رسول اللہ کا سایہ

فتویٰ نمبر:2070

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! کیا نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کا سایہ تھا؟

والسلام

سائلہ کا نام: آمنہ 

پتا: صدر روالپنڈی

الجواب حامداو مصليا

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

اصل جواب سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اس مسئلے کا تعلق عمل سے ہے نہ ہمارے ایمان و عقیدہ کا دارومدار اس پر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات بے شمار ہیں اور صحیح اور قوی احادیث سے ثابت ہیں۔ ساتھ میں چند ضعیف احادیث سی بھی معجزات ثابت ہیں۔ یہ ہمارے ایمان میں قوت اور اضافے کا سبب ہیں، لہذا اس موضوع کے بارے میں بحث و مباحثہ مناسب نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ ہونے اور نہ ہونے دونوں کی روایات موجود ہیں۔ مگر سایہ ہونے کی جو روایات ہیں وہ زیادہ قوی ہیں۔ 

قال اللہ تعالی فی القرآن المجید:

“وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَكْنَانًا وَّجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيْلَ تَقِيْكُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِيْلَ تَقِيْكُمْ بَاْسَكُمْ ۭكَذٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُوْنَ “۔النحل

“’ وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ‘‘ (الرعد ۔ 15)

ان آیات سے معلوم ہوا کہ جو بھی چیز اللہ نے پیدا کی وہ کسی نہ کسی صورت سجدہ کرتی ہے اس کا سایہ بھی سجدہ کرتا ہے اور اپنی عاجزی کا اظہار کرتا ہے، انبیائے کرام کی مقدس ہستیاں بھی اللہ کی مخلوق ہیں لہذا وہ بھی اس سے مستثنی نہیں۔ 

احادیث مبارکہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

” عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا سجد قال اللہم سجد لک سوادی و خیالی و بک امن فوادی ابو بنعمتک علی و ھذا ما جنیت علی نفسی یا عظیم یا عظیم اغفرلی فانہ لایغفر الذنوب العظیمۃ الا الرب العظیم”۔

{مستدرک حاکم: ۱/۵۳۴}

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدے کی حالت میں یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ یا اللہ میرے جسم اور سایہ نے تجھے سجدہ کیا۔ 

یہاں لفظ “خیال” استعمال ہوا ۔ جس کے بارے میں علامہ مراغی فرماتے ہیں:

“والظلال واحد ھا ظل و ھو الخیال الذی یظھر للجسم”۔

مسند امام احمد میں حدیث عائشہ سے یہی ثابت ہے یہاں متعلقہ حصہ ذکر کیا جاتا ہے:

” انا بظل رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم مقبلا۔”

{ مسند امام احمد بن جنبل ۲/۱۳۲}

اب جن عبارات میں سایہ کے نہ ہونے کا بیان ہے وہ ذکر کی جاتی ہیں، یاد رکھیں یہ صرف عربی عبارات ہیں جو غالبا بعض علمائے کرام کے حسن ظن پر مبنی ہیں،یہ احادیث نہیں۔ علامہ سیوطی کی عبارت ہے۔ 

“لم یکن لرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل ولم یقم مع شمس الا غلب ضوءہ ضوءھا ولا مع السراج الا غلب ضوءہ ضوءہ۔” {الخصائل الکبری۱/ ۶۸}

قاضی عیاض فرماتے ہیں:

“کان لا ظلّ لشخصه في شمس و لا قمر لأنه کان نورًا۔”

{الشفاء ۱/۵۲۲،ابن جوزی الوفاء ۴۱۲}

و اللہ الموفق

قمری تاریخ:١۹صفر١٤٤٠

عیسوی تاریخ:۹ نومبر٢٠١٨

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں