خالد سیف اللہ رحمانی
روزہ اسلام کا اہم ترین رکن ہے، روزہ سے متعلق بنیادی احکام قرآن و حدیث میں صراحت کے ساتھ منقول ہیں ؛اسی لیے بمقابلہ دوسرے مسائل کے روزہ کے سلسلہ میں فقہاء کے درمیان نسبتا کم اختلاف رائے پایا جاتا ہے، روزہ کے لئے صوم کی تعبیر اختیار کی گئی ہے ،جس کے معنی ہی رکنے (امساک) کے ہیں، سوال یہ ہے کہ روزہ میں کن چیزوں سے رکنا ضروری ہے؟
اس سلسلے میں تین چیزوں کا ذکر خود قرآن و حدیث میں وضاحت کے ساتھ آیا ہے، کھانا (اکل)، پینا (شرب) اور عورت سے مخصوص تعلق(جما ع )۔
یہ تینوں افعال معروف ہیں ،اگر کسی عام آدمی سے بھی ان افعال کا ذکر کیا جائے تو وہ اس کے متبادر مفہوم کو با آسانی سمجھ سکتا ہے؛ لیکن جب ان افعال کے مفاہیم اور ان کا دائرہ اطلاق متعین کیا گیا اور ان کی اصطلاحی تعریف کی گئی تو قیاس و اجتہاد کا سہارا لینا پڑا، چناچہ اس پہلو سے مفسدات صوم کے بارے میں اختلاف رائے پیدا ہوا۔
نواقض صوم کے اصول
کھانا اور پینا عام طور پر منہ کے راستے سے ہوتا ہے اور جب کوئی چیز انسان کھاتا یا پیتا ہےتو ایسا نہیں ہوتا کہ سانس کی طرح ایک شئی جسم کے اندر گئی اور فورا با ہر آگئی یا کلی کی طرح پانی منہ میں ڈالا گیا اور باہر پھینک دیا گیا ،بلکہ یہ جسم میں قرار بھی پکڑتا ہے،اس کو دیکھتے ہوئے فقہاء نے چند اصول متعین کیے ہیں:
١) ۔روزہ جسم کے اندر داخل ہونے والی چیزوں سے ٹوٹتا ہے ،جسم سے خارج ہونے والی چیز سے نہیں “أنما الفطر مما دخل وليس مما خرج “اور صوم کا لفظ بھی آیا ہے “الصوم مما دخل وليس مما خرج “بعض روایتوں میں فطر کی جگہ “افطار” کا لفظ وارد ہوا ہے: “أنما الافطار مما دخل وليس مما خرج “۔
اسی لئے اگر از خود قے ہوجائے اور اسے واپس نہیں نگلے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ،اگر جسم سے خون نکالا جائے ،جیسا کہ آج کل انجیکشن کے ذریعے خون نکالا جاتا ہے اور جس کے لئے پہلے زمانے میں پچھنا لگانے (حجامۃ )کا طریقہ اختیار کیا جاتا تھا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا :”أو أدهن أو احتجم أو قبل لا يفطر”یہی امام مالک رحمہ اللہ کا نقطہ نظر ہے اور یہی رائے حضرات شوافع کی بھی ہے البتہ ۃامام احمد کے یہاں پچھنا لگانا ناقض صوم ہے۔
٢)۔ روزہ ان چیزوں سے ٹوٹے گا جو قدرتی طور پر بنے ہوئے راستوں( منافذ) کے ذریعے جسم کے اندر پہنچے ،انسان کے جسم میں جو مسامات ہیں ان کے ذریعے جسم کے اندر کسی چیز کے پہنچنے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ؛کیونکہ اگر مسامات کے ذریعے پہنچنے والی چیزیں بھی مفسد صوم ہو ں تو غسل و وضوء وغیرہ بھی ممکن نہیں رہے گا ؛اسی لئے فقہاء نے غسل کرنے،سر اور جسم میں تیل لگانے، کلی کرنے ،ناک میں پانی ڈالنے وغیرہ کو مفسد صوم نہیں مانا ہے،
چنا چہ علامہ ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
لأن الأ دهان غير مناف للصوم لعدم وجود المفطر صورة ومعني ،والداخل من المسام لا من المسالك ، فلا ينافيه كما لو أغتسل بالماء البارد ووجد برده في كبده
نیز فتاوی عالمگیری میں ہے:۔
وما يدخل من المسام البدن من الدهن لا يفطر ومن أغتسل في ماء وجد برده في باطنه لا يفطره ۔
٣)۔ تیسرا اصول یہ ہے کہ باہر سے داخل ہونے والی چیز جسم میں موجود جوف میں پہنچے اور اس میں قرار پذیر ہوجائے، تب روزہ ٹوٹے گا ؛اسی لئے فقہاء نے جابجا نواقض صوم کا ذکر کرتے ہوئے جسم کے اندر داخل ہونے والی چیز کے جوف میں پہنچنے کا ذکر کیا ہے:۔
وإن تمضمض أو أستنشق فدخل الماء جوفه إن كان ذاكرا لصومه فسد صومه ، وإن لم يكن ذاكرا لصومه لا يفسد
اسی طرح فقہاء شوافع میں امام نووی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:” من المفطرات دخول شئ في جوفه“بلکہ خود امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کی صراحت کی ہے کے اگر دوا جوف میں پہنچ جائے تو وہ کھانے پینے کے درجے میں ہے:
فان كان أنزل الدواء إذا وصل إلي الجوف بمنزلة المأكول أو المشروب، فالرطب اليابس من المأكول عندهم سواء
اگر دوا ڈالی جائے اور معدہ تک پہنچ جائے تو یہ کھانے پینے کے درجے میں ہے ، پھر کھانے کی چیز تر ہو یا خشک ،ان کے نزدیک برابر ہے۔
حنبلی دبستان فقہ کی ممتاز شخصیت علامہ ابن قدامہ کا بیان ہے :
يفطر بكل ما أدخله إلي جوفه أو مجوف في جسده، كدماغه وحلقه ونحو ذلك ، مما ينفذ إلي معدته
جو بھی چیز اس کے پیٹ( جوف )یا جسم کے کسی مجوف حصہ جیسے دماغ ،حلق وغیرہ __جس کا معدہ کی طرف راستہ ہے،___میں داخل کرے تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا
امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کے یہاں بھی اس کا اشارہ موجود ہے ،چنانچہ حقنہ کے بارے میں فرماتے ہیں:۔
وإن احتقن بشيئ يصل إلي جوفه فاري عليه القضاء
اگر کسی چیز کا حقنہ دیا جائے جو پیٹ تک پہنچ جائے تو میری رائے ہے کہ اس سے قضا واجب ہوگی (یعنی روزہ ٹوٹ جائے گا)۔
٤)۔ جوف کے سلسلے میں بعض فقہاءنے یہ قید بھی لگائی ہے کہ اس میں غذا کو ہضم کرنے اور تحلیل کرنے کی صلاحیت بھی ہو کیونکہ داخل ہونے والی چیز جسم کے لیے اسی وقت نافع ہوتی ہے جب کہ وہ ہضم ہو اور جسم کا جز بنے ،عام طور پر فقہاء شوافع نے ایک قول مرجوح کی حیثیت سے اس کا ذکر کیا ہے ،چناچہ علامہ ابن حجر ہیثمی فرماتے ہیں:
وقيل يشترط مع هذا المذكور كونه يسمي جوفا أن يكون فيه قوة تحليل الغذاء والدواء لأن ما لا تحيله لا ينفع به البدن، فكان الواصل إليه كالواصل لغير جوف وردوه بأن الواصل للحلق مفطر مع أنه غير محل فالحق به كل جوف كذلك
اور ایک رائے یہ ہے کہ “جوف “ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ اس میں غذا کو تحلیل کرنے کی صلاحیت بھی ہو ،۔۔۔۔اس لیے کہ جس چیز کو وہ تحلیل نہ کرسکے اس سے بدن فائدہ نہیں اٹھا سکتا ،لہذا جوف تک پہنچ جانے والی چیز بھی اس چیز کی طرح ہو جائے گی ،جو جوف کے علاوہ تک پہنچے ،اہل علم نے اس کا جواب دیا ہے کہ حلق تک پہنچنے والی چیزیں ناقض صوم ہیں حالانکہ اس میں کسی چیز کو تحلیل کرنے کی صلاحیت نہیں ہے؛ لہٰذا تمامجوف حصے اسی حکم میں ہونگے۔
نیز علامہ عبداللہ الکرہجی کا بیان ہے:۔
وقيل : يشترط مع هذا أن يكون فيه قوة تحليل الغذاء والدواء
ایک رائے یہ ہے کہ اس (جوف تک پہنچنے )کے ساتھ ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ اس میں غذا یا دوا کو تحلیل کرنے کی صلاحیت ہو۔
٥)۔ کفارات کے واجب ہونے میں تو قصد وارادہ کا دخل ہے یہاں تک کہ اگر بلا ارادہ کوئی چیز اندر چلی گئی تو کفارہ واجب نہیں ہوتا ،لیکن روزہ ٹوٹنے کے سلسلے میں حنفیہ کے نزدیک قصد وارادہ کی اہمیت نہیں؛ بشرطیکہ وہ ایسی چیز ہو کہ جس سے بچنا ممکن ہو ،جس چیز سے بچنا عادتا ممکن نہ ہو، وہ اگر بلاارادہ داخل ہوجائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا چناچہ علامہ داماد آفندی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وإن دخل في حلقه غبار أو دخان أو ذباب وهو ذاكر لصومه لا يفطر ولو أدخل حلقه مطر أو ثلج أفطر في الأصح
اور اگر غبار ،دھواں یا مکھی داخل ہوجائے، حالانکہ اس کو روزہ کی حالت میں ہو نا یاد ہو تب بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا اور اگر اس کے حلق میں بارش یا برف داخل ہوجائے تو زیادہ صحیح قول کے مطابق روزہ ٹوٹ جائے گا۔
٦)۔ فطری منافذ سے جو چیز بالارادہ جسم میں داخل کی جائے، ان سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ،خواہ وہ جسم کے لیے مفید ہو یا مضر ہو ،خواہ بدن کے لیے اصلاح کا باعث ہو یا فساد کا ،کفارات کے واجب ہونے میں تو اس بات کو دخل ہے کہ جو چیز داخل کی گئی ہو وہ مصلح اور مرغوب ہو ،لیکن روزہ ٹوٹنے میں اس کا اعتبار نہیں، چناچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:۔
وإذا أبتلع ما لا يتغذي به ولا يتداوى به عادة كالحجر والتراب لا يوجب الكفارة ، ولو ابتلع حصاة أو نواة أو حجرا أو مدرا أو قطنا أو حشيشا أو كاغذ ة فعليه القضاء ولا كفارة ، كذا في الخلاصة .
اور اگر کسی چیز کو نگل جائے جس کو عادتا نہ غذا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور نہ دوا کے طور پر ،جیسے: پتھر اور مٹی تو کفارہ واجب نہیں ہو گا ،اور اگر کنکر، گٹھلی ،پتھر ،مٹی کا ڈھیلا ،روئی ، گھاس یا کاغذ کو نگل جائے تو اس پر قضا واجب ہوگی،کفارہ واجب نہیں ہو گا۔
٧)۔ فطری منافذ سے جو چیز بھی معدہ تک پہنچ جائے وہ روزہ کے لیے مفسد ہے ،خواہ عادتا جسم کے اندر کسی شئی کو پہنچانے کے لیے اس کا استعمال ہوتا ہو یا نہیں چناچہ حنبلی مکتبہ فکر کے ایک ممتاز فقیہ فرماتے ہیں:۔
السابع : الاحتقان من الدبر؛ لانه يصل إلي الجوف ؛ولانه غير المعتاد في الواصل ؛ ولأنه أبلغ وأولي من الستعا ط
(روزہ توڑ دینے والی )ساتویں چیز پیچھے کی راہ سے حقنہ کرنا ہے اس لیے کہ وہ جو ف تک پہنچ جاتا ہے اور پہنچ جانے والی خلاف عادت شئی بھی عادتا پہنچنے والی شئی کے حکم میں ہے اور ناک سے چڑھانے کے مقابلے یہ زیادہ جوف تک پہنچ جانے والی صورت ہے۔
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
احتقن أو أسقط في أنفه شيئا أو أقطر في أذنه دهنا أو داوى …ألخ
حقنہ لیا ،یا ناک میں کچھ چڑھا،یا یا کان میں تیل کے قطرات ٹپکائے ، پیٹ یاسر کے گہرے زخم میں دوا ڈالی ،چناچہ حقیقتا پیٹ اور دماغ تک پہنچ گئی ،یا کنکری وغیرہ ایسی چیز جس کو انسان کھاتا نہیں ہے، یا جس سے بچتا ہے یا گھن محسوس کرتا ہے اس کو نگل گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔
ان اصول و قواعد کی روشنی میں اب مختلف فطری اور غیر فطری منافذ سے جسم کے اندر پہنچائے جانے والی اشیاء کا حکم ذکر کیا جاتا ہے۔
کان میں دوا ڈالنا
کان کے سلسلے میں فقہاء کا نقطہ نظر یہ تھا کہ دماغ جسم کا ایک مجوف حصہ ہے اور کان اور دماغ کے درمیان راستہ کھلا ہے؛ اس لیے کان میں ڈالی جانے والی دوا جوف دماغ تک پہنچ جاتی ہے، اسی بنا پر فقہائے احناف کا نقطہ نظر یہ ہے کہ کان میں ڈالے جانے والی ایسی چیز روزہ کے لیے مفسد ہے، جو جسم کے لئے مفسد ہو ؛البتہ چونکہ اس سے کوئی لذت یا منفعت حاصل نہیں ہوتی ؛اس لئے کفارہ واجب نہیں ہو گا:
ومن احتقن أو استعط أو أقطر في أذنهأفطر لقوله عليه الصلاة والسلام: الفطر مما دخل. ولوجود معني الفطر به لوصول ما فيه صلاح البدن إلي الجوف ولا كفارة عليه لانعدامه صورة ، ولو أقطر في أذنيه الماء أو دخلهما لا يفسد صومه لانعدام ا لمعني والصورة
جس نے حقنہ لیا ،ناک میں کوئی چیز چڑھائی یا کان میں تیل کے قطرات ڈالے تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور کفارہ واجب نہیں ہو گا۔
نیز صاحب ہدایہ فرماتے ہیں:۔
جس نے حقنہ لیا یا ناک میں پانی چڑھایا یا کان میں قطرہ ٹپکایا تو روزہ ٹوٹ جائے گا ؛کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :داخل ہونے والی چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اس لئے بھی کہ روزہ ٹوٹنے والی چیزوں کے سلسلہ میں جو اصل سبب ہے ،وہ یہاں پایا جا رہا ہے؛ اس لئے کہ ایسی چیز جوف تک پہنچ رہی ہے، جس میں بدن کی صلاح ہے ،البتہ کفارہ واجب نہیں ہو گا ؛کیونکہ صورۃ ناقض صوم (کھانا )نہیں پایا جا رہا ہے ؛اور اگر کان میں پانی کے قطرات ٹپک آئے یاپانی کان میں داخل ہوگیا توروزہ فاسد نہیں ہوگا ؛اس لئے کہ ناقض صوم نہ صورت کے اعتبار سے پایا جا رہا ہے اور نہ مقصد کے اعتبار سے۔
اگر کان میں پانی ڈالا جائے تو چونکہ یہ جسم کے لیے نفع و صلاح کا باعث نہیں ہے،اس لئے روزہ نہیں ٹوٹے گا :”ولو أقطر في أذنه الماء لا يفسد صومه“__البتہ یہ حنفیہ کے یہاں متفق علیہ رائے نہیں، صاحبین کے نزدیک چونکہ کان فطری اور اصلی منفذ نہیں ہے ؛اس لیے اس میں کسی چیز کے داخل کئے جانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ،خود امام صاحب سے بھی ایک اور روایت منقول ہے کہ کان میں مرطوب چیز ڈالی گئی ہو تو روزہ ٹوٹے گا اور خشک چیز ڈالی گئی ہو تو نہیں ؛کیونکہ مرطوب شئے میں پھیلنے اور پھسلنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور خشک میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی ،چناچہ علامہ داماد آفندی رحمتہ اللہ علیہ رقم طراز ہیں:۔
أو أقطر في أذنه أو داوي …ألخ
کان میں قطرہ ٹپکا ئے یا پیٹ یاسر کے گہرے زخم میں دوا ڈالے اور دوا پیٹ یا دماغ تک پہنچ جائے امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک روزہ ٹوٹ جائے گا ؛کیونکہ غذا اس کے پیٹ تک پہنچ چکی ہے ،صاحبین کی رائے ہے کہ روزہ نہیں ٹوٹے گا ،اس لئے کہ یہ منفذاصلی سے نہیں پہنچا ہے اور بظاہر صاحبین کے نزدیک خشک و مرطوب دونوں برابر ہیں جیسا کہ اکثر مشائخ کی رائے ہے؛ لہذا تر دوا بھی جوف بطن تک نہ پہنچے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ،بعض حضرات نے نقل کیا ہے کہ تر دوا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مطلقا ناقض صوم ہے۔صاحبین کو اس سے اختلاف ہے۔
امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کا جو ارشاد نقل کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کان میں دوا ڈالنے کو مفسد صوم قرار دیتے تھے ،لیکن اس وجہ سے کہ ان کے علم میں یہ بات تھی کے کان سے حلق کی طرف راستہ موجود ہے؛ اسی لئے انہوں نے فرمایا کہ اگر کان میں ڈالی ہوئی چیز کا اثر حلق تک نہیں پہنچے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ،چناچہ صاحب مدونته ناقل ہیں:۔
فهل كان مالك يكره أن يصب في أذنيه الدهن في رمضان؟ فقال:إن كان يصل ذلك إلي حلقه فلا يفعل ، قال أبن القاسم: وقال مالك: فان وصل إلي حلقه فعليه القضاء، قلت: أرأيت من صب في أذنيه الدهن من وجع؟ فقال المالك: إن كان يصل إلي حلقه فعليه القضاء ،قال أبن القاسم :ولا كفارة عليه ، وإن لم يصل إلي حلقه فلا شيء عليه
کیا امام مالک رحمتہ اللہ علیہ رمضان میں کانوں میں تیل ڈالنے کو نا درست سمجھتے تھے؟ جواب میں کہا: اگر یہ حلق تک پہنچ جائے تو ایسا نہ کرے ،ابن قاسم نے نقل کیا ہے کہ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: اگر حلق تک پہنچ جائے تو اس پر قضا واجب ہوگی ،میں نے دریافت کیا ،آپ کی اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے جو درد کی وجہ سے اپنے کانوں میں تیل ڈالے؟ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا اگر حلق تک پہنچ جائے تو قضا واجب ہے ،ابن قاسم نے کہا :البتہ اس پر کفارہ واجب نہیں ،اور اگر حلق تک نہیں پہنچے تو اس پر کچھ بھی واجب نہیں۔
فقہائے مالکیہ کی عبارتوں کو سامنے رکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اکل وشرب کے مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے معدہ تک پہنچنے کو اصل میں مفسد صوم مانا ہے اور حلق چونکہ معدہ کے لیے باب الداخلہ کی حیثیت رکھتا ہے اور جو چیز وہاں تک پہنچ گئی ہوںغالب گمان یہی ہے کہ وہ معدہ تک پہنچ جائے گی ؛اس لئے جو چیز حلق تک پہنچ جائے وہ بھی مفسدصوم ہے، چناچہ علامہ دردیر رحمتہ اللہ علیہ مفسدات صوم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وإن كان وصول المائع للحلق من غير فم كعين وأنف وازن
اگر بہنے والی چیز ان کے علاوہ کسی اور راستے سے حلق تک پہنچے ،جیسے ،آنکھ ،ناک اور کان ،(تو روزہ ٹوٹ جائے گا)۔
گویا مالکیہ کے نزدیک کان میں ڈالے جانے والی شئی مفسدصوم ہے بشرطیکہ حلق تک پہنچ جائے۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے زخم پر ڈالی جانے والی دوا کے مفسد صوم ہونے اور نہ ہونے سے بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ زخم پر تر دوا رکھی جائے یا خشک ،اگر جوف تک پہنچ جائے تو مفسد ہے: فخلص إلي جوفه فتره إذا داوي وهو ذاكر لصومه عامد لادخاله في جوفه
جوف کونسی چیزیں ہیں؟ اس سلسلے میں فقہاء شوافع نے تین چیزوں کا ذکر کیا ہے،دماغ کا اندرونی حصہ ،آنتیں اور مثانہ: “وعلي الوجهين جميعا باطن الدماغ ، والأمعاء والمثانه “_بعض حضرات نے اس پر پیٹ کا اضافہ کیا ہے __چنا چہ فقہاء شوافع نے بھی کان میں ڈالے جانے والی چیزوں کو اس صورت میں ناقض صوم مانا ہے جب وہ مذکورہ چیزوں میں سے کسی تک پہنچ جائے:۔
ولو قطر في أذنه شيئا فوصل إلى الباطن علي الأصح عن الأكثرين
اور اگر کان میں کوئی چیز ٹپکائے اور وہ اندرونی حصے تک پہنچ جائے تو زیادہ تر لوگوں کی نقل کے مطابق صحیح تر قول پر روزہ ٹوٹ جائے گا۔
کان میں ڈالی جانے والی شئے کے بارے میں غالبا بعض حضرات کے ذہن میں یہ بات تھی کان کے اندرونی حصے میں ڈالی جانے والی دوا جوف تک پہنچ جاتی ہے ؛اس لیے انہوں نے کان کے اندرونی حصے میں ڈالی جانے والی سیال دوا کو مفسد قرار دیا: “والتقطير في باطن الأذن والاحليل مفطر في الأصح ” فقہائے حنابلہ کے یہاں___ جیسا کہ اوپر مذکور ہوچکا ہے ___بنیادی اصول یہ ہے کہ باہر سے کوئی چیز جسم کے اندر داخل ہو اور مجوف حصّہ تک پہنچ جائے تب روزہ ٹوٹے گا،__
