رسالت اوروحی کی ضرورت و اہمیت: قسط نمبر3
عقیدہ رسالت کےدلائل
جس طرح ایک ملک،کسی دوسرے ملک سے کسی معاملے پر گفتگو کرنا چاہے یا کوئی معاہدہ کرنا چاہے تو اس ملک کے تمام لوگ ودسرے ملک نہیں جاتے،اور نہ ہی بادشاہ یا وزیر اعظم خود جاتا ہے، بلکہ اپنے کسی قابل اعتماد، باصلاحیت سفیر(ambassador)کو بھیجا جاتا ہے،تاکہ اپنا پیغام اس دوسرے ملک تک پہنچایا جا سکے،یہی مثال انبیاء کی ہے کہ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ وحی انسان کی عین ضرورت ہے تو اس وحی کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے ایسے سفیروں کی ضرورت تھی جو قابل اعتماد،باصلاحیت،پاک باز،باکردار ہوں،اور حقیقی بادشاہ و خالق کا پیغام اپنی مخلوق تک پہنچائے۔
معجزات انبیاء
انبیاء کرام علیہم السلام بندوں کو سیدھی راہ بتانے آئے، وہ سب گناہوں سے پاک ہیں، ان کی سچائی ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں
ایسی نئی نئی اور عجیب و غریب باتیں ظاہر کیں جو دوسرے لوگ نہیں کرسکتے۔ ایسی باتوں کو معجزہ کہتے ہیں۔
جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کا اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرنا،موسی علیہ السلام کی لاٹھی کا سانپ بن جانا ،لاٹھی پتھر پر مارنے سے بارہ چشمیں پھوٹنا،نبی کریم ﷺ کے اشارے پر چاند کے دو ٹکڑے ہوجانا وغیرہ ۔
انبیائے کرام کی تعداد
انبیاء کرام علیہم السلام میں سب سے پہلے آدم علیہ السلام تھے اور سب سےآخر میں حضرت محمد ﷺ ہیں ۔انبیاء کرام میں سے تقریبا 25 انبیاء کرام کے نام قرآن و حدیث میں وارد ہیں،جیسے: حضرت نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، اسحاق علیہ السلام، ایوب علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، ہارون علیہ السلام، زکریاعلیہ السلام، یحییٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام، الیاس علیہ السلام، الیسع علیہ السلام، یونس علیہ السلام، لوط علیہ السلام، ادریس علیہ السلام، ذوالکفل علیہ السلام، صالح علیہ السلام، ہودعلیہ السلام، شعیب علیہ السلام۔وغیرہ
پیغمبروں کی صحیح تعدادکا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے،تاہم بعض روایات میں تعداد کا ذکر آتا ہے،چنانچہ ایک روایت میں ہےکہ رسول اللہﷺسے انبیاء کی تعداد کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺنے فرمایا:ایک لاکھ چوبیس ہزار ۔اور ایک روایت میں دو لاکھ چوبیس ہزار کا ذکر ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺسے انبیاء کی تعداد کے بارے میں سوال کیا گیاتو فرمایا :ایک لاکھ چوبیس ہزاران میں سے رسولوں کی تعداد ٣١٣ تھی ،جن میں سب سے پہلے آدم علیہ السلام تھے اور آخری محمدﷺ ۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت مروی ہےکہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول!انبیاء کی کل تعداد کتنی ہے؟فرمایا:ایک لاکھ چوبیس ہزار ان میں سے رسولوں کی تعداد٣١٥ ہے۔
و قد ورد ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم سئل عن عدد الانبیاءعلیھم السلام فقال مائۃالف و اربعۃو عشرون الفاو فی روایۃمائتا الف و اربعۃ و عشرون الفا۔(شرح الفقہ الاکبر للملا علی قاری ص:٥٦،٥٧۔قدیمی)
وقد ورد ایضا ان محمدﷺ سئل عن عدد الانبیاء علیہم السلام فقال:مائۃالف و اربعۃ و عشرون الفا و الرسل منھم ثلاث مائۃ و ثلاثۃ عشر،اولھم آدم و آخرھم محمدﷺ (مسند احمد)
قال شعیب الارناؤط:’’اسنادہ ضعیف جدا؛لجھالۃ عبید بن الخشخاش ؛و لضعف ابی عمر الدمشقی،قال الدارقطنی :المسعودی عن ابی عمر الدمشقی:متروک۔المسعودی:ھو عبد الرحمن بن عبد اللہ بن عتبہ۔‘‘(تحقیق مسند احمد ٤٣٢،٣٥)
وفی روایۃ ابی امامۃ قال ابو ذر ،قلت یا رسول اللہ!کم وفاء عدۃ الانبیاء قال:مائۃالف واربعۃوعشرون الفا الرسل من ذلک ثلاث مائۃ و خمسۃ عشر جما غفیرا۔(مشکاۃ المصابیح:ص:٥٦)
