رسالت اوروحی کی ضرورت و اہمیت:پہلی قسط
جس طرح انسانی حواس کا ایک خاص کام اور اس کام کی ایک خاص حد ہے کہ اس سے آگے وہ کام نہیں کرتے اسی طرح عقل کا بھی ایک کام ہے جو بہت ہی اعلی ہے لیکن اس کی بھی ایک خاص حد ہے اس سے آگے عقل کام نہیں کرسکتی۔ناک سے انسان سونگھ سکتا ہے، دیکھ نہیں سکتا۔آنکھ سے دیکھ سکتا ہے، سونگھ نہیں سکتا۔ہاتھ سے چھوسکتا ہے، دیکھ ،سونگھ نہیں سکتا، ذائقہ محسوس نہیں کرسکتا۔زبان سےذائقہ محسوس کرسکتا ہے ،لیکن سمجھ نہیں سکتا،نہ دیکھ سکتا یا سونگھ سکتا ہے۔ہر حس کا ایک خاص کام ہے جس سے دوسرا کام نہیں لیاجاسکتا۔البتہ جو کام لیا جاسکتا ہے وہ بھی محدود ہے لامحدود نہیں، ناک سے ایک خاص مسافت تک سونگھ سکتا ہے، اس سے دور نہیں۔آنکھ سے ایک خاص مسافت تک دیکھ سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔اسی طرح عقل بھی ایک حس ہے جس سے انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے لیکن عقل کی بھی ایک حد ہے اس سے آگے وہ بھی کام نہیں کرسکتی۔بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب دینے سے عقل قاصر ہے۔
انسان خود اپنے اوپر غور کرے کہ بچپن سے بڑھاپے تک اس کی عقل وشعور نے کتنی منازل طے کیں؟جو چیز پچپن میں سمجھ نہیں آئی تھی ، جوانی اور شعور کی عمرمیں کس طرح سمجھ آگئی؟پھر انسانی عقلوں میں تفاوت بھی کوئی مخفی راز نہیں۔ایک ہی سبق ہوتا ہے لیکن کوئی بہت اچھا سمجھتا ہے کوئی کم۔ایک ہی فیلڈ کے دو ڈاکٹروں میں اختلاف رائے پیدا ہوجاتا ہے۔ایک ہی فن کے دو ماہرین کی رائے میں اختلاف ہوجاتا ہے۔میاں بیوی کا اپنی ہی اولاد کےمستقبل کے حوالے سے اختلاف ہوجاتا ہے۔سیاسی ،مذہبی غرض ہر ایشوپر لوگوں کی آراء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔(ٹاک شوز اس کی واضح مثال ہے) یہ سب عقل وشعور کے مدارج کا فرق ہے۔
عقل وفہم کے اسی فرق کی وجہ سے بسا اوقات خیر کو شر اور شر کو خیر کہہ دیا جاتا ہے۔نیکی کو بدی اور بدی کو نیکی کہہ دیا جاتا ہے۔حق دار سے حق چھین لیا جاتا ہے اور ناحق کو نہال کردیا جاتا ہے۔
انسانیت کے حق میں کیا چیز بہتر ہے اور کون سی چیز نقصان دہ ہے ؟ حتمی فیصلہ ہونہیں پاتا ۔ سکون کس چیز میں ہے؟راحت کس شےکا نام ہے؟انسان بھٹکتا پھرتا ہے،تشکیک کاشکار ہوجاتا ہے، لیکن ان سوالوں کے جواب حاصل نہیں کرپاتا۔
کیا یہ کائنات خود سے بن گئی ہے یا کوئی ہے جس نے اسے وجود دیا؟عقل سلیم یہی جواب دیتی ہے کہ کسی نے اسے پیدا کیا ہے،
☝لیکن جس ہستی نے اسے پیدا کیا ہے اس کا مقصد کیا تھا؟
☝وہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟اس سے ہم بات کیسے کرسکتے ہیں؟وہ اپنی بات ہم تک کیسے پہنچاتا ہے؟
☝کیا اس کائنات کے بعد دوسرا بھی کوئی جہاں ہے؟
☝ہماری ابتدا کیا ہے اور انتہا کیاہوگی؟
☝ہم دوسرے حیوانات سے الگ کیوں ہیں؟
☝کائنات کی ہر بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی چیز انسانوں کے تابع کیوں ؟
ان سوالوں کا جواب بہت اہم ہے؛کیونکہ اگر ہم کسی کی پروڈکٹ اور مخلوق ہیں تو یقینا ہم بہت بڑے خطرے اور خسارےمیں ہیں اگر ہمیں ان کے جواب معلوم نہ ہوں!