کیونکہ قدیم اطباء کا خیال تھا کہ کان کا دماغ کی طرف راستہ ہے اور دماغ مجوف ہئیت کا حامل ہے ؛اس لئے انہوں نے بھی لکھا ہے کہ اگر کان میں کوئی چیز ٹپکایا جائے اور دماغ تک پہنچ جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا چنانچہ علامہ ابن قدامہ کا بیان ہے:
أو قطر في أذنه فوصل إلي دماغه أو داوي مامومة بما يصل إليه أفطر
ائمہ اربعہ کے علاوہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے بارے میں بھی منقول ہے کہ انہوں نے بھی روزہ کی حالت میں کان میں دوا ڈالنے کو منع کیا ہے:فانه قد منع من صب الدواء في الأذن ،فمنعه من صبه في الأنف أولي ۔
حاصل یہ ہے کہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کان میں کسی شئی کا ڈالنا ناقض صوم نہیں ہے ،چاہے وہ خشک ہو یا تر ،امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے قول مشہور کے مطابق مطلقا روزہ ٹوٹ جائے گا ،مگر ایک روایت کے مطابق اگر کوئی مرطوب شئی کان میں ڈالی جائے توروزہ فاسد ہوگا ،خشک شئی کے ڈالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک اگر کوئی خشک چیز کان میں ڈالی جائے توروزہ فاسد نہیں ہوگا ،سیال شئی کا ڈالنا روزہ کے لیے اس وقت مفسدہے جبکہ وہ حلق تک پہنچ جائے ،امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کان میں ڈالی جانے والی شئے اگر اندر پہنچ جائے خواہ معدہ کی طرف یا دماغ کی طرف ،تو روزہ ٹوٹ جائے گا ،امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک اگر کان میں ڈالی جانے والی شئی دماغ تک پہنچ گئی تو روزہ ٹوٹ جائے گا ،ان تمام آراء کو سامنے رکھنے سے جو بات قابل وضاحت نظر آتی ہے،وہ یہ ہے کہ کان کا راستہ دماغ کی طرف یا حلق کی طرف ہے یا نہیں؟
اس سلسلے میں قدیم فقہاء کے عہد میں واضح تحقیق سامنے نہیں آئی تھی، بعض حضرات کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کان کا راستہ بند ہے ؛اس لیے انہوں نے کان میں ڈالی جانے والی اشیاء کو مفسد صوم نہیں مانا ہے ،بعض حضرات کو یہ بات پہنچی کہ کان سے دماغ یاحلق تک راستہ موجود ہے اس لیے انہوں نے اس کو مفسد صوم مانا ہے، اور بعض فقہاء کو اس بارے میں تذبذب تھا؛اس لیے انہوں نے مشروط حکم بیان فرمایا کہ اگر کان میں ڈالیں جانے والی شئی حلق یا جوف دماغ تک پہنچ جائے تو مفسد صوم ہے ورنہ نہیں۔
یہ بات ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں کوئی نص موجود نہیں ہے ،فقہاء نے حکم کی بنیاد اپنے زمانے کی طبی معلومات پر رکھی ہے؛اس لیے موجودہ طبی تحقیق کی روشنی میں ہی اسکا حکم متعین کیا جاسکتا ہے ؛کیونکہ موجودہ دور میں علم الابدان اور میڈیکل سائنس میں بے حد ترقی ہوئی ہے اور انسان ناصر ف جسم کےاندرونی اجزا کے بارے میں واقف ہو چکا ہے ؛بلکہ ان اعضاء کے اندر کھلی آنکھوں نظر نہ آنے والے خلیات اور ان خلیات کی ترتیب میں شامل ہونے والے جین کی بھی تحقیق ہوچکی ہے ،بلکہ ایک مستقل سائنس اس سلسلے میں وجود میں آچکی ہے ۔موجودہ دور میں ڈاکٹروں کی تحقیق یہ ہے کہ کان کی انتہاء پر ایک ایسا پردہ موجود ہے ،جو اس پورے راستے کا احاطہ کرتا ہے، یہی پردہ اصل میں آلہ سماعت ہے ، جب تک یہ پردہ محفوظ رہے ،کان میں ڈالے جانے والی کوئی شئی حلق تک نہیں جا سکتی ،چنانچہ لوگوں کا تجربہ بھی ہےکہ آنکھ اور کان میں ڈالی جانے والی اشیاء کا مزہ جس طرح حلق میں محسوس ہوتا ہے کان میں ڈالی جانے والی اشیاء کا ذائقہ حلق میں محسوس نہیں ہوتا ہے۔
جہاں تک دماغ کی بات ہے تو قدرت نے اس کی حفاظت کا غیر معمولی انتظام کیا ہے ایک سخت اور مضبوط سات تہوں والی کھوپڑی کے بعدچمڑے کی دبیز تہہ ہے ،پھر اس کے بعد ایک جھلی کے اندر دماغ کا ڈھانچہ رکھا گیا ہے، دماغ میں کوئی ایسا مجوف حصہ نہیں ہے جس میں کسی شئی کے قرار پذیر ہونے کی گنجائش ہو ،بلکہ اگر کوئی شئی دماغ کے اندر پیوست ہو جائے تو اس سے انسان کا پورا جسمانی نظام فساد کا شکار ہو سکتا ہے ؛کیونکہ دماغ نہایت ہی باریک اعصابی نظام پر مشتمل ہے؛ اس لئے جو بات درست معلوم ہوتی ہے ، وہ یہ ہے کہ کان میں دوا یا تیل وغیرہ کا ڈالنا یا پانی کا چلا جانا ناقض صوم نہیں ہے اور فقہاء کا جو اختلاف ہے وہ حقیقی اختلاف نہیں ہے ، بلکہ صورت مسئلہ کی بابت اس عہد میں فوری تحقیق سامنے نہ آنے کی وجہ سے ہے ،ہاں اگر کسی شخص کے کان کا پردہ پھٹ جائے اور کان میں ڈالے جانے والی شئے کا ڈاکٹروں کے بیان کے مطابق حلق تک پہنچنا ممکن ہو گیا ہو__ جو بظاہر ممکن نہ ہو __تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔
آنکھ میں دوا کا حکم
حنفیہ کے نزدیک آنکھ میں دوا ڈالی جائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا:
ولو أقطر شيئا من الدواء في عينيه لا يفطر صومه عندنا وإن وجد طعمه في حلقه، وإذا بزق فراي أثر الكحل ولونه في بزاقه ، عامة المشايخ علي أنه لا يفسد صومه
اگر آنکھوں میں کوئی دوا ٹپکا ئے تو ہمارے نزدیک روزہ نہیں ٹوٹے گا ،گو حلق میں اس کا مزا محسوس ہو اور جب تھوکے اور تھوک میں سرمہ کا اثر اور رنگ پائے تب بھی اکثر مشائخ کی رائے یہی ہے کہ روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
اسی لیے فقہ حنفی کی تمام ہی کتابوں میں اس کی صراحت ملتی ہے کہ سرمہ لگانا ناقض صوم نہیں ہے۔
فقہائے مالکیہ نے یہاں بھی اسی اصول کو برتا ہے جو کان کے سلسلے میں ہے کہ اگر ڈالی جانے والی شئی سیال ہو اور حلق تک پہنچ جائے تب روزہ ٹوٹ جائے گا ورنہ نہیں:” وإن كان وصول المائع للحلق من غير فم كعين“
دسوقی نے صراحت کی ہے یہ حلق تک نہیں پہنچے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا:
فان تحقق عدم وصوله للحلق من هذه المنافذ ، فلا شئ عليه الخ
البتہ سرمہ لگانے کے سلسلے میں خود امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اصول بیان فرمایا ہے کہ اگر حلق تک پہنچ جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضا واجب ہوگی:
قلت: فهل كان مالك يكره الكحل للصائم؟ فقال: قال مالك: هو أعلم بنفسه منهم من يدخل ذلك حلقه، منهم من لا يدخل ذلك حلقه ، فان كان ممن يدخل ذلك حلقه فلا يفعل، قلت: فان فعل أترى عليه القضاء والكفارة؟ فقال: قال مالك: إذا دخل حلقه وعلم أنه قد وصل الكحل إلي حلقه فعليه القضاء
میں نے دریافت کیا: کیا امام مالک روزہ دار کے لیے سرمہ لگانے کو نا درست سمجھتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: امام مالک نے کہا: وہ اپنے حال سے خود ہی زیادہ واقف ہے ؛کیونکہ بعض لوگ اسے حلق تک پہنچا دیتے ہیں اور بعض نہیں پہنچاتے ،اگر حلق تک پہنچ جاتا ہوں تو سرمہ نہیں لگائے ،میں نے پوچھا: اگر ایسا کر ہی لے تو کیا آپ کی رائے میں اس پر قضا اور کفارہ واجب ہو گا؟ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا :حلق میں داخل ہو اور یقین ہوجائے کہ سرمہ حلق تک پہنچ گیا ہے تو اس پر قضا واجب ہوگی۔
یہی بات دوسرے فقہائے مالکیہ نے بھی لکھی ہے۔
فقہاء شوافع کے نزدیک آنکھ چونکہ خود جوف نہیں ہے اور ان کی تحقیق کے مطابق آنکھ سے حلق کی طرف راستہ بھی نہیں ہے ؛اس لئے آنکھ میں سرمہ لگانا ناقض صوم نہیں ہے ،گرچہ اس کا اثر حلق میں محسوس ہو، چنانچہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
لا باس بالاكتحال للصائم ، سواء وجد في حلقه منه طعمأ أم لا ؛ لأن العين ليست بجوف، ولا منفذ منها إلي الحلق ۔
ابن حجر ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی لکھا ہے اور صراحت کی ہے کہ اگر سرمہ کا رنگ و مزہ محسوس ہو تب بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا ،__لیکن انہوں نے اس بات کو ترجیح دیا ہے کہ یہ خلاف اولیٰ ہے ،شیروانی نے اس پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے یہ محض خلاف اولیٰ نہیں، بلکہ مکروہ ہے ؛کیونکہ جن لوگوں نے ناقض صوم نہ ہونے سے اختلاف کیا ہے ان کی دلیل بھی قوی ہے:۔
أقول:قوة الخلاف لا تناسب كونه خلاف أولي؛ بل تويد الكراهة
جب سر مہ کے اجزاء کا حلق تک پہنچ جانا روزہ کے لیے مفسد نہیں ہے ،تو بظاہر یہی حکم سیال چیزوں کے ڈالنے کا بھی ہونا چاہیے ؛کیونکہ خشک چیزوں میں کسی شئی کے اجزاء زیادہ مقدار میں موجود ہوتے ہیں اور عام طور پر سیال اشیاء میں نسبتا کم۔
حنابلہ کے نزدیک سرمہ یا کوئی بھی شئی آنکھ میں ڈالی جائے حلق تک پہنچ جائے ناقض صوم ہے:۔
۔۔۔۔أو ما يدخل من العين إلي الحلق كالكحل
کیونکہ فقہائے حنابلہ کی تحقیق یہ ہے کی آنکھ کا حلق کی طرف منفذ موجود ہے ،چنانچہ ابن قدامہ وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
وإن اكتحل فوصل الكحل إلي حلقه أفطر، لأن العين منفذ ولذلك ….ألخ
اگر سرمہ لگائے اور سرمہ حلق تک پہنچ جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا ا؛س لئے کہ آنکھ منفذہے اور اسی لیے سرمہ لگانے والا سرمہ کی تلخی اپنے حلق میں محسوس کرتا ہے ،نیز سرمہ کے اجزاء اسکی نیٹ میں نکلتے ہیں اور اگر سر مہ کے حلق تک پہنچنے میں شک ہو؛ کیونکہ وہ سلائی وغیرہ پر لگے ہوئے سرمہ کی طرح معمولی مقدار میں ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
غرض کے حنفیہ اور شوافع کے نزدیک آنکھ میں ڈالے جانے والی سیال یا جامد اشیاء سے روزہ نہیں ٹوٹتا ،اگرچہ اس کا ذائقہ اور بوحلق تک پہنچ جائے، اور حنابلہ کے نزدیک آنکھ میں ڈالے جانے والی شئی کا اثر حلق میں محسوس ہو تو روزہ ٹوٹ جائے گا ورنہ نہیں ،اور مالکیہ کی رائے میں سیال دوا ڈالی جائے، تب تو مطلقا ناقض صوم ہے ،اور اگر سرمہ لگایا جائے تو اس صورت میں روزہ ٹوٹے گا کے حلق میں اس کا اثر محسوس کیا جائے۔
جن حضرات نے آنکھ میں دوا یا سرمہ کو ناقض صوم قرار دیا ہے ،انہوں نے اکل وشرب پر قیاس کیا ہے ؛کیونکہ کھانے پینے کے ناقض صوم ہونے کا حکم تعبدی نہیں ہے ،ملک علت معلوم ہے اور و ہ علت ہے باہر سے کسی چیز کا معدہ تک پہنچنا، یہ علت اس صورت میں بھی پائی جاتی ہے، جب آنکھ کے ذریعے کوئی چیز حلق تک پہنچے ،چونکہ سیال شئی کے بارے میں زیادہ امکان ہے کہ وہ حلق تک پہنچ جائے ؛اسی لئے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں سیال شئی مطلق ناقض صوم ہےاور اگر سرمہ ہو تو روزہ اس صورت میں فاسد ہوگا جبکہ حلق تک اس کا اثر پہنچ گیا ہو، جن حضرات نے آنکھ میں ڈالی جانے والی دوا یا سرمہ کوناقض صوم نہیں مانا ہے، ان کے پیش نظر دو حدیثیں ہیں ،ایک روایت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ہے:
جاء رجل إلي النبي صلي الله عليه وسلم ، قال: اشتكت عيني، أفاكتحل وأنا صائم؟ قال: نعم۔
ایک صاحب بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے، عرض کیا: میری آنکھوں میں تکلیف ہے کیا میں روزہ میں سرمہ لگا سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ہاں۔
اس روایت کو امام ابوداؤد نے بھی نقل کیا ہے:” أن أنس بن مالك أنه كان يكتحل وهو صائم” امام ترمذی نے اس روایت کو ابو عاتقہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس مضمون کی کوئی صحیح روایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں۔ دوسری روایت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہے :”اكتحل رسول الله صلي الله عليه وسلم وهو صائم “۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کی حالت میں سرمہ لگایا ہے یہ روایت بھی سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت پر کلام کرتے ہوئے لکھا ہے:
قال النووي في شرح المهذب: رواه أبن ماجة باسناد ضعيف ….ألخ
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مہذب میں لکھا ہے کہ اسے ابن ماجہ نے ایک ضعیف سند سے روایت کیا ہے، یعنی بقیہ، سعید بن ابی سعید سے اور وہ ہشام سے ،حالانکہ سعید ضعیف ہیں، اور حفاظ حدیث کا اتفاق ہے کہ مجہول راوی سے بقیہ کی روایت قبل رد ہے ،ابو حاتم سے منقول ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے اور انہوں نے محمد کے بارے میں کہا ہے کہ وہ منکر الحدیث ہیں جو بیہقی کی سند میں آئے ہیں ،یعنی محمد بن عبید اللہ بن رافع ،یہی بات امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے بھی کہی ہے اور ابن حبان نے ان کو ضعفا میں شمار کیا ہے۔
زوائد ابن ماجہ میں بھی سید بن عبد الجبار ز بیدی کی وجہ سے اس کو ضعیف قرار دیا گیا ہے۔
نووی رحمۃ اللہ علیہ کے اس اقتباس میں ابو رافع کی جس روایت کا ذکر آیا ہے سے طبرانی اور بیہقی نے نقل کیا ہے:۔
كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يكتحل بالاثمد وهو صائم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کی حالت میں اثمد نامی سرمہ لگایا کرتے تھے۔
علامہ ہیثمی نے اس روایت کو سند کے اعتبار سے ضعیف قرار دیا ہے؛ کیونکہ اس میں حبان اور محمد بن عبید ضعیف ہیں:”حبان بن علي بن محمد بن عبيد الله بن أبي رفع وقد وثقا وفيهما كلام كثير “
اس روایت کو بیہقی نے بھی شعب الایمان میں بھی نقل کیا ہے اور ضعیف قرار دیا ہے، علامہ ز یلعی نے اس روایت کے ضعیف ہونے پر تفصیل سے کلام کیا ہے ،اس طرح یہ روایت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے،لیکن اس کی سند بھی قوی نہیں۔
ان تفصیلات سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ روزہ میں سرمہ لگائے جانے سے متعلق احادیث ضعف سے خالی نہیں ہیں،اور غالبا جن حضرات نے آنکھ میں دوا ڈالنے کو اور سرمہ لگانے کو ناقض صوم نہیں مانا ہے ،ان کو اس بارے میں تردد تھا کہ آنکھ سے حلق کی طرف فطری منفذ ہے یا نہیں؟
موجودہ دور میں یہ بات میڈیکل سائنس کی روشنی میں تحقیق کو پہنچ گئی ہے کہ آنکھ کا راستہ حلق تک موجود ہے، یہ بات تجربے سے بھی ثابت ہےکہ ڈالی جانے والی دوا کا اثر فوری طور پر حلق میں محسوس ہوتا ہے ؛اس لیے اس فقیر کی رائے ہے کہ اس سلسلے میں امام مالک رحمہ اللہ کا نقطہ نظر زیادہ قابل قبول اورمبنی بر احتیاط ہے کہ اگر آنکھ میں سیال دوا ڈالی جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور سرمہ لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ،مگر کراہت سے یہ بھی خالی نہ ہوگا ۔واللہ اعلم
ناک کے ذریعے دوا وغیرہ پہنچانا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کی حالت میں وضو میں ناک میں پانی ڈالتے ہوئے مبالغہ سے گریز کرنے کا حکم دیا ہے،چناں چہ حضرت لقیط بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ نقل کرتے ہیں:
بالغ في الاستنشاق إلا أن تكون صائما
اسی لئے فقہاء نے صراحت کی ہے کہ روزہ دار ناک میں پانی ڈالتے ہوئے مبالغہ نہ کرےبلکہ ہلکے طریقہ پر ناک میں پانی ڈالے:
الصائم لا يبالغ أي مطلقا ولو صام نفلا
اس سے معلوم ہوا کہ خود ناک میں کسی چیز کا داخل کیا جانا ناقض صوم نہیں ہے ،ورنہ تو روزہ دار کو ناک میں پانی ڈالنا ممنوع ہوتا نہ کہ سنت اور بعض فقہاء کے اقوال پر واجب ،البتہ چونکہ ناک کا راستہ حلق کی طرف اور قدیم فقہاء کے بیان کے مطابق دماغ کی طرف ہے ،اور ناک سے کوئی چیز کھینچی جائے ،یا اس میں کوئی چیز ڈالی جائے تو اس بات کا غالب امکان ھے کہ وہ ناک کے بانسوں سے آگے بڑھ کر حلق یا دماغ تک پہنچ جائے،اس لیے اسے ناقض صوم مانا گیا ہے ،چناچہ علامہ ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ علیہ نے” نواقض صوم “کا ذکر کرتے ہوئے ناک میں چڑھانے (استعاط )کا بھی ذکر کیا ہے ،یہی بات دیگر فقہائے احناف نے بھی لکھی ہے ،___فقہائے مالکیہ بھی صراحت کرتے ہیں کہ اگر ناک کے ذریعے کوئی مائع یعنی سیال چیز حلق تک پہنچ جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور اگر سیال چیز نہ ہو تو صرف حلق تک پہنچنے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ،بلکہ معدہ تک پہنچنے سے روزہ ٹوٹے گا ،علامہ برذلی مالکی سے منقول ہے:۔
من رعف فامسك أنفه وخرج الدم من فيه ولم يرجع إلي حلقه فلا شيء عليه ؛ لأن المنفذ الأنف إلي الفم دون الجوف، فهو ما لم يصل إلي الجوف لا شيء
جس کو نکسیر ہوجائے وہ اپنی ناک کو پکڑ لے،خون اس کے منہ سے نکل جائے اور حلق کی طرف لوٹے نہیں ،تو اس پر کچھ واجب نہیں ؛کیونکہ ناک کا منفذ منہ کی طرف ہے نہ کہ جوف کی طرف ،تو جب تک جوف تک نہ پہنچے کچھ واجب نہیں ہو گا۔
فقہاء شوافع نے بھی ناک میں کسی چیز کے چڑھانے کو ناقض صوم قرار دیا ہے،یہی بات دیگر شوافع اہل علم نے بھی کہی ہے :۔۔”مفطر بالاستعاط راجع للدماغ“خود امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں جو بات لکھی ہے، وہ قابل ذکر ہے اور فقہاء شوافع کی تصریحات سے کسی قدر مختلف معلوم ہوتی ہے ،چنانچہ فرماتے ہیں :
ولا یستبلغ فی الاستنشاق ؛ لئلايذهب في راسه ،وإن ذهب في رأسه لم يفطر
اور روزہ دار ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ سے کام نہ لے کہ کہیں پانی اسکے سر میں چلا جائے اگر سر میں چلا گیا تو روزہ فاسد نہیں ہوگا۔
اس سے معلوم ہوا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ناک سے کسی چیز کا دماغ کی طرف جانا مفسدصوم نہیں ہے ،شاید اس سلسلے میں ایک سے زیادہ اقوال ہو ںاور فقہ شافعی کے متبعین نے احتیاطا روزہ فاسد ہونے والے قول کولیاہو۔
حنابلہ کے یہاں بھی ناک میں کسی چیز کے کھیچنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ،کیونکہ انکے نزدیک ناک کا راستہ دماغ کی طرف ہے ،چناچہ علامہ ابن قدامہ فرماتے ہیں :
لانه إذا بطل بالسعوط ضل علي أنه يبطل بكل واصل من أي موضع كان ولان الدماغ أحد الجوفين فأبطل الصوم ما يصل اليه كالآخر
