ج5 ص172)
4: جس نے کسی وجہ سے رمضان کے روزے نہیں رکھے اس پر بھی صدقہ فطر واجب ہے اور جس نے روزے رکھے اس پر بھی واجب دونوں میں کچھ فرق نہیں۔ (فتاوٰی رحیمیہ: ج5 ص172)