جن روایات میں تعداد مذکور ہے وہ سب ضعیف روایات ہیں اور ایسی احادیث سے عقیدہ ثابت نہیں ہوسکتا،لہذاہم بغیر گنتی کی تعیین کے ان سب پر ایمان لاتے ہیں جن کو اللہ نے نبی بنا کر بھیجا۔
مراتب پیغمبر
پیغمبروں میں بعض کا مرتبہ بعض سے بڑا ہے۔ سب سے زیادہ مرتبہ ہمارے پیغمبر محمد مصطفیﷺ کا ہے،آپﷺکی امتیازی خصوصیت یہ ہےکہ آپﷺخاتم النبیین ہیں،آپﷺ کے بعد کوئی نیا پیغمبر کسی بھی شکل میں نہیں آسکتا۔ جو شخص آپ ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے، جیسے: مرزا غلام احمد قادیانی اوراس جیسے تیس سےزائدجھوٹوں نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا،وہ سب کذاب اوردجال ہیں، اس لیے علماء نے ایسےجھوٹوں اور ان کے ماننے والوں کو زندیق کہا ہے۔
تصدیق انبیاء کےدلائل
اگر آپ کے پاس کوئی شخص آکر یہ کہے کہ میں فلاں کمپنی کا نمائندہ ہوں،تو آپ جانچ پڑتال کرتے ہیں، مکمل تسلی کرتے ہیں،آپ کو اس کا حق بھی پہنچتا ہے کہ تسلی کریں، جب اطمینان ہوجاتا ہے تو آپ اسے کمپنی کا نمائندہ تسلیم کرلیتے ہیں ۔اس کے بعد جب وہ آپ سے بطور نمائندہ کوئی معاہدہ کرتا ہے تو آپ کو یقین ہوتا ہے کہ یہ جو بھی ایگریمنٹ کرے گا، اپنی فرم کی نمائندگی میں کرے گا۔ آپ اس کی ہر بات کو فرم کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
اسی طرح اللہ رب العزت نےاس دنیا میں انسانوں کی ہداہت کے لیے انسانوں میں سے ہی کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کو منتخب کیا تاکہ وہ لوگوں کو اللہ کی پہچان کروائیں اور دین حق کی دعوت دیں ۔اور پھر ان رسولوں کو مختلف معجزات دیئے تاکہ لوگ ا ن معجزات کو دیکھ کر اطمینان حاصل کرے اور انہیں کسی قسم کا شک و شبہ نہ رہے۔انبیاء کرام نے اپنی زمہ داری بحسن خوبی انجام دی ۔
پیغمبر انسانوں میں سے ہی کیوں ؟؟؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے انسانوں میں سے ہی اپنے نمائندوں کو کیوں منتخب کیا ؟اللہ براہ راست بھی اپنا پیغام دے سکتے تھے یا فرشتوں کے ذریعے ہر ایک تک پیغام پہنچاسکتے تھے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی سنت اسی طرح جاری ہے کہ وہ اپنی مخلوق سے دوبدو گفتگو نہیں فرماتے ۔اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ انسان کے اندراللہ نے وہ طاقت ہی نہیں رکھی کہ اللہ تعالی کو یا فرشتوں کو دیکھ سکیں، اس لیے اللہ تبارک وتعالی نے اپنا پیغام انسانیت تک پہنچانے کے لیے انسانوں کا ہی انتخاب فرمایا۔
انسان کے علاوہ اگر کسی او ر مخلوقات میں سے نبی ہوتے تو یا تو جنات میں سے ہوتے یا فرشتوں میں سے ہوتے ۔اگر بالفرض جنات میں سے کسی کو نبی بناکر بھیجا جاتا تو دو صورتیں ہیں یا تو جنات کوان کی اصلی صورت میں بھیجا جاتا یا یا انسانی صورت میں۔ اگر اپنی اصلی صورت میں آتے تو انسان ڈر کے مارے بے ہوش ہی ہوجاتے،اور اگر انسانی صورت میں بھیجا جاتا تو پھر یہ اشکال کرنا بے معنی ہوا کہ انسانوں میں سے کیوں نبی بھیجے گئے؟
اور اگر پیغمبر فرشتوں میں سے ہوتا تو بھی وہی صورتیں ہوں گی کہ فرشتہ اگر اپنی اصل شکل و جسامت میں ظاہر ہوتو انسان برداشت نہیں کر پاتے،اور اگر فرشتے انسانی صورت میں آئیں تو بات جہاں سے چلی تھی وہیں پہنچ گئی اور مدعیٰ ثابت ہوگیا کہ پیغمبروں کا انسانوں کی جنس سے ہی آنا ضروری ہے۔
نبوت ورسالت کے تمام واقعات وبراہین آج تک تواتر اور مستند ذرائع کے ساتھ بحفاظت ہم تک پہنچے ہیں، جنہیں دیکھنے سننے کے بعد ان نفوس قدسیہ کی رسالت وپیغمبری میں ذرہ برابر بھی شائبہ نہیں رہتا۔ جب تواتر اورمعتبر ذرائع سے یقین ہوگیا کہ انبیائے کرام برحق اور سچے ہیں تو ان کی ہر بات سچی ہوگی۔اس لیے ان کی ہر ہر بات کی دلیل اور لاجک جاننے کی ضرورت نہیں ہوگی،کیونکہ ان کی ہر بات اللہ تعالی کی طرف سے مصدقہ ہوتی ہے۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔)