رسالت اوروحی کی ضرورت و اہمیت: قسط نمبر4
نبوت و رسالت کے عقلی دلائل
1- نبوت و رسالت کی ایک عقلی دلیل وہ عطائی علوم، وہ پاکیزہ اور مقدس تعلیمات اور وہ واضح دلائل ہیں جو انبیائے کرام کو دیے گئے۔ انبیائے کرام کے بلند اخلاق، ان کی سچائی، امانت داری، طہارت و صفائی ، عدالت و حق گوئی، ساری قوم کے مقابلے میں تن تنہا عزم و یقین کے ساتھ بغیر خوف و خطر کے حق کی دعوت دینا، مناظروں و مباحثوں میں مخالفین پر اعلیٰ عقلی دلائل سے غالب آنا، دعوت و تبلیغ پر کسی طرح کی اجرت و محنت نہ مانگنا، غیب کی سچی خبریں بتانا، وحی آنا، بغیر مخفی یا ظاہری اسباب کے خارق عادت و اقعات کا ظہور پذیر ہونا، یہ سب نبوت و رسالت کے دلائل ہیں۔
2-اگر انسانوں کو تنہا ان کی عقلوں پر چھوڑدیا جاتا تو پورے طور پر سعادت و نجات کا راستہ معلوم نہیں کرسکتے تھے۔دنیا کے عقلاء کا حال دیکھا جاسکتا ہے، رات دن مشاہدے میں آنے والی چیزوں میں بھی ایک بات پر متفق نہیں تو عالَمِ آخرت کے بارے میں صحیح بات کیسے معلوم کر سکتے ہیں؟ نتیجہ یہ ہوتا کہ زمین میں انتشار و فساد عام ہوتا،ہر کوئی اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا۔لہذا یہ بات ماننی پڑے گی کہ بغیر واسطہ پیغمبر ، عقلِ انسانی سعادت و نجات کا راستہ معلوم نہیں کرسکتی۔
3۔حافظ ابنِ تیمیہ ؒ فرماتے ہیں:’’مخلوق کو اپنے دین و دنیا میں جس چیز کی ضرورت زیادہ تھی، اللہ تعالی نے اتنی ہی زیادہ تعداد میں اس کو پیدا فرمایا، دینی پہلو سے اللہ تعالی کی معرفت کے بعد سب سے زیادہ ضرورت نبوت کی تھی، ایک انسان جب اپنے جیسے دوسرے انسان کی خوشی اور ناراضی کے اسباب بغیر اس کے بتائےنہیں جان سکتا تو خالق کی خوشی و ناراضی کے اسباب بغیر اس کے بتائے کیسے جان سکتا ہے؟اس لیے اللہ تعالی نے انبیاء بھیجے تاکہ ان کے ذریعے اپنی خوشی و ناخوشی کے اسباب کے ساتھ اپنی ذات و صفات کا اشرف علم بخشے۔ حشر نشر، جنت دوزخ، اور انسان کی ابدی زندگی اور عالَمِ غیب کے بے شمار حقائق سے پردہ اٹھادے۔‘‘
نبی کریم ﷺ کی رسالت کے دلائل
سب سے آخر میں اللہ رب العرت نے حضرت محمدﷺ کو رسول بناکر بھیجا ۔آپ کی نبوت ورسالت پر دلائل قائم فرمائے۔لوگوں نے آپ کو ہرطرح سے جانچا۔آپ ان کی ہرکسوٹی پر پورے اترے۔مکہ کےباشندوں نےآپﷺ کو بچپن سے عمرکی چالیس بہاروں تک ہزاروں بار دیکھا،پرکھا۔سینکڑوں بار آپ ﷺ سے ملاقاتیں کیں،معاملات کیے، کبھی آپ کو جھوٹا نہیں پایا۔مکہ والے آپ کو صادق اور امین کہتے تھے۔صادق کے معنی ’’سچا‘‘ اور امین کے معنی ’’امانت دار‘‘۔ولادت سے پہلے ، ولادت کے بعد اور نبوت کی زندگی میں سینکڑوں ایسے واقعات پیش آئے جو آپ کی نبوت ورسالت کے سچے گواہ تھے۔
ماقبل میں نبوت و رسالت سے متعلق کئی دلائل بیان کردیے گئے ہیں ،ذیل میں نبی کریم ﷺ کی نبوت پر چند خصوصی دلائل پیش خدمت ہیں !
نبی کریم ﷺ کی نبوت کی سب سے بڑی دلیل قرآن ہے:ذیل میں قرآن کریم ہی سے نبی کریم ﷺ کی نبوت پر چند دلائل بیان کرتے ہیں !
1۔ نبی کریم ﷺ کو آخری آسمانی کتاب یعنی قرآن کریم عطا کیا گیا ،اس پر کفار مکہ نے اعتراض کیا کہ یہ قرآن محمد ﷺ نے اپنی طرف سے بنایا ہے،یہ اللہ کا کلام نہیں ہے۔حالانکہ اگر وہ قرآن میں غور کرتے تو کبھی یہ اعتراض نہ کرتے ،کیونکہ ایک شخص اپنی تحریر کردہ کتاب میں کبھی اپنے خلاف کوئی بات لکھنا گوارا نہیں کرتا، ہمیشہ وہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی نفی ہی کرتا ہے، جبکہ قرآن کریم میں کئی مقامات پر انبیائے کرام بشمول نبی کریم ﷺ کو (بشری تقاضے سے سرزد ہوجانے والی لغزشوں پر) تنبیہ کی گئی ہے۔یہ واضح دلیل ہے کہ قرآن اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کتاب اور نبی کریم ﷺکی رسالت کا ثبوت ہے۔
2۔قرآن کریم گزشتہ انبیاء و رسل کے واقعات اور قدیم آسمانی کتابوں کے مضامین کو بالکل درست انداز میں بیان کرتا ہے،آسمانی کتابوں میں جو تحریفات کر دی گئیں ان کا پردہ چاک کرتا ہے۔
3-قرآن کریم اس لیے بھی معجزہ ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود کوئی اس جیسا کلام پیش نہیں کرسکا،قرآن چیلنج کرتا رہا، لیکن آج تک کوئی اس چیلنج کو قبول نہیں کرسکا،پہلے اس جیسی کتاب لانے کا کہا گیا،کوئی نہیں لاسکا۔پھر چیلنچ نرم کردیا گیا کہ اس جیسی کوئی ایک سورت لے کر آئیں لیکن وہ ایسا بھی نہ کرسکےتو کہا گیا کہ قرآن کریم جیسی ایک آیت بناکر دکھادیں لیکن وہ ایسا بھی نہ کرسکے۔
4-قرآن کریم کی فصاحت وبلاغت،اسلوب ِبیان اور منفرد طرزتعبیر اپنی آخری حدوں کو چھورہی ہے،جہاں تک انسانوں کی رسائی ہی نہیں۔بڑے بڑے شاعر اور فصیح اللسان لوگ پیدا ہوئے لیکن کوئی اس کی ہمسری نہیں کرسکا۔قرآن کریم پُراثر کلام ہے، اسلوب خطیبانہ ہے،اس میں نثر بھی ہے اور نظم بھی،جملوں کی ترکیب اور ساخت بے نظیر ہے،ہر جملہ حسن کامرقع ہے،ہرجملہ اتنا موزوں ہےکہ اس سے بہتر جملہ اس مقام پر آہی نہیں سکتا،قرآن کریم مختصر پر اثرالفاظ پر مشتمل ہے۔اس میں تشبیہات،تلمیحات اور تمام اصناف ادب موجود ہیں،کہیں کوئی ایسا لفظ نہیں جو زبان وادب کی چاشنی کے خلاف ہو۔تذکیروموعظت کے لیےواقعات جابجا ہیں ،واقعات سے کلام میں دل چسپی پیدا ہوتی ہے اور انسان ان سے عبرت حاصل کرتا ہے،کبھی مخاطبت کا انداز چل رہا ہوتا ہے کہ اچانک غائبانہ کلام شروع ہوجاتا ہے اور کبھی اس کے برعکس۔اس کے ایک جملے کے کئی کئی معنی نکلتے ہیں،جتنی بار پڑھا جائے دل نہیں بھرتا ،ہر بار معانی ومطالب کا ایک نیا باب عیاں ہوتا ہے۔ صدیاں گزرگئیں لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے قرآن پاک کے تمام معانی ومطالب پر عبور حاصل کرلیا ہے۔اس کی تعبیرات ایسی لچک دار ہیں کہ ہر زمانے کا ساتھ دیتی نظر آتی ہیں۔علوم وفنون کتنے ہی ترقی کرلیں لیکن جب انسان قرآن کریم کے بیانات پڑھتاہے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔وہ جسے جدیددور کی جدید ترین اورسب سے مستندعلمی کاوش سمجھتا تھا قرآن کریم میں اس کےواضح اشارے نظر آتے ہیں۔
ویکیپیڈیانےجارج سیل کاقول آویزاں کیا ہے وہ کہتا ہے:’’ قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے کہ کوئی انسانی قلم اسے لکھ نہیں سکتا،یہ مُردوں کو زندہ کرنے سے زیادہ بڑا معجزہ ہے۔‘‘