طب جدید کے مطابق ”روزہ” دماغی اور نفسیاتی امراض کا کلی طور پر خاتمہ کرتا ہے۔ روزہ دار کو جسمانی کھچاؤ، ذہنی ڈپریشن کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ بعض اہم خلیوں کو آرام کا موقع فراہم ہوتا ہے۔ خون پر مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ معدے کے امراض میں مبتلا اشخاص پر مستقل ایک ماہ روزوں کے بڑے حیران کن نتائج مرتب ہوتے ہیں۔
نظام ہضم ایک دوسرے سے بہت ملے جلے اعضا پر مشتمل ہے،۔منہ اور جبڑے میں لعابی غدود، زبان، دانت، گلا ، گلے سے معدے تک خوراک لے جانی والی نالی، معدہ، بارہ انگشتی آنت، جگر، لبلبہ اور آنتوں کے مختلف حصے وغیرہ یہ تمام اعضا نظام ہضم سے تعلق رکھتے ہیں۔ بے حد معمولی مقدار خوراک حتیٰ کہ ایک گرام کے دسویں حصے کے برابر خوراک بھی معدہ میں چلی جائے تو پورا نظامِ ہضم حرکت میں آجاتا ہے تو جب چوبیس گھنٹے یہ مسلسل کام میں لگے رہیں گے اور آرام نہ کریں گے تو ان کی کارکردگی کیوں متاثرنہ ہوگی؟ روزہ انہیں آرام کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، جس کے نتیجے کے طور پر نظام ہضم میں شامل تمام اعضاء بلکہ پورے جسم پر فائدہ مند اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گلے اور خوراک کی نالی کو جو بے حد حساس ہیں، آرام ملتا ہے۔ آنتوں کو بھی توانائی حاصل ہوتی ہے۔ معدہ سے نکلنے والی رطوبتیں متوازن ہوجاتی ہیں۔ تیزابیت جمع نہیں ہوتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جگر کو چار سے چھ گھنٹے تک آرام نصیب ہوجاتا ہے۔ جگر انسانی جسم کا ایک اہم عضو ہے، جسے نظام ہضم کے علاوہ مزید پندرہ کام کرنے ہوتے ہیں۔ روزہ کا عطا کردہ یہ آرام اس کے نظام پر بڑا احسان کرتا ہے۔
عام دنوں میں خون کے اندر موجود غذائیت کے مادے اچھی طرح تحلیل نہیں ہوپاتے جس کی وجہ سے بڑی مہلک بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ روزہ کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے یہ غذائی مادے خون میں اچھی طرح تحلیل ہوجاتے ہیں۔
علاوہ اس کے روزہ خواہشات نفسانی پر کنٹرول، بھوک پیاس کی شدت کا مقابلہ، ضبطِ نفس، ذوق ِعبادت، شوقِ اعمال اور قلبی تسکین بھی پیدا کرتا ہے۔
سکندراعظم کہتا ہے: ”میری زندگی مسلسل تجربات اور حوادث میں گزری ہے، جو آدمی صبح اور شام کھانے پر اکتفا کرتا ہے وہی ایسی زندگی گزار سکتا ہے جس میں کسی قسم کی لچک نہ ہو۔ میں نے ہندوستانی سرزمین پر گرمی کے ایسے خطے پائے جہاں سبزہ جل گیا تھا لیکن وہیں میں نے صبح سے شام تک کچھ نہ کھایا نہ پیا تو میں نے اپنے اندر ایک تازگی اور توانائی محسوس کی۔”
”ارتھ شاستر” میں چندر گپت موریا” کے وزیر ”چانکیہ” کا قول ہے:
”میں نے بھوکا رہ کر جینا سیکھا اور بھوکا رہ کر اڑنا سیکھا ہے میں نے دشمنوں کی تدبیروں کو بھوکے کے پیٹ سے الٹا کیا ہے۔”
پروفیسر مور پالڈ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں: ”میں نے اسلامی علوم کا مطالعہ کیا اور جب روزے کے باب پر پہنچا تو میں چونک پڑا کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اتنا عظیم فارمولا دیا ہے؟اگر اسلام اپنے ماننے والوں کو اور کچھ نہ دیتا صرف یہی روزے کا فارمولا ہی دے دیتا تو پھر بھی اس سے بڑھ کر ان کے پاس اور کوئی نعمت نہ ہوتی۔میں نے سوچا کہ اس کو آزمانا چاہیے پھر میں نے روزے مسلمانوں کی طرز پر رکھنا شروع کر دیے ۔ میں عرصہ دراز سے معدہ کے ورم میں مبتلا تھا، کچھ دنوں کے بعد ہی میں نے محسوس کیا کہ اس میں کمی واقع ہوگئی ہے۔میں نے روزوں کی مشق جاری رکھی، پھر میں نے جسم میں اور تبدیلی بھی محسوس کی اور کچھ ہی عرصہ بعد میں نے اپنے جسم کو نارمل پایا حتیٰ کہ میں نے ایک ماہ بعد اپنے اندر انقلابی تبدیلی محسوس کی۔”
روسی ماہرالابدان پروفیسر وی این نکٹین اپنی طبعی عمر کے راز سے متعلق کہتے ہیں: ”تین اصول زندگی میں اپنا لےے جائیں تو بدن کے زہریلے مواد خارج ہوکر بڑھاپا روک دیتے ہیں: اول خوب محنت کیا کرو۔۔۔۔۔۔ دوم کافی ورزش کیا کرو بالخصوص زیادہ چلنا پھرنا چاہےے۔۔۔۔۔۔ سوم غذا جو تم پسند کرتے ہو کھایا کرو لیکن ہر مہینہ میں کم از کم ایک مرتبہ فاقہ ضرور کیا کرو۔”
واقعی! حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے: ”روزہ رکھو صحت مند رہو گے” اور فرمایا: ”روزہ رکھا کرو اس لیے کہ روزہ جہنم کی آگ اور زمانے کی مصیبتوں کے لیے ڈھال کی حیثیت رکھتا ہے۔” اور فرمایا :”روزہ رکھا کرو کہ وہ رگوں پر داغنے کے طریقہ علاج کی طرح ہے ور اکڑ کو ختم کرتا ہے۔”” روزہ رکھا کرو! وہ خالص چیز ہے۔”