“اٹھارہواں سبق”
“رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کا اندازِ انقلاب”
“آج کا مسلمان “ہر جگہ مظلومیت و مغلوبیت کا شکار ہے-مسلمان مظلوم ہو کر بھی ظالم قرار دیئے جاتے ہیں-” غیر اقوام “دہشت گردی” کریں٫ تصادم “کی راہ اپنائیں کوئ کچھ نہیں کہتا٫ لیکن مسلمان مارے جائیں ٫ ان کی بہنوں بیٹیوں٫ کو بےدردی سے “آبرو ریزی کے بعد ذبح کر دیا جائے٫ تب بھی انہیں ہی “دہشت گرد” اور “عسکریت” پسند کہا جاتا ہے-
دنیا میں “ڈھائ ارب مسلمان” بستے ہیں٫ لیکن وہ ایک دوسرے سے “بیگانہ “ہیں-“50” سے زائد “اسلامی ممالک” ہیں لیکن چند ایک کے علاوہ کوئ آواز نہیں اٹھاتا- ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ “اللہ تعالیٰ”کی مدد شامل حال نہیں رہی-
“محسنِ انسانیت٫ نبیء رحمت صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کی سیرت کا سب سے” روشن پہلو” یہ ہے کہ ایک “جاہل اور بد اخلاق” سمجھی جانے والی قوم کو “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی” تعلیم و تربیت اور “صحبت “نے “اخلاق و کردار” کا مجسم پیکر” بنادیا- وہ قوم جو “کسی تہذیب “سے نا آشنا تھی اسے” تہذیب کی صف اول” میں لا کھڑا کیا-اسے دنیا کا” فاتح” بنا دیا-(دیکھئے سبق نمبر 4)
آج پھر سے ہماری کھوئ ہوئ شان و شوکت لوٹ سکتی ہے-ہم آج بھی “فاتح قوم “بن کر ابھر سکتے ہیں-بس ہمیں اپنے اندر وہ “صفات” پیدا کرنی ہونگی جو” حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اپنے”صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین”میں پیدا کی تھیں- اس “اندازِ انقلاب” کو اپنانا ہوگا جو ” میرے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اپنایا تھا-
“وہ کیا صفات تھیں؟”
“وہ کیا انقلاب تھا؟”
“آئیے! کچھ تلاش کرتے ہیں-
(“ہمیں جو سمجھ میں آیا ہم وہ بیان کرتے ہیں٫ اس میں کہیں کوئ اصلاح طلب باتیں ہوں تو اہل علم ضرور فرمائیں”-)
“خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلَّی اللّٰہ علیہ وسلم” نے” حکمت و بصیرت “کے ساتھ اور “آہستہ آہستہ” اپنے اہداف کی طرف قدم اٹھائے-
“پہلے” غار حرا” کی تنہائیوں میں “محبت و قربت “کی منزلیں طے کیں-
“امت کے لئے خوب روئے”
“بھٹکے ہوؤں کو راہ پر لانے کے لئے”اللّٰہ تعالٰی” سے لائحہء “عمل مانگا-
“نبوت کے تین سال”تک “اسلام” کی” دعوت” کو خفیہ رکھا-جب “مسلمانوں” کی ایک بڑی تعداد ہوگئ تب”اسلام” کا کھلم کھلا اعلان کیا-
شروع میں”عقائد٫اصلاح معاشرت٫اصلاح اخلاق٫ اور اصلاح نفس”پر زیادہ زور دیا-“سب کچھ”اللّٰہ تعالٰی” سے ہونے کا یقین اور”اطاعت”کا جذبہ کوٹ کوٹ کر” صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کے دلوں میں پیوست کر دیا “اور باطل” کے خلاف ڈٹنا سکھا دیا-
“آپ صل اللہ علیہ وسلم” نے”اعلان حق کے بعد”13″ سال تک”ہتھیار” اٹھانے سے گریز کیا-
لیکن جب”سن”2″ھ” میں جہاد فی سبیل اللہ” کا فریضہ “نازل ہوا تو “صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” نے انتہائی بہادری اور بے مثال”ذہانت و تدبر” سے” جنگی مہمات “سر کیں- آپس میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنے مرنے والے قبائل کو “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے “ایک لڑی اور ایک نظریئے میں پرودیا”-ان میں مثالی “اتفاق و اتحاد” پیدا کر دیا-
“نبیء ملاحم حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے بلا جواز خون ریزی سے گریز کیا-
“فتح مکہ” کے موقع پر اپنے جانی دشمنوں کو باوجود قدرت کے “لا تثریب علیکم الیوم” کہ کر معاف کر دیا- دنیا کو “گفتار اور کردار” سے یہ پیغام دیا کہ” مسلمان قوم محبت اور اخلاق سے پیش آنے والی اور علم دوست قوم ہے-
ہمیشہ “توحید”امانت و دیانت” اور “عدل و انصاف” پر قائم رہنے کا حکم دیا- کیونکہ حکومت”شرک” کے ساتھ تو قائم رہ سکتی ہے لیکن”ظلم و نا انصافی کے ساتھ قائم نہیں رہ سکتی-
“نبیء کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کا اندازِ انقلاب”
“اللّٰہ تعالٰی” سے مظبوط تعلق”
“اللّٰہ تعالٰی” سے مظبوط تعلق ہونے سے ہی “اسلامی انقلاب” اور تبدیلی آسکتی ہے٫ کہ یہی کامیابی کی” کلید” ہے-
“غارِ حرا” میں خلوت نشینی”امت” کو یہی درس دیتی ہے-
“غارِ ثور”میں”لا تحزن” ان اللّٰہ معنا” بھی امت کو یہی درس دیتی ہے-
“میرے نبی” صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے”صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کا تعلق”اللّٰہ تعالٰی” سے مظبوطی سے جوڑ دیا تھا- ان کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ ہر مشکل میں “صبر اور نماز کے ساتھ “دعاؤں کا بھی اہتمام ہوتا تھا-“میرے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے ان کے اندر روحانیت٫تقوی ٫اور خدا خوفی کی انتہائی درجے کی اعلیٰ صفات پیدا کر دی تھیں٫ جس کے بعد” اللّٰہ تعالٰی” سے ان کا ایسا”مظبوط تعلق” پیدا ہوا کہ”اللہ تعالیٰ”ان کی دعاؤں کو فوراً” شرف قبولیت “عطاء فرماتے-
“اللّٰہ تعالٰی” سے ہونے کا یقین”
“صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” خودکو “اللّٰہ تعالٰی” کا ہی محتاج سمجھتے تھے-سب کچھ “اللّٰہ تعالٰی” ہی سے ہونے کا “یقین “ان کے دلوں میں راسخ ہو چکا تھا-“و انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین-“
“نبیء کریم” صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے”صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کے اندر یہ “صفت “اعلیٰ درجے کی پیدا کردی تھی-
“غزوہء احد و حنین”میں جہاں دھیان” اسباب اور اپنی ذاتی صلاحیتوں “کی طرف گیا٫فورا”اللّٰہ تعالٰی” کی طرف سے تنبیہ کی گئی٫اور اصلاح کی گئ کہ “نظر مسبب الاسباب”رازق و مالک” اللہ تعالیٰ”کی طرف ہونی چاہئے٫اسباب کی طرف نہیں-
“تعلیمی صلاحیتیں”
تبدیلی کے لیے”تعلیمی صلاحیتیں ہونا اشد ضروری ہیں-
“رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” پر نازل کی گئ “پہلی وحی”اقراء”تھی جس میں یہ پیغام تھا کہ “تعلیم اور فنی علوم “سے اس” امت” کو عروج ملنے والا ہے-“قرآن کریم اور “احادیثِ مبارکہ” میں “تعلیم اور تحصیل علم” کے بیشمار “فضائل “بیان کئے گئے ہیں -“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے”صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کو جہاں” اخلاق و آداب” کی تعلیم دی وہیں “کتابت اور اور دوسری زبانیں سیکھنے کے لئے دور دراز علاقوں کی طرف بھی بھیجا-اس طرح “رائج الوقت”تمام ضروری علوم کے ماہرین تیار کئے-
“صبر وتحمل”
“سیرتِ طیبہ” ہمیں”صبر و تحمل اور تدریجی” حکمتِ عملی” اپنانے کا درس دیتی ہے-“اللّٰہ تعالٰی” کی ہمیشہ یہ “سنت” رہی ہے کہ”آزمائشوں اور امتحانات” سے اپنے نیک بندوں کو گزارتے ہیں٫تاکہ “مومن” اور” منافق” میں امتیاز ہو جائے٫اس کے بعد اپنی” مدد و نصرت” نازل فرماتے ہیں-اس لئے حق کے راہی کو جلدبازی سے گریز کرنا چاہئے٫ کہ جلدبازی”شیطان” کی طرف سے ہوتی ہے-
جب” انبیاء کرام علیہم السلام”تک کو آزمائشوں سے گزارا گیا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں جو فوری مدد نہ آنے پر دل برداشتہ ہوں-
“اطاعت امیر”
“صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی کامل اطاعت کرتے تھے-.”غزوہء احد” میں بعض”نئے مسلمانوں” کی طرف سے” اطاعت” میں کمی دیکھی گئ تو”اللّٰہ تعالٰی” کی طرف سے تنبیہ کی گئی-“صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کی طرف سے اطاعت امیر کی صفت اتنی زیادہ تھی کہ اگر کسی”کم عمر “صحابی “کو بھی”امیر” بنایا جاتا تو سبھی انکی اطاعت کرتے-“قرآن کریم” میں جہاں”اللہ تعالیٰ”اور اسکے” رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی اطاعت کو واجب قرار دیا گیا ہے وہیں” حکمرانوں” اور جنگ میں “اپنے امیر” کی اطاعت کو بھی لازم قرار دیا ہے-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کی”احادیث مبارکہ”سے معلوم ہوتا ہے کہ” اگر کسی” حبشی غلام” کو یا کسی”کمسن صحابی رضی اللّٰہُ عنہ” کو بھی”امیر بنادیا جائے تو اسکی” اطاعت” بھی بہت ضروری ہے-در حقیقت “اطاعت امیر ہی ایسے مواقع پر سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے-“اطاعت”فتنوں اور بغاوتوں” کو کچلتی ہے- “اطاعت قوم کو متحد اور منظم کرتی ہے-
جبکہ “نافرمانی”انتشار٫ اور بد امنی پیدا کرتی ہے-
“حکم عدولی” اور “نااتفاقی”سے ترقی اور انقلاب کا پہیہ سست پڑ جاتا ہے-
“شجاعت و بہادری”
“حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم” خود بھی بہادر تھے اور”صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کے اندر بھی ” شجاعت و بہادری کے اعلی اوصاف پیدا کر دئے تھے-“نبئء ملاحم صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کی بیمثال شجاعت کا یہ عالم تھا کہ”حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ” جیسے بہادر صحابی فرماتے ہیں کہ جب لڑائ خوب زوروں پر ہوتی اور بڑے بڑے بہادروں کی آنکھیں پتھرا کر سرخ ہو جایا کرتی تھیں اس وقت ہم لوگ”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کے پہلو میں کھڑے ہوجایا کرتے تھے٫اور”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے بڑھ کر اور دشمن کے بالکل قریب ہو کر ان سے جنگ فرماتے تھے-اور ہم لوگوں میں سب زیادہ بہادر وہ شخص شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے قریب ہو کر دشمنوں سے لڑتاتھا-
“حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہُ عنہ” فرمایا کرتے تھے کہ”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” سے زیادہ بہادر٫طاقتور٫سخی اور پسندیدہ شخص میری آنکھوں نے کبھی کسی کو نہیں دیکھا-
جرآت و شجاعت کا اظہار کبھی میدان جنگ میں اور کبھی ظالم بادشاہوں کے سامنے کرنے میں “صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین”ہر قسم کی تکالیف جھیل لیتے تھے-“صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین”میں یہ جوہر بھی موجود تھا کہ سولی پر چڑھ جاتے تھے٫ آری سے چیر دئے گئے لیکن اپنے “اسلام” سے نہ ہٹتے تھے-اپنے سے کئ گنا طاقتور دشمن سے بھی ٹکر لے لیتے تھے اور اللّٰہ کے فضل اور اسکی مدد سے کامیاب واپس آتے تھے-(ابو داؤد کتاب الجہاد)۔
“نبیء اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کا انداز انقلاب”
“صحابیات رضی اللّٰہُ عنھن” کے بہادرانہ کارنامے بھی کم نہیں-“امی عائشہ رضی اللّٰہُ عنہا٫حضرت فاطمہ بنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” غزوات میں مشکیزہ میں پانی لا لا کر مجاہدین کو پلاتی تھیں٫زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں٫ حضرت ام عمارہ رضی اللّٰہُ عنہا” کے بارے میں”پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کا ارشاد ہے٫مفہوم ہے کہ” میں جدھر دیکھتا تھا”عمارہ” نظر آتی تھیں”غزوہء احد” کا سنگین معرکہ تھا-فتح شکست میں بدلنے لگی تھی٫ایسے میں چند جانثار صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کے ساتھ”ام عمارہ رضی اللّٰہ عنہا” تھیں جو” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے سامنے حفاظت کے لئے ڈھال بن کر کھڑی تھیں-اس غزوہ میں ان کے” کندھوں اور جسم “پر تلواروں کے نو زخم آئے تھے٫جبکہ ایک زخم تو اتنا بڑا تھا کہ بھرنے کے بعد بھی گڑھا بن گیا تھا-( سبحان اللّٰہ کیا جذبہء عشق تھا)
“غزوہء حنین” میں شروع میں “کفار” نے اس زورو شور سے حملہ کیا کہ مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے٫ ایسے میں”ام سلیم اور ام عمارہ رضی اللّٰہ عنہما”کی شجاعت و بہادری کا یہ حال تھا کہ ہاتھ میں خنجر لئے ہوئے منتظر تھیں کہ کوئ کافر سامنے آئے تو اس کا کام تمام کردیں-“حضرت ضرار بن الازور کی بہن”خولہ بنت اور”کی بہادری پر تو “سیف اللہ”حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہُ عنہ” بھی عش عش کر اٹھے تھے-(ابو داؤد کتاب الجہاد٫ )
“معاشرت اور معاملات”
دور”نبوت” میں مسلمانوں کے اندر”معاشرت اور معاملات” میں درستگی پائ جاتی تھی-“میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کا ارشاد تھا کہ مسلمان ہر برا کام کر سکتا ہے لیکن “جھوٹ “نہیں بول سکتا-اور آج ہمارے اندر ” جھوٹ اتنا رچ بس گیا ہے کہ (“العیاذ باللہ”) اس کو گناہ تو سمجھتے ہی نہیں ہیں- “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے تاجروں کو ملاوٹ٫ ذخیرہ اندوزی”دھوکہ دہی ٫چور بازاری اور جھوٹ”سے بچنے کی تاکید کی تھی-
“معاشرت اور معاملات” میں آج کا مسلمان بہت بدنام ہے-عالمی منڈی میں مسلمانوں کے مال کے خریدار نہ ہونے کے برابر ہیں-اعتماد نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ” مسلمان تاجر” جھوٹ٫ بےایمانی٫ رشوت٫سود اور ملاوٹ کے بغیر کاروبار کرنا مشکل سمجھتا ہے٫ جسکی وجہ سے مسلمانوں نے مارکیٹنگ میں”معاشیات و مالیات کے شعبوں میں بد اعتمادی کی فضاء پیدا کردی ہے-ہمارے تو معاشرتی اور اخلاقی حالات بھی مسلسل انحطاط اور زوال کا شکار ہیں- پیسے کی ہوس نے”لوٹ کھسوٹ” ٫جعلسازی٫ دہشت گردی٫اور خوف کی فضاء پیدا کردی ہے-ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ممالک تجارت کے میدان میں “اسلامی اصولوں” کے مطابق اپنے مال کو بازار میں پیش کریں- “تجارتی اور معاشرتی” معاملات” صاف رکھے جائیں٫ تاکہ دنیا کے تاجر “اسلامی ممالک میں تجارت کے لئے آنے کو پرکشش اور جاذب محسوس کریں-( غیر مسلموں نے ان تمام اسلامی اصولوں کو اپنا کر ہی بے مثال کامیابیاں حاصل کر لی ہیں-)
“دور نبوت” میں مسلمانوں کے اندر یہ تمام صفات موجود تھیں٫ گو صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کے اندر کچھ کمزوریاں بھی تھیں لیکن معمولی کمزوریوں کو نظر انداز کر دیا گیا اور فتح و نصرت حاصل کی-“مسند احمد”کی روایت کے مطابق اگر آج بھی مسلمان ان تمام “صفات و شرائط” کے ساتھ تجارتی معاملات میں50٪بھی پورا اتریں تو ان شاءاللہ”اللّٰہ تعالٰی” کی مدد زیادہ دور نہیں-
( مسند احمد)
“فضائے بدر پیدا کر
فرشتے تیری نصرت کو٫
“اتر سکتے ہیں گردوں سے
قطار اندر قطار اب بھی”
(ختم شد الحمدللہ اٹھارہواں سبق)
حوالہ: سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کورس-
مرسلہ: خولہ بنت سلیمان-
“الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف آمین”
31-1-22 پیر بمطابق 28 جمادی الثانی٫1443″