پہلے زمانے کے رسم ورواج الگ تھے ، آج کے زمانے کے الگ ہیں۔پہلے زمانے کا خاندانی نظام الگ تھا آج کے دور میں الگ ہے۔
☝ان میں سے صحیح غیر صحیح کا پتا کیسے چلے گا؟
☝حاکم اور محکوم ، آقا اور ملازم کا رشتہ صدیوں سے قائم ہے لیکن کس کے کیا حقوق ہیں؟ اس کا صحیح رخ کس طرح متعین ہوسکتا ہے؟
☝دل میں اٹھنے والی کون سی خواہشات اورجذبات کو انسان پورا کرسکتا ہے اور کن خواہشات اور احساسات کو دبا کر رکھنا ہے؟
☝کیا انسان دنیا کے فیصلے کرنے میں بالکل ہی آزاد وخود مختار ہے یا اسے کسی اصول اور قاعدے کا پابند رہنا ہے؟
الغرض ایسے کئی سوالات ہیں جن کا جواب انسانی عقل سے باہر ہے ۔ ان کے درست جواب کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ خود خالق ِ کائنات کی طرف سے راہ نمائی دی جائےاور ایسا ہی ہوا ہے اور یہی وحی ہے۔
اس حقیقت کو ایک مثال سے سمجھیے!
موبائل اور کمپیوٹر میں جو پروگرام انسٹال کیے جاتے ہیں اور جتنے جی بی ڈیٹا کی اس کے اندر گنجائش ہوتی ہے اس سے زیادہ وہ لوڈ نہیں کرسکتا۔زیادہ لوڈ کیا جائے گا تو وہ خراب ہوجائے گا لیکن لوڈ نہیں اٹھائے گا۔جو پروگرام انسٹال کیا ہی نہیں گیا وہ اٹھائے گا کیسے؟ اسی طرح انسانوں کے اندر اللہ تعالی نے ہزارہا خوبیاں اور کمالات ودیعت فرمائےہیں لیکن ان سب کے باوجود وہ مخلوق ہی ہے اس کی عقل وشعور کی ایک خاص حد ہے اس سے آگے کا جواب اس کے پاس نہیں ہے اس سے اوپر کے سوالات کے جواب یا وہ دے ہی نہیں پائے گا یا دینے کی کوشش کرے گا تو غلطی کرجائے گا۔
تو کون جواب دے گا؟ بے شک وہ خالق ِکائنات ہی ہے جو ان کے جوابات ہمیں دے سکتا ہے۔ خالق کائنات نے ہر دور میں قوموں کے اندر ان کے سب سے معزز، وجیہہ،کامل عقل،نڈر اور صاف اور بے داغ کردار کے مالک اشخاص کو منتخب فرمایاہے۔ ان کو وحی کی ہےجس میں ان تمام سوالوں کے جواب موجود ہوتے ہیں۔جب جب وحی کی ضرورت پڑی خالق کائنات نے وحی بھیجی۔ہاں!آخری دور کے انسانوں کے اندر بلا کی عقل وسمجھ ہے، اس لیےخالق ِ کائنات نے آخری پیغمبر کو مبعوث کیااور اسے عالمگیر ، بہت سے مواقع پر لچک داراورانسانی خردبرد سے محفوظ ابدی اصول وحی دیےجس کے بعد نئی وحی کی ضرورت نہیں رہی۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔)