فتویٰ نمبر:546
سوال : کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں : میرا اصل کام کاسمیٹکس کا ہے ۔ میں پارٹ ٹائم میں جائیداد اور مکانات کے کاغذات نام کرانے کا کام کرتا ہوں ۔اس کام میں رشوت لازماً دینا پڑتی ہے ۔تمام کاغذات کلئیر ہوں تب بھی آفیسرز کچھ نہ کچھ نقص نکال کر پیسے مانگتے ہیں ۔
1۔سوال یہ ہے کہ میں یہ کام جاری رکھوں تو کوئی گناہ تو نہیں ہوگا۔کمائی حلال ہوگی یا حرام ؟ یا یہ کام چھوڑدوں ؟
2۔دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ کام درست نہ ہو تو کیا کسی کی راہ نمائی کردینا کہ فلاں شخص آپ کو رعایت کے ساتھ کام کروادے گا یہ راہ نمائی بھی درست ہوگی یا نہیں ؟
جواب : واضح رہے کہ مذکورہ پیشے کا اصل کام تو بذات خود جائز ہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں ۔لیکن اس کام میں چونکہ رشوت دینا پڑتی ہے اس کی وجہ سے یہ پیشہ اختیار کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس میں علماء کے دو نقطہ نظر ہیں :
1،بعض علماء کے نزدیک رشوت دینے کی وجہ سے اس پورے عمل کو ناجائز نہیں کہا جاسکتا ۔کوشش تو یہی ہونی چاہیے کہ رشوت نہ دینی پڑے لیکن اس کے بغیر کام نہ بن پارہا ہو تو چونکہ جائیداد کی ملکیت کو اپنے نام کرانا یہ انسان کا شرعی اور قانونی حق ہے اور اس کے بغیر انسان کو بہت بھاری نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے اس لیے ایسی ضرورت کی بناء پر اپنے حق کو حاصل کرنے کے لیے اپنے کلائنٹ کی طرف سے رشوت دینا جائز ہوگا،اگرچہ رشوت لینا متعلقہ شعبے کے لیے پھر بھی جائز نہیں ۔
2۔دوسرا نقطہ نظریہ ہے کہ کیونکہ رشوت دینا سخت گناہ ہے اور یہ بات معروف ہے کہ رشوت دیے بغیر یہ کام نہیں ہوتا،اس لیے گناہ پر اعانت کی وجہ سے اس پیشے کو مستقل طور پر اختیار کرنا جائز نہیں ۔
ہماری رائے یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جبکہ ہر طرف جھوٹ اور فراڈ کا بول بالا ہے ،جائیداد کو اپنے نام منتقل نہ کرانے میں اصل مالک کو مختلف خطرات لاحق ہونے کا ہر وقت اندیشہ رہتا ہے اور کرپشن کے سد باب کا عوام کے پاس موثر ذریعہ بھی نہیں ،اس لیے ان حالات میں پہلے نقطہ نظر پر عمل کرلینے کی گنجائش ہے۔عوام اور اس پیشے سے وابستہ افراد کو چاہیے کہ وہ اس شعبہ سے کرپشن اور رشوت کے سد باب کے لیے قانونی راستے ضرور اختیار کریں ۔