نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم، امّابعد!
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ
(سورۃ توبہ، آیت: ۱۱۹)
اللہ جل شانہ‘ نے اپنا دین رہتی دنیا تک کے لیے بھیجا ہے اور اس پر چلنے کے لیے ’’سچوں‘‘ کی معیت کو ضروری قرار دیا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ آج لوگوں کو راہِ ہدایت کے بارے میں جو طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں اس کی وجہ ’’سچوں‘‘ کی صحبت اور معیت حاصل نہ ہونا ہے۔
لوگوں کو مختلف شکوک وشبہات پیش آتے ہیں۔ کسی کو دعوت وتبلیغ کے طریقۂ کار پر اشکال ہے کہ یہ تو نئے طریقے ہیں، یہ کہاں سے ثابت ہیں؟ کسی کو ذکر کے حلقوں پر اشکالات ہوتے ہیں کہ ان کا ثبوت کہاں سے ہے؟ کسی کو ذکر کی ضربوں پر اشکالات ہیں کہ نفی اثبات کا ذکر اور اللّٰہ، اللّٰہ کا ذکر کس حدیث سے ثابت ہے؟ یہ سب اشکالات اور شکوک وشبہات سرسری اور غیر سنجیدہ ہیں۔ یہ شبہات اسی وقت تک رہتے ہیں جب تک آدمی ان سے صحیح طور سے واقف نہیں ہوتا۔انسان اگر عملی طور پر ان چیزوں کو اپنائے تو اکثر اشکالات خودبخود ختم ہوجاتے ہیں۔ جب آدمی کا دل گناہوں کے زنگ سے آلودہ ہوتا ہے تو اس کو اشکالات زیادہ پیش آتے ہیں لیکن جب ذکر اور اعمال کی برکت سے دل کی سیاہی دور ہوتی ہے تو یہ اشکالات بھی ہوا میں کافور ہوجاتے ہیں (جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت :۲۶ سے معلوم ہوا ہوتا ہے) ایک دو علمی اشکالات رہ بھی جائیں تو مشایخ سے معلوم کرنے پر وہ بھی ختم ہو کر اطمینان ہوجاتا ہے۔
ایک صاحب کو تصوف اور حضراتِ صوفیائے کرام رحمہم اللہ کے وظائف واذکار پر کافی اعتراضات تھے۔ وہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی خدمت میںیہ اشکالات لے کر حاضر ہوئے۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے انہیں تین دن تک کسی بھی قسم کی بات کرنے سے منع فرمادیا اور فرمایا کہ تین دن تک خانقاہ کا ماحول دیکھتے رہو! تین دن تک مجھ سے بات کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ تین دن بعد جب ان سے حالات معلوم کیے گئے تو ان کے سب اشکالات ختم ہوچکے تھے۔ کیونکہ ذکر کے ماحول اور اعمال کی برکت سے جب دل کا زنگ دُھلا تو وہ اشکالات بھی دُھل گئے۔
تصوف کا حاصل:
بزرگوں کے ارشاد کے مطابق تصوف کا حاصل یہ ہے کہ تصحیح نیت (نیت کی درستگی) کے ساتھ صوفیائے کرام کے معمولات کو پورا کرتے ہوئے ’’احسان‘‘ کا وہ مرتبہ، جس کو حدیث میں ان تعبد اللّٰہ کانک تراہ، فان لم تکن تراہ فانہ یراک
(مشکوٰۃ: ص ۱۱ کتاب الایمان مکتبہ قدیمی کتب خانہ)
(یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرنا جیسے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ کیفیت حاصل نہیں ہوسکتی تو اس طرح عبادت کرناکہ جیسے وہ تمہیں دیکھ رہا ہے) سے تعبیر کیا گیا ہے، حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کی ابتدا تصحیح نیت سے ہوتی ہے جس کو حدیث میں انما الاعمال بالنیات (اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے) (بخاری جلد ۱ ص ۲ باب کیف کان بدو الوحی قدیمی کتب خانہ) سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کی انتہا ان تعبد اللہ کانک تراہ، فان لم تکن تراہ فانہ یراک پرہوتی ہے اور یہ ذکر واذکار اس کے ذرائع اور واسطے ہیں۔ یہ ابتدا اور انتہا احادیث نبویہ سے ثابت ہے۔سینکڑوں برس کے تجربہ سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ بزرگوں کی جوتیاں سیدھے کیے بغیر اور اللہ والوں کی صحبت میں رہے بغیر یہ چیزیں حاصل نہیں ہوتیں۔
ذکر نفی اثبات، اللہ اللہ کی ضربیں، بیعت ہونا یہ سب چیزیں اسی مقصد کے حصول کے لیے ہیں۔ مقصد یہی ہے کہ اخلاص عشقِ الٰہی اور ہر وقت اللہ کا دھیان اور اس کی رضا کی فکر پیدا ہوجائے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اہل اللہ کی صحبت اور معیت میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ایسے شکوک وشبہات سے محفوظ فرمائے جو گناہوں اور فسق سے پیدا ہوتے ہیں اور ان چیزوں میں عملی طور پر لگنے کی توفیق عطا فرمائے! تاکہ ہمارے اندر عملی قوت پیدا ہو اور ہمارا خاتمہ ایمان پر ہو۔
آمین
Load/Hide Comments