…اس لیے کہ جب ناک میں چڑھانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ،تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جوف دماغ تک پہنچنے والی چیز روزہ کو باطل کر دیتی ہے، خواہ وہ کسی جگہ سے پہنچے اور اس لئے کہ دماغ بھی دوجوف میں سے ایک ہے ،تو جوف معدہ کی طرح جوف دماغ میں بھی پہنچنے والی چیز مفسدصوم ہوگی۔
فقہ حنبلی کی دوسری کتابوں میں بھی ناک میں کسی چیز کے چڑھانے سے روزہ ٹوٹ جانے کا ذکر موجود ہے۔
حنابلہ کا عام قول تو یہی ہے کہ ناک میں چڑھائی جانے والی شئے اس وقت مفسدصوم ہوگی جبکہ ،وہ حلق یادماغ تک پہنچ جائے؛ البتہ ایک قول یہ بھی ہے کہ اگر خیشوم یعنی ناک کے بانسو ں کے آخری حصے تک پہنچ جائے تو اس سے بھی روزہ ٹوٹ جائے گا۔
قوله : أو استعط، سواء كان بدهن أو غيره ، فوصل إلي حلقه أو دماغه ، فسد صومه ،هذا المذهب، وعليه الأصحاب …ألخ
ناک میں کسی چیز کے ڈالنے کا مفسدصوم ہونا ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی منقول ہے چناچہ سعدی حبیب نے اس پر اجماع قرار دیا ہے:“كره أهل العلم السعوط للصائم وراو أن ذلك يفطره “۔
منہ کے ذریعے غذا یا دوا وغیرہ کا اندر جانا
کتاب وسنت میں روزہ کی حالت میں اصلا جس چیز سے رکنے کا حکم دیا گیا ہے وہ اکل وشرب یعنی کھانا پینا ہے ،اور کھانے پینے کا اصل راستہ منہ ہے لیکن منہ میں رکھنے کو کھانا پینا نہیں کہتے ،جب تک کہ کوئی چیز حلق سے گزر کر آگے نہ چلی جائے اور عام طور پر جو چیز حلق سے تجاوز کرتی ہے، وہ معدہ تک پہنچ جاتی ہے ؛اس لیے اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کوئی چیز منہ کے راستے سے نگل لی جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا ،خواہ نگلنے والی چیز دوا ہو یا غذا یا کوئی اور چیز ،اور وہ جسم کے لیے مفید ہو یا نقصان دہ ،فرق صرف اتنا ہوگا کہ جو چیز عادتا نہیں کھائی جاتی ہے، جیسے: کنکر ،لکڑی ،لوہا کاغذ ،تو ان کے کھانے پر صرف روزہ کی قضا واجب ہوگی ،کفارہ نہیں ،یہاں تک کہ حنفیہ کے نزدیک اگر خطا ( بلا ارادہ ) پانی حلق سے نیچے چلا گیا تب بھی روزہ ٹوٹ جائے گا:
وإن تمضمض أو أستنشق فدخل الماء جوفه ،إن كان ذاكرا لصومه ،فسد صومه وعليه القضاء
بلکہ اگر کسی شخص نے روزہ دار کی طرف کوئی چیز پھینکی اور وہ حلق میں داخل ہوگئی تب بھی روزہ ٹوٹ جائے گا:۔
ولو رمي رجل إلي صائم شيئا فدخل حلقه فسد صومه؛ لانه بمنزلة المخطي
اگر حلق میں بارش یا فضا سے گرنے والا ژالہ چلا جائے تب بھی روزہ ٹوٹ جائے گا :”ولو دخل حلقه مطر أو ثلج أفطر في الأصح“___اسی طرح اگر دھواں بلاارادہ حلق میں چلا جائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ؛کیونکہ انسان کے لیے اس سے بچنا دشوار ہے، لیکن اگر بالارادہ دھواں لیا جائے ،جیسا کہ عود کی دھونی لی جاتی ہے یا بیڑی ،سگریٹ اور حقہ پیا جاتا ہے تو روزہ فاسد ہوجائے گا ؛کیونکہ یہ چیزیں حلق تک پہنچ جاتی ہیں، البتہ روزہ اس وقت ٹوٹے گا جب کوئی چیز حلق تک پہنچ جائے ،اگر صرف منہ کے اندر ہے اور پھر باہر پھینک دی جائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ؛کیونکہ یہ کھانے پینے میں شامل نہیں ہے ،چناچہ اگر کسی چیز کو چبا کر پھینک دیا جائے یا چکھا جائے ،اسکے اجزا نگلے نہ جائیں توروزہ فاسد نہیں ہوگا ،جیسا کہ شریعت نے روزہ کی حالت میں کلی کرنے کی اجازت دی ہے ،کلی کرنے میں بھی منہ میں پانی کی رطوبت اور اس کا اثر پایا جاتا ہے، کھارا پانی ہو تو اس کا ذائقہ بھی محسوس ہوتا ہے۔
مالکیہ کا نقطہ نظر بھی یہی ہے اگر کوئی شئی اس طرح ککھائی گئی کہ حلق سے نیچے اتر جاے توروزہ فاسد ہوجائے گا ،چاہے پانی ہو کھانے کی چیز ہو یا کچھ اور ہو ،چناچہ علامہ دردیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
وحاصل المسألة أن وصول الماء للحلق من منفذ أ علي ولو غير الفم مفطر…ألخ
حاصل یہ ہے کہ پانی کا منفذ اصلی سے حلق تک پہنچ جانا ،اگرچہ کہ منہ کے علاوہ سے ہو، ناقض صوم ہے،۔۔سیال چیزوں ہی کے حکم میں دھونی وغیرہ بھی ہے، اس کا بھی حلق تک پہنچ جانا ناقض صوم ہے ،اور اسی کی طرف مصنف نے اپنے قول ” أو كف عن ۔۔۔”سے اشارہ کیا ہے کے روز ہ ایسے دھوئیں سے بھی رکنے کا نام ہے ،جس سے انسان کو راحت حاصل ہوتی ہے ، جیسےعود ،مصطلگی وغیرہ کی دھونی یا کھانےکی ہانڈی کا بھاپ، کہ جب یہ حلق کو پہنچ جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضا واجب ہوجائے گی ،اور اسی حکم میں وہ دھواں ہے، جو پیا جاتا ہے یعنی جسے بانس کے پائپ کے ذریعے کھینچا جاتا ہے ،بخلاف جلا ون وغیرہ کے دھوئیں اور راستے کے غبار کے۔
اسی طرح علامہ دسوقی رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے:۔
فمتي وصل أو دخان البخور أو بخار القدر للحلق وجب القضاء أو لأن دخان البخور وبخار القدر كل منهما جسم يتكيف به الدماغ ويتقوي به أي تحصل له قوة كالتي تحصل له من الاكل
جب بخور کا دھواں یا ہانڈی کا بھاپ حلق تک پہنچ جائے تو قضا واجب ہوگی ؛اس لئے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک سے دماغ کو راحت و قوت حاصل ہوتی ہے ،جیسا کہ کھانے سے حاصل ہوتی ہے۔
البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض فقہائے مالکیہ کے نزدیک سیال اور غیرسیال کے درمیان تھوڑا سا فرق کیا گیا ہے ،سیال چیز کے حلق تک پہنچنے کے بعد غالب امکان یہی ہے کہ وہ معدہ تک بھی پہنچ جائے گی ؛لیکن جو چیز سیال نہ ہو، اس کے بارے میں بعض فقہائے مالکیہ کی رائے ہے کہ اگر وہ حلق سے گزر کر معدہ تک پہنچ جائے تب ہی روزہ ٹوٹے گا ورنہ نہیں ، اور دوسرا قول وہ ہے ،جسے علامہ حطاب نے نقل کیا ہے کہ چاہے کوئی چیز سیال ہو یا غیر سیال، حلق تک پہنچ جانا ہی روزہ کے ٹوٹنے کے لیے کافی ہے ،پھر جن لوگوں نے سیال اوغیر سیال میں فرق کیا ہے، ان کے نزدیک بھی بخور یعنی دھونی لینا سیال کے حکم ہے:۔
وحاصل المسألة أن وصول الماء للحلق من منفذ أ علي ولو غير الفم مفطر… ألخ
حا صل یہ ہے کہ بالائی منفذ سے حلق تک پانی کا پہنچنا __اگرچہ منہ کے علاوہ سے ہو __ناقض صوم ہے،۔۔۔ اور جو سیال نہ ہو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا ،جب تک کہ منہ کے راستے سے معدہ تک نہ پہنچ جائے،لیکن حطاب وغیرہ نے “تلقین ” سے نقل کیا ہے کہ جو چیز بھی حلق تک پہنچ جائے ،اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا ،چاہے وہ سیال ہو یا غیر سیال اور شیخ کے کلام سے یہی بات ظاہر ہوتی ہے ، اور سیال چیزوں ہی کے حکم میں بخور وغیرہ ہیں ،کہ ان کا حلق تک پہنچ جانا ناقض صوم ہے اور اس کی طرف مصنف نے ” أو كف عن ۔۔۔”سے اشارہ کیا ہے ۔
اگر کوئی چیز صرف چبائی یا چکھی جائے اور نگلی نہ جائے تو اس سے تو اس صورت میں روزہ ٹوٹے گا یا نہیں؟
امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں کراہت کا لفظ استعمال کیا ہے ،چناچہ مدونہ کی یہ عبارت قابل ملاحظہ ہے:
قلت: أكان مالك يكره أن يذوق الصائم الشيء مثل العسل الملح وما أشبهه وهو صائم، ولا يدخله جوفه؟ فقال: نعم لا يذوق شيئا ..قال أبن القاسم : كره مالك للصائم مضغ العلك ومضغ الطعام للصبي
میں نے دریافت کیا :کیا امام مالک رحمۃاللہ روزہ دار کیلئے شہد ،نمک اور اس جیسی چیزوں کے چکھنے __جو پیٹ میں داخل نہ ہو، __کو مکروہ قرار دیتے تھے؟: انہوں نے جواب دیا :ہاں ،روزہ دار کو کوئی چیز چکھنی نہیں چاہیے ،۔۔۔ابن قاسم کا بیان ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے روزہ دار کے لیے گوند کو چبانے اور بچے کے لئے کھانا چبانے کو مکروہ کہا ہے۔
امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کے یہاں بعض دفعہ کراہت سے حرمت کا معنی مراد ہوتا ہے ؛لیکن بظاہر یہاں کراہت سے کراہت ہی مراد ہے ؛کیونکہ اصولی طور پر جب تک کوئی چیز حلق تک نہ پہنچے تو مالکیہ کے یہاں روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے ؛لہذا جیسے دوسرے فقہاء کے نزدیک عام حالات میں منہ میں کھانے پینے کی چیز رکھنا یا ذائقہ چکھنا مکروہ ہے، مالکیہ کے نزدیک بھی مکروہ ہے۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ اگر کوئی شخص کلی کرے اور یقین ہو کہ پانی جوف معدہ تک پہنچ گیا ہے ،تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔
فان استيقن أنه قد وصل إلي الراس أو الجوف من المضمضة وهو عامد ذاكر لصومه فطره
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی نقل کیا ہے کہ کوئی شئی حلق سے آگے بڑھ جائے تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا:۔
وقال الإمام :إذا جاوز الشيئ الحلقوم أفطر
شوافع کے یہاں چونکہ یہ بات صراحت و وضاحت کے ساتھ آئی ہے کہ جب تک باہر سے جانے والی چیز کسی مجوف حصّہ میں نہ پہنچ جائےروزہ نہیں ٹوٹے گا __اور پھر جوف کی حیثیت سے دماغ ،آنت اور مثانہ کا ذکر کیا گیا ہے ،۔۔کی روشنی میں نیزاوپر جو عبارتیں مذکور ہوئیں، ان کو سامنے رکھ کر جو بات واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ شوافع کے یہاں حلق تک کسی شئی کا پہنچنا ناقض صوم نہیں ،بلکہ حلق سے گزر کر آنتوں تک پہنچنا مفسدصوم ہے ،تاہم اگر دھواں اور غبار قصدا کشید کیا جائے تب بھی اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے:
وما أفتي به البرمادي من أنه لا يفطر بوصول الدخان إلي جوفه إذا …ألخ
علامہ برما دی نے جو فتوی دیا ہے کہ “پیٹ تک دھوئیں کے پہنچنے سے__ اگرچہ وہ بخور کی دھونی کی بھی شامل ہو ،__روزہ نہیں ٹوٹے گا “کو اسی صورت پر محمول کرنا متعین ہے جبکہ اس نے پیٹ تک دھواں پہنچانے کی غرض سے منہ کو کھلا نہیں رکھا ہو اور۔۔۔ کا قول پہلے گذرچکا ہے کہ دھواں عین ہے ،اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔
غرض کہ شوافع کے نزدیک بھی کسی چیز کا حلق سے نیچے چلے جانا مفسدصوم ہے، خواہ وہ سیال ہو،جامد ہو یا گردوغبار کی صورت میں ہو ۔
حنابلہ نے صراحت کی ہے کہ کوئی بھی چیز حلق ۔یا جوف معدہ یا دماغ تک پہنچ جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا خواہ وہ سیال ہو یا غیر سیال ،اور عادتا اسے کھایا جاتا ہوں یا نہیں، نیزو ہ پگھل جانے کی صلاحیت رکھتی ہو یا نہیں۔
والثاني عشر : كل ما وصل إلي الجوف أو الحلق أو الدماغ من …ألخ
اسی طرح ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کوئی بھی شئے کسی بھی جگہ سے پیٹ تک پہنچ جائے تو روزہ فاسد ہوجائے گا :” أو أدخل إلي جوفه شيئا من أي موضع كان“__اس مضمون کی صراحت فقہ حنبلی کی دوسری کتابوں میں بھی موجود ہے۔
دھویں کی آمیزش کے ساتھ جو چیز حلق میں داخل ہو ،فقہائے حنابلہ کی یہاں اس سلسلے میں وہی رائے ہے ،جو دوسرے فقہا کےیہاں ہے کہ بلا ارادہ دھواں یا غبار چلا جائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا اور بلارادہ لیا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔
روزہ کی حالت میں کسی چیز کا چھپانا یا اس کا ذائقہ چکھنا اس کے بغیر کہ اس کے اجزاء حلق تک پہنچے، حنابلہ کے نزدیک بھی مفسدصوم نہیں ہے ،البتہ ایسا کرنا مکروہ ہے:۔
أو مضغ علكا فوجد طعمه في حلقه أو ذاق طعاما ….ألخ
یاگوند کو چبائے اور اس کا ذائقہ حلق میں محسوس ہو یا کھانے کو چھکے اور حلق میں اس کا مزا پائے ( تو روزہ ٹوٹ جائے گا )، اگر حلق میں ذائقہ محسوس نہ ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے مروی ہے کہ کچھ حرج نہیں ہے کہ شہد اور جس چیز کو خرید کر نا چاہتا ہو،اسے چکھے ،حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ اپنے پوتے کے لیے اخروٹ چبایا کرتے تھے، ہاں ،بلاضرورت چکھنا مکروہ ہے اور گوند کو چبانا بھی مکروہ ہے، جس سے اس کے اجزا ٹوٹ کر الگ نہ ہوتے ہوں ،یعنی اگر اجزاء الگ ہو جاتے ہوں، تو روزہ ٹوٹ ہی جائے گا ۔
منہ سے داخل ہونے والی چیزوں سے روزہ ٹوٹنے نہ ٹوٹنے کے سلسلے میں مذاہب اربعہ کی ان صراحتوں سے جو باتیں منقح ہوتی ہیں وہ یہ ہیں:۔
١۔ اگر کوئی چیز منہ کے راستے سے حلق تک پہنچ جائے ،خواہ وہ سیال ہو یا غیر سیال،غذا ہویا دوا ،عاداتا کھائی جاتی ہوں یا نہیں، صحت جسمانی کے لیے مفید ہو یا مضر ،روزہ ٹوٹ جائے گا ،گو بعض فقہاءنے حلق سے تجاوز کرنے اورآنتوں تک پہنچنے کی شرط لگائی ہے ،لیکن ظاہر ہے کہ اگر تھوڑی سی چیز حلق سے آگے جائے تو اس کے بارے میں یقینی اندازہ دشوار ہے اور غالب گمان یہی ہے کہ وہ معدہ تک پہنچ گئی ہوگی ؛کیونکہ زبان سےآنتوں تک سیال مادوں کا فطری طور پر اخراج ہوتا رہتا ہے ،اور اس میں کسی شئی کو آگے بڑھالے جانے کی صلاحیت ہوتی ہے ؛اسلئے اس کو متفق علیہ نقطہ نظر سمجھنا چاہیے کہ حلق تک کسی شئی کا پہنچ جانا ناقض صوم ہے۔
٢۔ ا گرغبار یا اپنے ساتھ ذرات کو سمیٹ کر لانے والی کسی چیز کو قصدا منہ میں لیا جائے اور حلق تک پہنچایا جائے تو اس سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے، جیسا کہ فقہاء نے دھونی دینے کا ذکر کیا ہے ؛لہذا انہیلر اور بھاپ کے ذریعےدوا لینا مفسد صوم ہوگا ؛ کیونکہ انہیلر میں ہوا کے ساتھ اور بھاپ میں بھی مرطوب ہوا کے ساتھ دوا کے اجزاء ہوتے ہیں ،اور حلق میں ان کا ذائقہ بھی محسوس ہوتا ہے ،پھر یہ حلق سے آگے گزر تے ہیں ،اس لئے روزہ ٹوٹ جائے گا ،اگر انہیلر کے ذریعے دوا پھیپڑے تک ہی جاتی ہوتب بھی وہ حلق سے گزرتی ہے اور بعید نہیں ہے کہ حلق سے کچھ اجزاء معدہ کی طرف چلے جاتے ہوں۔
٣۔ اگر کوئی چیز حلق تک نہیں پہنچے اور اس سے پہلے پہلے منہ کے اندر رہے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ؛کیونکہ یہ چکھنے اور چبانے کے حکم میں ہے،ہاں، اگر اسکے اجزا لعاب کے ساتھ حلق تک چلے گئے اور حلق میں اس کا ذائقہ محسوس ہوا تو روزہ ٹوٹ جائے گ،ا امراضِ قلب سے متعلق وہ دوا جیسے زبان کے نیچے دبا کر رکھا جاتا ہے ،نگلا نہیں جاتا ،اسی حکم میں ہے، اگر اس کے اجزا لعاب دہن کے ساتھ حلق تک نہ پہنچیں تو روزہ فاسد نہیں ہوگا ، اور چونکہ یہ دوا ضرورت و حاجت کے درجے میں ہے ؛اس لئے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق روزہ کی حالت میں اس کا استعمال مکروہ بھی نہیں ہوگا ؛کیونکہ روزہ میں کسی شئی کا چبانا اس وقت مکروہ ہے ،جب کہ یہ عمل کسی ضرورت و حاجت پر مبنی نہ ہو۔
٤۔ ایک مسئلہ منہ کے راستے سے نلکیوں کے اندر لے جانے کا ہے جس کے ذریعے مرض کی شناخت میں مدد لی جاتی ہے ، اس سلسلے میں فی الجملہ منہ کے ذریعہ حلق سے نیچے پہنچانے کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:
١) نلکی منہ کے ذریعے اندر پہنچائی جائے اور وہیں چھوڑ دی جائے ،اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا کیونکہ پتھرو لوہے۔مٹی و کاغذ کے نگلنے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے:
ولو ابتلع حصاة أو نواة أو حجر أو مدرا أو قطنا أو حشيشا أو كاغز فعليه القضاء ولا كفارة
٢) ایسی نلکی ہو جس کو اندر پہنچا کر واپس کھینچ لیا جائے لیکن اس پر کوئی دوا یا کوئی اور چیز لگائی گئی ہو ،تو روزہ فاسد ہوجائے گا؛ کیونکہ گزر چکا ہے کہ تھوڑی سی چیز بھی اگر حلق کے راستے اندر چلی جائے ، حالانکہ اس سے بچا جاسکتا تھا تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
٣) نلکی باہر نکال لی جائے اور داخل کرتے وقت اس پر کوئی چیز نہیں لگی ہو،تو اس صورت میں روزہ نہیں ٹوٹے گا:
ولو طعن برمح أو أصابه سهم وبقي في جوفه فسد وإن بقي طرفه خارجا لا يفسد ۔
اگر نیزہ مارا جائے یا روزہ دار کو تیر لگ جائے ن،یزہ اس کے پیٹ میں رہ جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا ،اگر اس کا ایک کنارہ باہر ہو تو روزہ فاسد نہیں ہوگا۔
البتہ فقہاء شوافع کے یہاں اس سلسلے میں دو قول ہیں : ایک روزہ کے فاسد نہ ہونے کا اور دوسرے روزہ کے فاسد ہوجانے کا:
ولو طعن نفسه أو طعنه غيره باذنه فوصل السكين جوفه أفطر …ألخ
اگر اپنے آپ کو نیزا مارلےیا کوئی دوسرا شخص اس کو اس کی اجازت سے نیز ہ مارے اور چھری اس کے پیٹ میں پہنچ جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا ،چاہے چھری کا بعض حصہ باہر ہو یا نہ ہو، اسی طرح اگر دھاگے کا ایک کنارہ نگل جائے اور دوسرا کنارہ باہر ہو تو پہنچنے والے کنارے کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جائے گا، اور خیاطی نے ایک اور قول نقل کیا ہے کہ جس شخص کے پچھلے حصے میں یا پیٹ میں دھاگے کا ایک کنارہ داخل کیا جائے اور دوسرا کنارہ باہر ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
پیچھے کی شرمگا ہ سے کسی چیز کا داخل کرنا
جسم کی پیچھے کی راہ معدہ کی طرف جاتی ہے اور یہ منفذ بمقابلہ آگے کے نسبتا کشادہ بھی ہے؛اس لئے اگر اس راہ سے کوئی شئی معدہ کی طرف پہنچائی جائے تو روزہ فاسد ہوجائے گا ،اسی لئے فقہاء نے عام طور پرحقنہ کرنے کو ناقض صوم قرار دیا ہے ، فقہاء حنفیہ میں ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ علیہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے اس بات کی صراحت کی ہے، البتہ یہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے پر ہے ،امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جب تک کوئی چیز منفذ اصلی سے معدہ تک نہ پہنچے روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے اس لئے ان کے نزدیک حقنہ یا کسی بھی چیز کے جسم کے پچھلے راستے سے معدہ تک پہنچانے کی وجہ سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
مالکیہ کے نزدیک سیال وغیرہ سے عزیز کے درمیان فرق کیا گیا ہے ،اگر سیال شئی پیچھے کے راستے سے پہنچائی جائے ،تب تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور اگر سیال نہیں ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا:
فان وصل المائع للمعده من منفذ عال أو سافل ، فسد الصوم
علامہ دردیر کا بیان ہے:
أما غير المائع فلا يفطر إلا إذا وصل للمعده من الفم ۔
جو چیز بہنے والی نہ ہو اس سے اسی وقت روزہ ٹوٹے گا ،جب منہ کے راستے معدہ تک پہنچے ،ورنہ نہیں۔
خود امام مالک رحمتہ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ روزہ میں حقنہ سے قضا تو واجب ہوگی کفارہ نہیں ،اور یہ بھی منقول ہے کہ اگر کوئی بتی بطور حقنہ کے ڈالی جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا
شوافع بھی حقنہ کو مفسد صوم قرار دیتے ہیں ؛بشرطیکہ دوا معدہ تک پہنچ جائے، فقہاء شوافع میں قاضی حسین نے حقنہ کو مفسدصوم نہیں مانا ہے ،مگر شوافع کے نزدیک ان کی رائے مرجوح ہے ،امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو قول شاذ قرار دیا ہے:
والحقنه تفطر علي الصحيح ، وقال القاضي حسين: لا تفطر، وهو غريب
فقہائے حنابلہ بھی حقنہ کو مفسد صوم قرار دینے میں متحد نظر آتے ہیں ،اور سبب یہی ہے کہ حقنہ کے ذریعے داخل کی جانے والی شیئی معدہ تک پہنچتی ہے، چناچہ شرح کبیر میں ہے:
واختلف عنه (أو مالك) في الحقنة، واحتج بانه ….ألخ
حقنہ کے مسئلے میں امام مالک کا اختلاف ہے ،ان کا استدلال ہے کہ حقنہ سے کوئی چیز حلق تک نہیں پہنچتی ؛لہذا یہ ایسی چیز کے مشابہ ہو گیا جو دماغ اور پیٹ تک پہنچے ،ہماری دلیل یہ ہے کہ روزہ دار کے پیٹ تک اس کے اختیار سے پہنچتا ہے ،لہذا حلق تک پہنچنے والی چیز کی طرح اس سے بھی روزہ ٹوٹ جائے گا۔
غرض کے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ و محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پیچھے کی راہ سے پہنچائی جانے والی دوا سے روزہ نہیں ٹوٹتا، امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کے یہاں اگر سیا ل دوا ہو تو روزہ ٹوٹ جائے گا ،اور جوف معدہ تک پہنچنے اور نہ پہنچنے کا اندازہ اسی سے ہو سکتا ہے کہ اگر دوا صرف اوپری سطح پر یا اوپر سے لگے ہوئے حصّہ پر لگائی جائے تو بظاہر معدہ تک نہیں پہنچے گی اور اگر پائپ وغیرہ کے ذریعے اندر یعنی مقام حقنہ تک پہنچائی جائے تو معدہ تک پہنچ جائےگی ،چناچہ بعض فقہاءنے مقام حقنہ تک پہنچنے کی شرط کا صراحتا ذکر کیا ہے:
١۔ اگر بیرونی حصے پر دوا لگائی جائے یا بالائی سطح پر کوئی دوا لگائی جائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
٢۔ اندرونی مسوں پر دوائی لگائی جائے یا پائپ کے ذریعے کوئی دوا اندر پہنچائی جائے ،لیکن مقام حقنہ ___” مقام حقنہ”سے مراد فضلات کے باہر نکلنے کا آخری سرا ہے ،جہاں سے معدہ تک نالی شروع ہوتی ہے __تک نہ پہنچے تب بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا ،ہاں اگر مقام حقنہ تک پہنچ جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا بواسیر کے مسے عام طور پر اس سے پہلے ہی ہوتے ہیں ؛اس لیے ان پر دوا لگانا مفسدصوم نہیں ہے۔
٣۔ اگر امراض معدہ وغیرہ کی تحقیق کیلئے کوئی آلہ اندر داخل کیا جائے اور اس پر کوئی مر طوب یا غیر مرطوب شئی لگی نہ ہو تو نہیں ٹوٹے گا ؛کیونکہ روزہ اس وقت ٹوٹتا ہے ،جب کہ کوئی چیز معدہ تک پہنچائی جائے اور اسے وہاں چھوڑ دیا جائے اور اگر نلکی پر دوا یا کوئی مر طوب یا جامد شیئی ساتھ داخل کی گئی ہو روزہ ٹوٹ جائے گا ،جیسا کہ فقہاء نے تر اور خشک انگلی کے حکم میں فرق کیا ہے:
ولو أدخل اصبعه في أسته أو المراة ..ألخ
اگر پیچھے کے راستے میں یا عورت اپنی شرمگاہ میں انگلی داخل کرے، تو راجح قول کے مطابق روزہ نہیں ٹوٹے گا ،سوائے اس کے کہ انگلی پانی یا تیل سے تر ہو ،ایسی صورت میں پانی یا تیل کے پہنچ جانے کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔
آگےکی شرمگاہ سے کسی شئی کا داخل ہونا
آگے کے حصے میں ظاہر ہے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق ہے ،مرد کا راستہ تنگ ہوتا ہے اور عورت کا راستہ نسبتا کشادہ ،جس سے کسی چیز کا اندر داخل ہونا نسبتا آسان ہوتا ہے ؛اسی لیے حنفیہ کا نقطہ نظر یہ ہے کے عورت کی شرمگاہ میں پانی یا تیل ڈالا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا ،مرد کی شرمگاہ میں کوئی چیز ڈالی جائے اور مثانہ تک نہیں پہنچے، تب تو بالاتفاق روزہ نہیں ٹوٹے گا ،اور پہنچ جائےتب بھی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نہیں ٹوٹے گا ، امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں ٹوٹ جائے گا ،حالانکہ ان کے اصول پر نہیں ٹوٹنا چاہئے ،البتہ اگر عورت کی شرمگاہ میں قطرہ ٹپکایا جائے تو بالاتفاق روزہ ٹوٹ جائے گا ،چناچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:
وإذا قطر في احليله لا، أي لا يفسد صومه عند أبي حنيفة ومحمد كذا في المحيط ، سواء اقطر فيه الماء والدهن ، وهذا الأختلاف فيما إذا وصل المثانه، وأما إذا لم يصل بأن كان في قصبة الذكر بعد لا يفطر بالاجماع ، وفي الأقطار في أقبال النساء يفسد بلا خلاف وهو الصحيح
نیز ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں:
وإن أقطر في احليله لا، أي لا يفطر۔ أطلقه فشمل الماء والدهن، وهذا عندهما خلافا لابي يوسف
مالکیہ کے نزدیک منہ کے علاوہ کسی اور راستے سے__ جیساکہ مذکور ہوا __غیر سیال چیزوں کا داخل کرنا مفسدصوم نہیں ؛ اس لیے اگر کوئی خشک دوا مرد کے عضو خاص یا عورت کے عضو خاص میں ڈالی جائے ،تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ،البتہ سیال دواؤں میں وہ بھی مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق کرتے ہیں ،مرد کے عضو مخصوص میں ڈالی جانے والی دوا سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ،عورت کی شرمگاہ میں ڈالی جانے والی سیال چیز البتہ مفسدصوم ہیں:۔
أو وصول مائع لمعد ة ۔۔۔من منفذ متسع كدبر أو قبل لا احليل أي ثقب ذكر
علامہ دردیر رحمتہ اللہ علیہ مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر سیال شئی بھی عورت کی شرمگاہ سے جوف معدہ تک پہنچ جائے روزہ ٹوٹے گا ورنہ نہیں ،اور مرد کی شرمگاہ میں ڈالنے سے تو ٹوٹے گا ہی نہیں:
۔۔۔وقبل المرأة لا إن لم يصل لها ولا من احليل
فقہاء شوافع کے یہاں اس بارے میں اختلاف رائے ہے کہ مرد کے عضو مخصوص میں دوا ڈالا جانا مفسدصوم ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے تین اقوال نقل کیے ہیں، ایک یہ ہے کہ اگر دوا ٹپکائی جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا ، دوسرا قول نہ ٹوٹنے کا ہے ،تیسرا قول یہ ہے کہ حشفہ سےتجاوز کرجائے تب ٹوٹے گا ورنہ نہیں۔
غالبا شوافع کے یہاں ترجیح اسی کو ہے اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا ،چناچہ زاد المحتاج میں ہے:۔
والتقطير في باطن الأذن والاحليل مفطر في الأصح
کان کے اندرونی حصے اور مرد کے عضوتناسل کے اگلے حصے میں قطرہ ٹپکانا صحیح تر قول کے مطابق ناقض صوم ہے
جب مرد کے عضو خاص میں دوا کا داخل ہونا ناقض صوم ہےتو ظاہر ہے کہ عورت کے عضو خاص میں دوا وغیرہ کا ڈالنا بدرجہ اولی مفسدصوم ہوگا ،___اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ شوافع نے مثانہ کو بھی جوف مانا ہے ،اور ظاہر ہے کہ عضو مخصوص کے ذریعے مثانہ تک چیزوں کی رسائی ہو سکتی ہے۔
فقہاء حنابلہ کے نزدیک مرد کے عضو مخصوص میں اگر کوئی چیز ڈالی جائے تو روزہ فاسد نہیں ہوگا ؛کیونکہ یہ راستہ مثانہ تک جاتا ہے ،جوف معدہ تک نہیں جاتا ،چنانچہ ابن قدامہ فرماتے ہیں:
وإن زرق في احليله شيئا أو أدخل ميلا لم يبطل صومه؛ لأن ما يصل المثانة لا يصل الجوف ولا منفذ بينهما، أنما يخرج البول رشحا ، فهو بمنزلة ما لو ترك في فيه شيئا
اگر مرد کے عضوتناسل میں کچھ ٹپکائے یا سلائی داخل کرے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا ؛اس لئے کہ جو چیز مثانہ تک پہنچتی ہے وہ پیٹ تک نہیں پہنچتی اور ان دونوں کے درمیان منفذ نہیں ہے؛ کہ پیشاب تو مثانہ میں قطرہ قطرہ آتا ہے؛ لہذا یہ منہ میں کوئی چیز چھوڑ دینے کے درجے میں ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ حنابلہ کے یہاں عورتوں کی شرمگاہ کی سلسلے میں بھی یہی حکم ہے ؛کیونکہ ان کے نزدیک شرمگاہ میں ڈالی جانے والی چیز اس وقت مفسد صوم ہوگی ،جبکہ وہ جوف معدہ تک پہنچ جائے اور عورت کی شرمگاہ میں ڈالی جانے والی چیز جوف معدہ تک نہیں پہنچتی ؛کیونکہ رحم اور جوف معدہ کے درمیان منفذ نہیں ہے ،پس حاصل یہ ہے کہ:
١۔ جمہور کے نزدیک مرد کے مخصوص میں کسی دوا وغیرہ کا ڈالنا مفسدصوم نہیں ہیں
