“ساتواں سبق”
“سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”
“رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کا بچپن”
“ولادت سے پہلے”
“رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی دنیا میں تشریف آوری کا”ہزاروں سال” سے انتظار تھا-اس لئے جب” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی” ولادت باسعادت” کا وقت آیا تو “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے”اعزاز واکرام”اور آمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کا مژدہ سنانے کے لئے متعدد حیرت انگیز واقعات رونما ہوئے-
1″حیرت انگیز واقعات”
1- “زمزم کا کنواں”جو برسوں پہلے گم ہو گیا تھا
” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کے دادا”عبد المطلب”کو خواب میں بار بار اس کا مقام بتایا گیا اور ازسرنو اس کی دریافت ہوئ-
2-“ولادتِ باسعادت” سے “50 یا 55دن”پہلے “واقعہء فیل”پیش آیا- “فیل”عربی میں ہاتھی کو کہتے ہیں-“حاکم یمن ابرہہ”صباح حبشی” “ہاتھیوں” کے لشکر کے ساتھ” بیت اللہ” پر حملہ آور ہونا چاہتا تھا کہ “اللّٰہ تعالٰی” نے اس کے ارادوں کو ناکام فرمایا اور”ابابیلوں”کے ذریعے اس کے غرور کو اک میں ملادیا-“سورہ الفیل” میں اس کا تذکرہ موجود ہے-
3-“مکہ معظمہ” قحط سالی کا شکار تھا”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی آمد کی خوشی میں”اللّٰہ تعالٰی” نے” مکہء مکرمہ” کی” قحط سالی”ختم فرمادی-
4-“میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی والدہ” بی بی سیدہ آمنہ رضی اللّٰہُ عنہا” فرماتی ہیں کہ “جب پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” انکے بطن میں تشریف لائے تو”لا وجدت لہ ثقلتہ کما تجد النساء”مجھے عام عورتوں کی طرح کوئی بوجھ محسوس نہیں ہوتا تھا- ایک دفعہ میں خواب و بیداری کی حالت میں تھی کسی نے آکر مجھے کہا” انک حملت بسید ھذالامت و نبیاء”اے آمنہ خاتون! تیرے” بطن اطہر” میں اس امت کے”سردار” تشریف فرما ہیں-
5-“جناب عبد المطلب” کا خواب”-
“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے دادا”حضرت عبدالمطلب” نے” نبئ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی “ولادت باسعادت”سے قبل خواب دیکھا کہ انکی پشت سے”ایک زنجیر ” ظاہر ہوئ جسکی ایک جانب” مغرب”اور ایک جانب”مشرق” میں ہے- ایک جانب “آسماں” میں اور ایک جانب”زمین” میں ہے-کچھ دیر بعد” وہ زنجیر” درخت” میں تبدیل ہو گئ٫ جس کے ہر پتے پر”سورج کے نور” سے”70″گنا زیادہ نور ہے-مشرق و مغرب کے لوگ”اس درخت” کو چمٹے ہوئے ہیں-کچھ قریشی بھی ہیں-
“حضرت عبد المطلب” نے اس خواب کی تعبیر معلوم کی تو”,ان کے علماء نے کہا”آپ” کی نسل میں ایک” ایسا لڑکا” پیدا ہوگا جس کی”مشرق و مغرب” کے لوگ” اتباع” کریں گے اور “آسمان وزمین” والے اسکی”حمدوثنا کریں گے- (سیرت المصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”جلد 1 البدایہ والنہایہ ج 2)
“ولادت با سعادت”
“میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کی ولادت باسعادت” ربیع الاول کے ماہ میں پیر کے دن ہوئ”- اس پر سب متفق ہیں لیکن تاریخ کیا تھی؟ اس میں اختلاف ہے- 2-8-9-10-12-17-28-اور 22-ربیع الاول یہ سب اقوال ہیں٫ان میں سے 8-9-اور12 ربیع الاول زیادہ معروف ہیں-ان میں بھی زیادہ صحیح قول “9”ربیع الاول” ہے- ” پروفیسر محمد حضری رحمہ اللّٰہ” کہتے ہیں کہ
ترکی کے مشہور”ماہر فلکیات” محمود پاشا” نے جو کہ “ترکی” کے”ماہر فلکیات”ہونے کے ساتھ ساتھ”جغرافیہ اور حساب” میں بھی بہت ماہر تھے٫ انہوں نے کافی کتب کے مطالعہ اور تحقیقات کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ”محبوب خدا”پیارے نبی” حضرت محمد مصطفی صلَّی اللّٰہ علیہ وسلم” کی ولادت باسعادت”9ربیع الاول٫بروز پیر بمطابق 20 اپریل”سن571ء” کو ہوئ- جو کہ”واقعہء فیل” کا پہلا سال ہے-
جبکہ”معروف بریلوی عالم”علامہ احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللّٰہ” نے “8 ربیع الاول” کو ترجیح دی ہے-( واللہ اعلم)
“ولادتِ باسعادت”کے بارے میں” شاعر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”حضرت حسان بن ثابت رضی اللّٰہ عنہ” فرماتے ہیں” میری عمر اس وقت” 7-8″سال تھی میں نے دیکھا کہ ایک یہودی زور زور سے کہ رہا ہے”یا معشر الیہود فاجتمعو الی”اے یہودیوں میرے پاس جمع ہو جاؤ” سب نے جمع ہو کر پوچھا “کیا ہوا خیر تو ہے؟اس نے کہا”قد “طلع نجم احمد٫ الذی یولد بہ فی ھذہ الیلہ”آج کی رات”احمد صل اللہ علیہ وسلم”پیدا کو چکے کیں٫کیونکہ آسمان پر” ان کا ستارہ طلوع “ہو چکا ہے- (البدایہ والنہایہ)
“حضرت زید بن عمر بن نفیل رضی اللّٰہُ عنہ” کہتے ہیں” مجھے علمائے شام” میں سے ایک” عالم” نے کہا” تمہارے شہر میں ایک نبی پیدا ہوچکا ہے٫کیونکہ”خرج النجم” اسکا “ستارہ طلوع “ہو گیا ہے-جاؤ انکی تصدیق کرو-
(البدایہ والنہایہ)
“ولادت کے بعد”
4-“رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”ولادت کے بعد پہلے مسکرائے٫پھر گھومے٫اور ایک طویل سجدہ کیا﴾سجدے کی کیفیت میں”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” پیدا ہوئے،-
5-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” ناف بریدہ تھے-(یعنی آنول نال کٹی ہوئ تھی-)
6-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” مختون پیدا ہوئے تھے-(یعنی ختنہ ہوئ ہوئ تھیں-)
7-“ا آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”ولادت کے بعد گندگی سے پاک تھے-جسم سے خشبو آرہی تھی- جسم ہر کوئ آلائش نہیں تھی-
8-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم’ کے ستر کو کسی نے نہیں دیکھا-
9-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے” اللہ” کی شان میں تعریفی کلمات”اللّٰہ اکبر کبیرا” الحمدللہ کثیرا٫ سبحان اللّٰہ بکرہ و اصیلا” کہے-
10-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی ولادت باسعادت” کے وقت”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے جسم اطہر” سے ایک نور نکلا جس سے”شام کے محلات روشن ہوگئے-
11-“کعبے” میں رکھے بت گر گئے-‘’
12-شیطان نے زوردار چیخ ماری-13 -“ایران کے”آتشکدہ” میں “1000”سال سے جلتی ہوئ آگ بجھ گئ-
14-“بحیرہ ساوہ” خشک ہو گیا-15-“سلطنت روم میں “کسری”کے ایوانوں کے”14” کنگرے گر گئے-
“حضرت عثمان بن العاص” رضی اللّٰہُ عنہ” کی والدہ جو”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی ولادت باسعادت” کے وقت وہاں موجود تھیں فرماتی ہیں”اس وقت میں”بی بی “آمنہ” کے گھر موجود تھی٫میں نے دیکھا کہ سارا گھر منور ہو گیا-اور آسمان کے ستارے ہم سے اتنے قریب ہو گئے کہ گویا ہم پر گر تے ہیں-
17-جب”خاتم الانبیاء” احمد مجتبیٰ”محمد مصطفی صلَّی اللّٰہ علیہ وسلم”کی ولادت باسعادت”ہوئ اس وقت “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے داد”جناب عبد المطلب”کو اطلاع دی گئی-خبر سن کر بہت خوش ہوئے” “عبدالمطلب” اسی وقت مع احباب”در عبد اللہ”پر تشریف لائے- اہل خانہ نے”آپ صلی اللہ علیہ کی “ولادت باسعادت”کے وقت پیش آنے والے واقعات٫ اور عجائبات قدرت سنائے تو”عبد المطلب”بہت خوش ہوئے اور پھر پوتے کے پاس گئے اس کو گود میں لیا تو چہرہ بھر آیا- مرحوم بیٹے ” عبد اللہ” کی یاد آگئ- پھر جب”چاند سے حسین چہرہء مبارک پر نظر پڑی تو بہت خوش ہوئے-(بقول شاعر” رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”)
“و احسن منک لم ترقط عین”
“واجمل منک لم تلد النساء”
“خلقت مبرا ءمن کل عیب”
کانک قد خلقت کما تشاء”
( سیدنا حسان بن ثابت) “رضی اللّٰہ عنہ”
18-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی پیدائش کی خبر جب”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے چچا “ابو لہب” کو اسکی کنیز “ثویبہ” نے دی تو اس نے “شہادت کی انگلی” اٹھاکر “ثویبہ” کو آزاد کر دیا”- “اللّٰہ تعالٰی” نے اس کی اس بات کے اکرام میں ہر پیر کے دن “جہنم” میں اسکی اس” انگلی کے برابر پانی پلانے “( حلق کو تر کرنے) کا انتظام کردیا ہے-
(“کتنے بڑے ہیں حوصلے میرے پروردگار کے”)
“عقیقہ اور نام”
1-“میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کا”عقیقہ”
عرب کے دستور کے مطابق ساتویں دن کیا گیا-
“والدہ”بی بی آمنہ” نے “اللّٰہ تعالٰی” کے اذن سے “احمد” جبکہ”دادا” نے “محمد” نام رکھا-یہ دونوں نام عرب میں معروف نہ تھے٫پہلی دفعہ “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” ہی کے رکھے گئے-
“رضاعت”
1-سب سے پہلے”ابو لہب” کی کنیز”ثویبہ” نے”آپ صل اللہ علیہ وسلم” کو دودھ پلایا-2-اس کے بعد “والدہ بی بی آمنہ” نے- 3- اس کے بعد”ام ایمن”جو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے والد کی باندی تھیں انہوں نے دودھ پلایا-
4-اس کے بعد “4” سال تک یہ سعادت”قبیلہء بنو سعد کی” دائ حلیمہ سعدیہ” کے حصے میں آئی-بقول شاعر-
“یہ کہتی تھیں گھر گھر میں جاکر حلیمہ”
“میرے گھر”حبیب خدا” آگئے ہیں-
“رضاعت”
“دائ حلیمہ سعدیہ”بنو سعد” سے تعلق رکھتی تھیں-عربوں کے دستور کے مطابق اپنے قبیلے کی عورتوں کے ساتھ”قریش” کے قبیلے سے دودھ پلانے کے لئے بچے لینے آئ تھیں-
غریب بھی تھیں اور جب گھر سے چلی ہیں تو اونٹنی بھی لاغر تھی-اس کے تھن بھی دودھ سے خالی تھے-ساتھ کی عورتیں مالدار گھروں سے بچے لے کر آگئیں- “آمنہ” کے لعل کو بھی سب نے دیکھا مگر جب پتہ چلتا کہ” یتیم” ہیں تو مال نہ ملنے کی امید پہ سب چلی گئیں-
دراصل یہ “سعادت” قبیلہء بنو سعد” کی دائ”حلیمہ سعدیہ” کے مقدر میں لکھ دی گئ تھی کہ”محبوبِ الٰہی” حضرت محمد مصطفی صلَّی اللّٰہ علیہ وسلم” کی رضاعت کی سعادت ان کو ملے-اس لئے جیسے ہی “بی بی حلیمہ” نے” بچے” کو دیکھا محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کے سینے میں موجزن ہو گیا- میرے”نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” بھی”دائ حلیمہ” کو دیکھ کر مسکرائے اور” ان” کی گود میں آتے ہی”میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی برکتوں کا ظہور بھی ہونے لگا-
“دائ حلیمہ” کے دونوں “پستان” دودھ سے بھر گئےاور”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نےاور انکے رضاعی بھائی”عبداللہ” نے بھی خوب سیر ہوکر پیا اور سکون کی نیند سوگئے-
پھر اونٹنی جو اتنی لاغر تھی کہ قافلے کے پیچھے رہ جاتی تھی اسکے تھن بھی دودھ سے بھر گئے- “دائ حلیمہ” اور انکے شوہر نے خوب سیر ہو کر پیا اور سب چین کی نیند سو گئے-
صبح جب قافلہ چلا ہےتو “اونٹنی” کی خوشی دوبالا تھی اور خوش خوش قافلے سے آگے آگے چلی جاتی تھی-تب قافلے والوں نے پوچھا”اے حلیمہ” یہ تیری اونٹنی وہی ہے یا کوئ اور ہے-
قبیلے پہنچ کر”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی برکتوں کا اور ظہور ہوا-
انکی بکریوں کے خشک تھن بھی دودھ سے بھر گئے- جس جگہ”دائ حلیمہ”کی بکریاں چرنے جاتی تھیں اس جگہ خوب سبزہ آجاتا جسکی وجہ سے بکریاں خوب موٹی تازی ہو کر بھرے پیٹ واپس آتیں-“حلیمہ سعدیہ” کے شوہر”حارث” نے بھی یہ سب محسوس کر کے”اپنی زوجہ” سے کہا” لگتا ہے” حلیمہ”یہ بہت برکت والا بچہ ہے- “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی برکتوں سے”دائ حلیمہ” کا سارا گھرانہ خوش حال ہو گیا-
“کفالت و تربیت”
1-رضاعت کی مدت ختم ہونے کے بعد”دائ حلیمہ سعدیہ”بی بی آمنہ” کی اجازت سے مزید کچھ مدت کے لئے”آپ صلی اللہ علیہ وسلم”کو اپنے ساتھ لی گئیں-اس وقت” مدینہ منورہ” میں کوئ و با پھیلی ہوئ تھی اس لئے بھی بی بی آمنہ”نے دوبارہ لے جانے کی اجازت دے دی-
2-” 4″ سال کی عمر میں “شق صدر” کا واقعہ پیش آیا اور کچھ یہودیوں کے خوف سے بھی متاثر ہوکر “دائ حلیمہ سعدیہ” نے ٫
” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو”بی بی آمنہ” کے حوالے کر دیا-
3-پھر دو سال تک”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے” آغوش مادر” ہی میں تربیت پائی-
“باندی ام ایمن” “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی خاطر داری اور خدمت گزاری کرتیں٫ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو کھانا کھلاتیں٫ کپڑے بدلواتیں اور “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے کپڑے دھوتی تھیں-
4-جب”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی عمر مبارک “6” برس ہوئ تو”والدہ ماجدہ” کے ہمراہ اپنے”والد ماجد” کی قبر کی زیارت کے لئے ننھیال تشریف لے گئے- واپسی کے سفر میں “ابواء” کے مقام پر پہنچ کر”والدہ ماجدہ” بیمار ہوئیں اور وہیں انتقال فرما گئیں-انا للہ و انا الیہ راجعون،
5-اسکے بعد دو سال تک” آپ ” صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے دادا”عبد المطلب”نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی کفالت کی- “8”سال کی عمر میں دادا کا بھی انتقال ہوگیا-
6-اس کے بعد”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” اپنے چچا ” ابو طالب” کے زیر کفالت” ا گئےاور یہ رفاقت طویل عرصے قائم رہی-“حضرت ابو طالب” اپنے بچوں سے زیادہ”اس در یتیم” سے محبت فرماتے تھے-
7-“10” سال کی عمر میں “خانہء کعبہ” کی مرمت میں حصہ لیا-
8-“12″سال کی عمر میں شام کا پہلا تجارتی سفر کیا- اسی سفر میں” بحیرہ راہب” سے ملاقات ہوئ- جو خود آ کر” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” سے ملا٫اس کا اصل نام جرجیس تھا-اس نے علامات کے ذریعے”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو پہچان لیا اور بتایا کہ “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” آخری نبی اور عظیم شخصیت” ہیں-ساتھ ہی “ابو طالب،” کو خبردار بھی کیا کہ یہودی”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،” کے دشمن ہیں اگر”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو پہچان گئے تو ان کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے-حضرت ابو طالب” نے”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو واپس بھجوا دیا–
(ختم شد الحمدللہ)