سوال: مجھے راستے سے 500 روپے ملے مجھے تو پتا نہیں کہ اس کا مالک کون ہے اب ان پیسوں کا کیا کیا جائے کیا میں اپنے استعمال میں لا سکتا ہوں ؟ایک بات یہ بھی پوچھنی ہے کہ راستے میں پڑی ہوئی رقم اٹھانی چاہیے یا نہیں ؟
﷽
الجواب حامدا و مصلیا
ان پیسوں کا حکم یہ ہے کہ ان کی تشہیر کی جائے جب غالب گمان ہو جائے کہ اب اصل مالک نہیں آئےگا تو اس کے بعداس رقم کو آپ خود استعمال کرسکتے ہیں جبکہ آپ مستحق ہوں ورنہ اس رقم کواصل مالک کی طرف سے صدقہ کرنالازم ہوگا ۔
راستے میں پڑی ہوئی چیزکے ضائع ہونے کا خوف ہو تو اس چیز کوحفاظت کی غرض سے اٹھا نا ضروری ہے اوراگر ضا ئع ہونے کا خوف نہ ہو تو اس صورت میں اٹھا نا مباح ہے ۔
الفتاوی الهندية (4/308)
اللقطةعلی نوعین:نوع من ذالک یفترض و هوما اذا خاف ضیاعها و نوع من ذالک لا یفترض وهو ما اذا لم یخف ضیاعها و لکن یباح اخذها
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 278)
(فإن أشهد عليه) بأنه أخذه ليرده على ربه ويكفيه أن يقول من سمعتموه ينشد لقطة فدلوه علي (وعرف) أي نادى عليها حيث وجدها وفي الجامع (إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها أو أنها تفسد إن بقيت كالأطعمة) والثمار (كانت أمانة) لم تضمن بلا تعد فلو لم يشهد مع التمكن منه ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ : عبداللہ عفی عنہ
نومحمد ریسرچ سینٹر
دھورا جی کراچی
۱۴۴۱ھ/۶/۲۶
2020/02/18