٢۔ عورت کے عضو مخصوص میں خواہ وہ پیشاب کا راستہ ہو یا جما ع کا ، دوا وغیرہ کا ڈالنا حنفیہ اور شوافع کے نزدیک ناقص صوم ہے، البتہ مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ،__ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قدیم اطباء کے یہاں عورت کی شرمگاہ اور جوف معدہ کے درمیان منفذ تسلیم کیا جاتا تھا ؛لیکن فی زمانہ میڈیکل تحقیق اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ان دونوں کے درمیان کوئی منفذ نہیں ہے ؛کیونکہ اس کی انتہا رحم پر ہوتی ہے، اور رحم سے معدہ کی طرف کوئی راستہ نہیں ،نیز عام دوائیں جو شرمگاہ میں ڈالی جاتی ہیں ،رحم کے اندر بھی نہیں پہنچتیں، بلکہ وہ فم رحم کے اوپر ہی جذب ہو جاتی ہے ،تیکنیکی طور پر خصوصی آلات سے رحم کے اندر کوئ چیز پہنچائی جاسکتی ہے؛ اس لیے روزہ کے فساد کے سلسلے میں فقہاء کے جو بنیادی اصول ہیں ان کو سامنے رکھ کر یہ بات زیادہ درست معلوم ہوتی ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ؛کیونکہ احناف کے یہاں بھی مفسدات صوم کے ذکر میں بار بار جوف تک پہنچنے کی شرط لگائی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ جب صورت مسئلہ بدل جائے تو حکم مسئلہ بھی بدل جاتا ہے۔
مصنوعی منفذ سے دواؤں کا ادخال
میڈیکل سائنس کی ترقی کی وجہ سے آج علاج کی بعض ایسی صورتوں نے جنم لیا ہے کہ قدرتی منفذ کے بغیر بھی دوا جسم کے اندر پہنچائی جاتی ہے ،سوال یہ ہے کہ اگر یہ صورت علاج کی اختیار کی جائے روزہ ٹوٹے گا یا نہیں؟___اس سلسلے میں اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر جسم میں بعینہ دوا نہ پہنچے اس کے اثرات پہنچیں تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا؛ جیسے جسم میں تیل لگایا جائے اور مسامات کے ذریعے تیل یا پانی کا اثر اندر پہنچ جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ؛کیونکہ شریعت نے روزہ کی حالت میں وضو اور غسل کرنے کی اجازت دی ہے ، ظاہر ہے کہ غسل و وضو میں پانی کا اثر جسم کے اندرونی حصوں تک پہنچتا ہے ،چناچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:
وما يدخل من مسام البدن من الدهن لا يفطر، ومن أغتسل في ماء وجد برده في باطنه لا يفطره
بدن کی مسامات سے جو تیل اندر داخل ہو ،اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ،نیز جس نے پانی میں غسل کیا اور اندرون جسم اس کی ٹھنڈک محسوس کی ،اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
مسئلہ اس وقت قابل توجہ ہو جاتا ہے ، جب بعینہ دوا مصنوعی راستے سے جسم کے اندر پہنچے تو کیا حکم ہوگا؟__ اس سلسلے میں فقہا کی تشریحات کو سامنے رکھنے سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر دوا یا داخل کی جانے والی شئی جوف معدہ فقہاء متقدمین کی تحقیق کے مطابق جو ف دماغ تک پہنچ جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گاورنہ نہیں ٹوٹے گا، عام طور پر اس سلسلے میں فقہا نے زخم کی دو خاص صورتوں کا کیا ہے، جائفہ یعنی پیٹ پر ہونے والا زخم جو جوف معدہ تک پہنچ گیا ہو، اور آمہ یعنی سر پر ہونے والا وہ زخم جو جوف دماغ کی تھیلی تک پہنچ گیا ہو، کہ اگر ان دونوں میں دوا ڈالی جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا ،حنفیہ نے صراحت کی ہے کہ اس میں سیال وغیر سیال کے درمیان کوئی فرق نہیں:
وفي دواء الجائفة والامة أكثر المشائخ علي أن العبرة للوصول إلي الدماغ والجوف لا لكونه رطبا أو يابسا …ألخ
پیٹ اور سر کے گہرے زخم میں دوا ڈالنے کی سلسلے میں اکثر مشائخ کی رائے ہے کہ دماغ اور پیٹ تک پہنچنے کا اعتبار ہوگا ، تر یا خشک ہونے کا نہیں ، یہاں تک کہ اگر خشک دوا کے پہنچ جانے کا یقین ہوجائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور تر دوا کے نہ پہنچنے کا یقین ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ،دونوں باتوں میں سے کسی کا بھی یقین نہ ہو اور تر دوا ہو تو چونکہ تر دوا عادتا پہنچ جاتی ہے ؛اس لیے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک روزہ ٹوٹ جائے گا اور صاحبین رحمتہ اللہ علیہما نے کہا کہ صرف شک کی وجہ سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، اور خشک دوا ہو تو بالاتفاق روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
مالکیہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر جائفہ میں دوا ڈالی جائے تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا ؛کیونکہ وہ دوا کھانے پینے کے مخزن تک پہنچی ہی نہیں پاتی ؛کہ اگر پہنچ جائے تو آدمی جانبر نہ ہوسکے ،چناچہ علامہ دردیر __ان چیزوں کا ذکر کرتے ہوئے جو مفسدصوم نہیں ہے فرماتے ہیں:
أو في دهن جائفة وهي الجرح في البطن أو الجنب الواصل للجوف يوضع عليه الدهن للدواء وهو لا يصل لمحل الأكل والشرب والالمات من ساعته
یہ دراصل امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کے ممتاز شاگرد ابن وہب کا قول ہے انہوں نے صراحت کی ہے کہ اس میں سیال اور غیر سیال دوا کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
شوافع کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر ان دونوں زخموں سے جوف دماغ و جوف بطن تک دوا پہنچ جائے تو اندر داخل نہ ہو تب بھی روزہ ٹوٹ جائے گا ،چناچہ ابن حجر ہیثمی فرماتے ہیں:
…أو الوصول من جائفة ومامومة ونحوهما؛ لانه جوف محل …بل له كان براسه ..ألخ
۔۔۔یا پیٹ اور سرکی گہرے زخم وغیرہ کے ذریعہ جو ف تک دوا پہنچ جائے؛اس لئے کہ یہ ایسا جوف ہے جو نواں کو تحلیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؛ بلکہ اگر اس کے سر میں گہرا زخم ہو ،وہ اس پر دوا رکھے اور دوائی دماغ کی جھلی تک پہنچ جائے تب بھی روزہ ٹوٹ جائے گا، اگرچہ چھلی کے اندر دوا نہیں پہنچے، اس سے معلوم ہوا کہ اندروندماغ تک پہنچنا شرط نہیں ؛بلکہ خود دماغ تک پہنچنا بھی شرط نہیں ہے ؛کیونکہ دماغ تو جھلی کے اندر ہوتا ہے، اسی طرح اگر پیٹ میں گہرا زخم ہو اس پر دوا رکھے ،جو جوف بطن میں پہنچ جائےتو روزہ ٹوٹ جائے گا ،اگرچہ آنت کے اندر نہیں پہنچے۔
حنابلہ کے نزدیک بھی جائفہ اور آمہ کے ذریعہ جو ف بدن اور دماغ تک پہنچنے والی دوا سے روزہ ٹوٹ جائے گا ، چناچہ شرح کبیر میں مفسدات صوم کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے :”أو ما يصل من مداواة الجائفة أو من دواءالمأمومة “__ صاحب انصاف نے اس سلسلہ میں شیخ تقی الدین کا اختلاف نقل کیا ہے ،لیکن حنابلہ کے نزدیک قول راجح یہی ہے کہ روزہ ٹوٹ جائے گا۔
أو داوي ألجائفةبما یصل الی جوفہ،فسد صومه وهذا المذهب ،وعليه الأصحاب ،واختار الشيخ تقي الدينعدم الافطار بمداواة جائفة و مأمومةوحقنة
فقہاء نے اس بات کی بھی صراحت کی ہے کہ اگر مصنوعی طریقے پر دوا وغیرہ اندر پہنچائی جائے،لیکن وہ جوف معدہ تک نہیں پہنچے روزہ فاسد نہیں ہوگا، امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
لو أوصل الدواء إلي داخل لحم الساق أو غرز فيه السكين فوصلت مخه ، لم يفطر؛ لانه لا يعد عضوا مجوفا
اگر دوا پنڈلی کے گوشت کے اندر پہنچائی یااس میں چھری گھونپی جو اس کے گودے تک پہنچ گئی تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ،اس لیے کہ اس سے جوف دار عضو نہیں شمار کیا جاتا ہے۔
علامہ حسن الکوھجی یہ رقم طراز ہیں:۔
لو داوي جرحه الذي علي لحم الساق أو الفخذ فوصل الدواء إلي داخل المخ أو اللحم أو غرز فيه حديدة فانه لا يفطر ؛ لانه ليس بجوف
اگر پنڈلی یاران کے گوشت پر ہونے والے زخم پر دوا لگائی، دوا گودےیا گوشت کے اندر تک پہنچ گئی یا اس میں لوہا گھونپا گیا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا اس لئے کہ پنڈلی جوف نہیں ہے۔
گویا حاصل یہ ہے کہ مصنوعی طریقے پر جسم میں پہنچائی جانے والی دوا یا کوئی اور چیز بعینہ جوف معدہ تک پہنچتی ہے تب تو روزہ ٹوٹ جائے گا ورنہ نہیں ٹوٹے گا؛ اس لئے آج کل جو انجیکشن لگائے جاتے ہیں جس سے دوائیں رگوں میں یا گوشت میں پہنچائی جاتی ہیں ؛ یہ مفسدصوم نہیں ہیں ؛ گلوکوز کا انجکشن بھی اصل میں رگوں ہی میں گردش کرتا ہے ؛ اس لیے اس سے بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا، البتہ چونکہ گلوکوز غذاکی ضرورت پوری کرتا ہے، بھوک کا احساس یا بھوک سے پیدا ہونے والی نقاہت اس سے کم یا ختم ہو جاتی ہے اور روزہ کی روح یہ ہے کہ انسان بھوک و پیاس کی تلخیوں کو برداشت کرے؛ اس لیے بلاوجہ روزہ میں گلوکوز چڑھانا کراہت سے خالی نہیں ہونا چاہیے، ہاں ا! گر کوئی شخص بیمار ہونے کی وجہ سے گلوکوز لےیا ضعف و نقاہت کی وجہ سے گلوکوز لیے بغیر روزہ نہیں رکھ سکتا ہو،تو اس کیلئے گلوکوز لینے میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم
نوٹ: اس تحریر میں جن جدید میڈکل تحقیقات کا ذکر آیا ہے، ان کو میں نے مختلف ڈاکٹروں سے گفتگو کی روشنی میں لکھا ہے ، بالخصوص حیدرآباد کے معروف ڈاکٹر ،ڈاکٹر فخر الدین محمد سے نقشوں کے ذریعے صورت مسئلہ کو سمجھ کر رائے قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
٭٭٭٭٭
پی ڈی ایف میں فتویٰ حاصل کرنے کے لیے لنک پر کلک کریں: