روزے کے فضائل
روزہ اسلام کابہت اہم رکن ہے، احادیث ِمبارکہ میں روزے کے بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک روزہ دار کا بڑا رتبہ ہے۔ جو کوئی رمضان کے روزے نہیں رکھے گا وہ سخت گناہ گار ہوگا اور اس کے دین کو نقصان پہنچے گا۔
1-نبی کریمﷺنے فرمایا: ’’جس نے رمضان کے روزے محض اللہ تعالیٰ کے لیے ثواب کی نیت سے رکھے تو اس کے پچھلے سب گناہ بخش دیے جائیں گے۔ ‘‘
2- نبی کریمﷺنے فرمایا: ’’روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پیاری ہے۔ ‘‘
3- نبی کریمﷺنے فرمایا:’’ روزہ داروں کے لیے قیامت کے دن عرش کے نیچے دسترخوان چنا جائے گا، وہ لوگ اس پر بیٹھ کر کھانا کھائیں گے،دوسرے لوگ ابھی حساب ہی میں پھنسے ہوئے ہوں گے، اس پر وہ لوگ کہیں گے کہ یہ لوگ کیسے ہیں کہ کھاپی رہے ہیں اور ہم ابھی حساب میں پھنسے ہوئے ہیں؟ ان کو جواب ملے گا کہ یہ لوگ روزہ رکھا کرتے تھے اور تم لوگ روزہ نہیں رکھتے تھے۔ ‘‘
4- نبی کریمﷺنے فرمایا: ’’روزہ دار کا سونا عبادت اور اس کی خاموشی تسبیح ہے۔ (یعنی روزہ دار اگر خاموش رہے تو اسے تسبیح پڑھنے کا ثواب ملتا ہے) اور اس کا عمل بڑھایا جاتا ہے (یعنی اس کے اعمال کا ثواب دوسرے دنوں کی بنسبت ان دنوں میں زیادہ ہوتا ہے) اور اس کی دعا قبول ہوتی ہے اور اس کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘ (یعنی صغیرہ گناہ)
5- نبی کریمﷺنے فرمایا:’’ روزہ دوزخ سے بچانے کے لیے ڈھال اور مضبوط قلعہ ہے۔‘‘
یعنی جس طرح انسان ڈھال اور مضبوط قلعے کے ذریعے پناہ لیتا اور دشمن سے بچتا ہے، اسی طرح روزے کے ذریعے دوزخ سے نجات حاصل ہوتی ہے، اس طرح کہ انسان میں گناہوں کی قوت کمزور ہوجاتی ہے اور نیکی کا شوق بڑھ جاتا ہے، پس جب انسان روزہ کا اہتمام کرے گا اور روزے کے تمام آداب کا لحاظ رکھے گا تو اس سے گناہ چھوٹ جائیں گے اور دوزخ سے نجات حاصل ہوجائے گی۔
6-نبی کریمﷺنے فرمایا:’’ روزہ ڈھال ہے، جب تک روزہ دار اسے جھوٹ اورغیبت کے ذریعہ سے پھاڑ نہ ڈالے۔ ‘‘
مطلب یہ ہے کہ روزہ اس وقت تک ڈھال ہے جب تک روزہ دار اسے گناہوں سے محفوظ رکھے، اگر روزہ رکھا مگر اس کے ساتھ جھوٹ، غیبت وغیرہ گناہ بھی کرتا رہا تو اگر چہ فرض ادا ہوجائے گا، مگر بہت سخت گناہ ہوگا اور روزہ کی برکت سے محروم رہے گا۔
7- نبی کریمﷺنے فرمایا:’’روزہ دوزخ سے ڈھال ہے، جو شخص روزہ دار ہو اسے چاہیے کہ جاہلانہ حرکت (لڑائی جھگڑا) نہ کرے، اگر کوئی اس سے الجھے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں، بری بات کا جواب نہ دے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمدﷺ کی جان ہے، روزہ دار کے منہ کی خوشبو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ‘‘
مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن روزہ دار کے منہ سے مشک سے زیادہ پاکیزہ خوشبو آئے گی جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہوگی اور اس خوشبو کا سبب یہی دنیا میں روزہ دار کے منہ کی بو ہے، اس لیے یہ بھی پسندیدہ ہے۔
8- نبی کریمﷺنے دو آدميوں سےفرمایا:’’تم روزہ رکھو، اس لیے کہ روزہ دوزخ سے اور زمانے کی مصیبتوں سے بچنے کی ڈھال ہے۔‘‘
یعنی روزہ کی برکت سے دوزخ سے اور دیگر دنیوی مصائب وتکالیف سے بھی نجات ملتی ہے۔
9-نبی کریمﷺنے فرمایا:’’ تین آدمیوں سے قیامت کے دن کھانے کا حساب نہیں ہوگا، چاہے کچھ بھی کھائیں، بشرطیکہ کھانا حلال ہو:ایک روزہ دار، دوسرا سحری کھانے والا، تیسرا اسلامی سرحد کی حفاظت کرنے والا مجاہد۔‘‘
اس سے ان تینوں کے بارے میں بہت بڑی رعایت معلوم ہوئی کہ ان سے کھانے کا حساب ہی معاف کردیا گیا لیکن اس رعایت کی بنیاد پر بہت زیادہ لذیذ کھانوں کے اہتمام میں نہیں پڑنا چاہیے۔ بہت زیادہ لذتوں میں مشغول ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی یاد سے غفلت پیدا ہوتی ہے اور گناہ کی قوت بڑھتی جاتی ہے۔
10-نبی کریمﷺنے فرمایا:’’ جو شخص روزہ دار کو افطا ر کرائے، اس کو روزہ رکھنے والے کے برابر ثواب ملے گا اور روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہ ہوگا، اگر چہ کسی معمولی کھانے ہی سے افطار کرائے، چاہے پانی ہی ہو۔‘‘
