فتویٰ نمبر:373
سوال(۱)جو لوگ روزہ نہیں رکھ سکتے کیا ان پر بھی صدقۃ الفطر واجب ہے؟
(۲)اگرپورامال ضائع ہوگیا تو صدقۃالفطرکا کیا حکم ہے؟
(۳)فطرہ گیہوں سےنکالنا بہتر ہے یا قیمت سے ؟اورقیمت میں کس جگہ کا اعتبارہوگا؟
الجواب حامداًومصلیاً
(۱) اگرکسی مالدار آدمی نےکسی وجہ سے رمضان کے روزے نہیں رکھے تو اس کا صدقۃالفطرمعاف نہیں ہوگا بلکہ صدقۃالفطر ادا کرنا واجب ہوگاادا نہ کرنے کی صورت میں گناہ گار بھی ہوگا اور صدقۃالفطر بدستور ذمہ میں واجب رہے گا۔
(۲) ایک مرتبہ صدقۃالفطرواجب ہونے کے بعداگرپورا مال ضائع ہوجائے تو صدقۃالفطر ساقط نہیں ہوگا۔البتہ اگرسارا مال یکم شوال کی صبح صادق سے پہلے ہی ضائع ہوا تو پھر صدقۃالفطرواجب نہیں ہوگا۔
(۳) قیمت دینا بہ نسبت گیہوں کےزیادہ بہتر ہے تاکہ مستحق آدمی اس رقم سےاپنی دیگر ضروریات کی چیز خرید سکے۔قیمت میں اعتبار اسی جگہ کا ہوگا جہاں صدقۃالفطرادا کیا جارہا ہے ۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 361)
وَكَذَا وُجُودُ الصَّوْمِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ لَيْسَ بِشَرْطٍ لِوُجُوبِ الْفِطْرَةِ حَتَّى إنَّ مَنْ أَفْطَرَ لِكِبَرٍ أَوْ مَرَضٍ أَوْ سَفَرٍ يَلْزَمُهُ صَدَقَةُ الْفِطْرِ؛ لِأَنَّ الْأَمْرَ بِأَدَائِهَا مُطْلَقٌ عَنْ هَذَا الشَّرْطِ اهـ فَافْهَمْ۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (2 / 361)
(فَلَا تَسْقُطُ) الْفِطْرَةُ وَكَذَا الْحَجُّ (بِهَلَاكِ الْمَالِ بَعْدَ الْوُجُوبِ) كَمَا لَا يَبْطُلُ النِّكَاحُ بِمَوْتِ الشُّهُودِ۔
البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي – (2 / 271)
وَلِأَنَّهَا وَجَبَتْ بِقُدْرَةٍ مُمْكِنَةٍ لَا مُيَسَّرَةٍ؛ وَلِهَذَا لَوْ هَلَكَ الْمَالُ بَعْدَ الْوُجُوبِ لَا يَسْقُطُ بِخِلَافِ الزَّكَاةِ
الفتاوى الهندية – (1 / 191)
وَهِيَ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ أَوْ صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ أَوْ تَمْرٍ ثُمَّ قِيلَ يَجُوزُ أَدَاؤُهُ بِاعْتِبَارِ الْعَيْنِ وَالْأَحْوَطُ أَنْ يُرَاعَى فِيهِ الْقِيمَةُ هَكَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