11-نبی کریمﷺنے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی نیکیوں کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک مقرر کیا ہے،سوائے روزے کے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا۔‘‘
یعنی روزے کے ثواب میں سات سو کی حد نہیں، اس سے روزے کے ثواب کا اندازہ کرنا چاہیے کہ جس کا حساب ہی نہیں وہ ثواب کس قدر زیادہ ہوگا؟ اور پھر یہ کہ خود حق تعالیٰ یہ ثواب مرحمت فرمائیں گے، فرشتوں کے ذریعہ اس کا بندوبست نہیں ہوگا۔ سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتنی قدردانی ہے کہ تھوڑی سی محنت پر اس قدر نوازا جارہا ہے، مگر یہ نہ بھولنا چاہیے کہ روزے کے یہ فضائل تب حاصل ہوں گے جب روزے کا پورا پورا حق ادا کیا جائے، اس میں جھوٹ، غیبت اور تمام گناہوں سے آدمی بچے، بعض لوگ رمضان المبارک میں بھی نمازیں قضا کرتے ہیں اور بعض فجر کی نماز خاص طور پر قضا کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو رمضان کی برکات حاصل نہیں ہوں گی۔
تنبیہ:اس حدیث سے یہ شبہہ نہ ہو کہ روزہ نماز سے بھی افضل ہے، اس لیے کہ نماز کا تمام عبادات سے افضل ہونا دلائل سے ثابت ہے، اس حدیث کا مقصد صرف یہ ہے کہ روزہ کا بہت بڑا ثواب ہے۔
12-نبی کریمﷺنے فرمایا:’’روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی اسے افطار کے وقت ہوتی ہے، دوسری قیامت کے دن ہوگی۔ ‘‘
13- نبی کریمﷺنے فرمایا:’’جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں جو رمضان کی آخری رات تک کھلے رہتے ہیں ،جو مسلمان رمضان کی راتوں میں نماز (تراویح)پڑھتا ہے، اس کے لیے ہر رکعت کے بدلے ڈھائی ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں سرخ یاقوت کا ایک محل بنادیتے ہیں، جس کے ساٹھ دروازے ہوں گے، اور ہر رکعت کے بدلے جنت میں اس کو ایسا درخت عطا کیا تاہے جس کے سائے میں پانچ سو برس تک سوارسفر کرسکتا ہے۔‘‘ جب مسلمان رمضان کے پہلےدن روزہ رکھتا ہے تو گزشتہ رمضان سے لے کر اس رمضان تک اس نے جتنے (صغیرہ) گناہ کیے ہیں وہ سب معاف کردیے جاتے ہیں اور اس کے لیے ہر روز ستر ہزار فرشتے صبح کی نماز سے لے کر غروبِ آفتاب تک مغفرت کی دعا مانگتے رہتے ہیں۔
14-نبی کریمﷺنے فرمایا:’’شروع سال سے آخر تک رمضان کے لیے جنت سجائی جاتی ہے اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں شروع سال سے آخر تک رمضان کے روزہ داروں کے لیے بناؤ سنگار کرتی ہیں۔ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کہتی ہے: ’’اے اللہ! اپنے بندوں کو میرے اندر داخل فرما دیجیے‘‘ اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں کہتی ہیں: ’’اے اللہ اپنے بندوں میں سے ہمارے لیے خاوند مقرر فرمادیجیے،‘‘ سو جس شخص نے اس ماہ مبارک میں کسی مسلمان پر تہمت نہ لگائی اور کوئی نشہ آور چیز نہ پی، اللہ تعالیٰ اس کے گناہ مٹادے گا اور جس نے اس ماہ میں کسی مسلمان پر تہمت لگائی یا کوئی نشہ آور چیز پی لی، اللہ تعالیٰ اس کی سال بھر کی نیکیوں کو مٹادے گا۔‘‘ (یعنی نیکیوں کی برکتیں مٹا دی جائیں گی۔)
وجہ یہ ہے کہ مقدس ایام میں جس طرح نیکیوں پر ثواب زیادہ ملتا ہے اسی طرح برے اعمال کا گناہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔
15- نبی کریمﷺنے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے گیارہ مہینے رکھے ہیں جن میں تم کھاتے پیتے اور لذت اندوز ہوتے ہو اور اپنے لیے ایک مہینہ مقرر فرمایا ہے، سو ڈرو رمضان کے مہینے سے کہ بے شک وہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔‘‘
یعنی اس مہینے میں اچھی طرح اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کرو اور گناہوں سے بچو، اگرچہ احکام کی اطاعت اور نافرمانی سے اجتناب ہر حال میں ضروری ہے مگر مقدس ایام یا مقدس مقامات میں نیکی کرنے اور گناہ سے بچنے کا خاص اہتمام کرنا چاہیے کہ ان مواقع میں نیکی کا ثواب اور گناہوں پر عذاب زیادہ ہوجاتا ہے۔