حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”ایاکم و الجلوس فی الطرقات راستوں میں بیٹھنے سے بچا کرو! راستوں میں مت بیٹھا کرو! صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! راستوں میں بیٹھے بغیر کوئی چارہ نہیں ہم راستوں میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے اس پر فرمایا: اگر راستوں میں بیٹھے بغیر چارہ نہ ہو ، مجبوری اور عذر کی وجہ سے راستے میں بیٹھنا ہی پڑے تو فاعطوا الطریق حقہ تو ٹھیک ہے راستے میں بیٹھ سکتے ہو لیکن راستے کے حق ادا کیا کر لیا کرو! صحابہ کرام نے عرض کیا : وما حق الطریق یا رسول اﷲ! راستے کے حق کیا ہیں؟ تو اﷲ کے نبی ﷺنے ارشاد فرمایا: ”غض البصر نظریں نیچی رکھا کرو!
وکف الاذیٰ گزرنے والوں کو تکلیف ہو اس طرح مت بیٹھو! گزرنے والوں کی سہولت اور آرام کا خیال رکھو!
ورد السلام کوئی سلام کرے تو اس کے سلام کا جواب دو!
والامر بالمعروف والنھی عن المنکر اچھی باتوں کا حکم دو اور گناہ کے کاموں سے منع کرو!
(مسلم شریف حدیث نمبر : (٢٨٨٠)
میرے دوستو! اس حدیث میں اﷲ کے نبی ﷺ نے راستے کے حقوق بیان فرمائے ہین۔ اﷲ کے نبی ﷺ نے رہن سہن کے طور طریقوں تک کے آداب ہمیں سکھائے ہیں۔ آپ ﷺنے چھوٹے سے چھوٹے گھریلو اور معاشرتی مسئلہ کی بھی امت کو راہ نمائی فراہم کردی ہے۔ اس حدیث میں اﷲ کے نبی ﷺ نے یہ تعلیم امت کو فراہم کی ہے کہ بہتر طریقہ اور مناسب بات تو یہ ہے کہ لوگ راستوں میں نہ بیٹھا کریں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی عادت تھی کہ وہ اپنے گھروں کے باہر جو کشادہ گلیاں اور گزرنے کے راستے ہوتے تھے وہاں بیٹھ جایا کرتے تھے۔ جس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ غربت کی وجہ سے ان کے گھر بہت چھوٹے چھوٹے ہوا کرتے تھے۔ گھروں میں اتنی جگہ نہ ہوتی تھی کہ گپ شپ اور علمی مجلسیں قائم کرسکتے۔ اس لیے مجبوری اور عذر کی وجہ سے ان کو باہر بیٹھنا پڑتا تھا۔ وہاں بیٹھ کر ہلکی پھلکی، پاک صاف گپ شپ بھی ہوا کرتی تھی اور علمی محفل بھی جمتی تھی۔ گھر کی تنگی کا سامنا خود اﷲ کے نبی ﷺ کو بھی تھا۔ آپ علیہ السلام کی ازواجات مطہرات اور اُمہات المومنین کے حجرے بھی چھوٹے چھوٹے ہوا کرتے تھے۔ آپ ﷺ جب تہجد کی نماز میں اﷲ کے حضور سجدہ ریز ہوتے تو حجرے کی تنگی کی وجہ سے سر مبارک حضرت عائشہ کے قدموں کو چھوتا۔ حضرت عائشہ اپنے قدم سمیٹ لیتیں۔ اسی طرح حضرت زینب رضی اﷲ عنہا کے ساتھ جب آپ ؐ کا نکاح ہوا تو ولیمہ کی دعوت میں حضرت زینب رضی اﷲ عنہا کے حجرے کی حالت یہ تھی کہ وہ ایک طرف اپنا چہرہ دوسری طرف کرکے بیٹھی ہوئی تھیں اور صحابہ کرام ولیمہ کی دعوت میں شرکت کرکے واپس جارہے تھے۔ اسی موقع پر پردہ کا حکم بھی نازل ہوا تھا۔
اﷲ کے نبی ﷺنے پہلے تو صحابہ کرام کو ایک افضل بات کی طرف توجہ دلائی کہ راستوں میں مت بیٹھا کرو! لیکن جب صحابہ کرام نے اپنا عذر بیان کیا تو اﷲ کے نبی ﷺ نے اصل حکم بیان فرمایا کہ چند باتوں کا خیال رکھو تو راستوں میں بیٹھ سکتے ہو، ورنہ راستوں میں نہ بیٹھو!
پہلا حق۔۔۔۔۔۔ نظریں نیچی رکھو!
یعنی راستہ سے گزرنے والوں میں عورتیں بھی ہوتی ہیں تو عورتوں کی طرف نہ دیکھو! کیونکہ مردوں کے لےے یہ جائز نہیں کہ وہ عورتوں کو دیکھیں۔
حدیث پاک میں اﷲ کے نبی ﷺ ارشاد فرماتے ہیں۔ ”العینان زنا ھماالنظر” (مسلم، حدیث نمبر ٢٦٥٧، ابوداؤد، حدیث نمبر٢١٥٢)
یعنی نا محرم عورتوں کو دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے۔ اگر کبھی اچانک بے اختیار نظر اٹھ بھی جائے تو فوراً اپنی نظر ہٹا لے۔ یہ نہیں کہ دیکھتے ہی چلا جائے۔ بلکہ فوراً اپنی نظر اس سے پھیر لے۔ (رواہ مسلم: ٢١٥٩، ترمذی: ٢٧٧٧)
اس سے معلوم ہوا کہ آج کل جو لوگ اسی مقصد سے گلیوں اور نکڑوں پر بیٹھتے ہیں وہ نہایت گھٹیا اور انتہائی بری حرکت ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ میں منافقین ایسی حرکتیں کیا کرتے تھے کہ عورتوں کو چھیڑا کرتے تھے۔ قرآن پاک میں اﷲ جل شانہ نے ان کی ان حرکتوں پر سخت تنبیہ فرماتے ہوئے یہاں تک کہا ہے کہ ملعونین ایسے لوگ ملعون ہیں اور اﷲ کی رحمت سے دور ہیں۔
(سورہ احزاب)
دوسرا حق۔۔۔۔۔۔
آنے جانے والوں کو ایذاء نہ دو!
دوسرا حق اور اہم تعلیم اس حدیث میں یہ بیان کی گئی ہے کہ راستے میں بیٹھنا مجبوری ہو تو اس طرح بیٹھو کہ کسی آنے جانے والے کو اور راہ گزر کو تکلیف نہ ہو۔
میرے دوستو! اﷲ کے نبی ﷺ نے ہمیں اخلاق بنانے کی خصوصی تعلیم دی ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اﷲ اپنے مریدین اور متعلقین سے اکثر یہ بات ارشاد فرماتے تھے کہ ایسے بنو کہ نہ تم سے ہمیں تکلیف ہو اور نہ ہم سے تمہیں تکلیف ہوگی۔ وہ اکثر یہ فرمایا کرتے تھے کہ انسان بنو! انسان بننا بہت مشکل کام ہے۔ حضرت فرماتے تھے کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ تم بہت عبادت گزار بن جاؤ، کیونکہ اس کا اﷲ کے ہاں سوال نہ ہوگا میں تم سے یہ چاہتا ہوں کہ اپنے معاملات صاف رکھا کرو! کبھی کسی کو تکلیف نہ دو۔ اپنی بہنوں کی میراث ہڑپ نہ کرو۔ قانون جو حکومت بناتی ہے تو جو جو قانون اسلام کے خلاف نہ ہو اس کی پیروی کرو۔ ریلوے کے قوانین سے متعلق حضرت کے اور حضرت کے مریدین کے بہت سے واقعات ہیں کہ قانون کے مطابق جتنا وزن ہوتا تھا اس کے حساب سے پورا پورا پیسہ دیتے تھے۔ وجہ اس کی یہی تھی کہ معاملات کی صفائی نہ ہو اور قوانین کی رعایت نہ کی جائے تو یہ تو بہت سخت گناہ ہے۔ اﷲ کے ہاں حقوق العباد پر پکڑ ہوگی۔ نوافل زیادہ نہ پڑھنے کا سوال نہ ہوگا، لیکن کسی کا دل دکھایا ہوگا، کسی کے ساتھ دھوکہ فراڈ کیا ہوگا، کوئی جائز قانون توڑا ہوگا تو اس کی پوچھ ہوگی۔ اﷲ کے نبی ﷺ کا ارشاد ہے: ”المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ” یعنی مسلمان کہلانے کے لائق تو وہ ہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔”
(مسلم، حدیث: ٤٠)
تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ راستے میں بیٹھنے کی اجازت اس وقت ہے جب آنے جانے والوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ یہ نہیں کہ گالیاں دی جارہی ہیں اور راستے میں اس طرح بیٹھے ہیں کہ راستہ ہی بند ہوگیا یا کوئی ایسا کھیل شروع کردیا جس سے گزرنے والوں کو تشویش اور اذیت ہورہی ہے۔ یہ سب باتیں شریعت میں منع ہیں۔ ان سے بچنا چاہےے!
تیسرا حق۔۔۔۔۔۔ سلام کا جواب دینا:
تیسرا اخلاق اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ کوئی راہ گزر سلام کرے تو اس کو سلام کا جواب دو! یہ اس لیے کہ سلام کا ادب یہ ہے کہ سوار شخص، پیدل کو سلام کرے اور چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔ (مسلم: ٢١٦٠، ابوداؤد: ٥١٩٨)
تو جب کوئی راہ گزر اس طریقے پر عمل کرتے ہوئے سلام کرے تو راستے میں بیٹھے ہوئے شخص پر واجب ہوگیا یعنی یہ لازم اور ضروری ہوگیا کہ اس کے سلام کا جواب دے۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پریہ حق ہے کہ جب وہ سلام کرے تو یہ اس کے سلام کا جواب دے، اگر جواب نہیں دے گا تو گناہ کار ہوگا۔
چوتھا حق۔۔۔۔۔۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر:
چوتھا اور آخری ادب اس روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ راستے میںبیٹھنا ہی ہو تو بالکل بھی فضول مت بیٹھے رہو، بلکہ نیکی کی دعوت اور دین کا بول بولنے کا کام یہاں بھی جاری رکھو اور کسی کو کوئی برا کام کرتے ہوئے دیکھو تو اس کو اس سے منع کرو!
یہ ادب اس شخص کے لیے ہے جس کو یہ اندازہ ہو کہ لوگ اس کی دعوت کا اثر لیں گے اور اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ مثلاً: جس پر آپ کا بس چلتا ہے، جو آپ کے ماتحت شمار ہوتے ہیں ان کو دعوت دیں گے اور برائی سے منع کریں گے تو اس سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں ۔ ایسے لوگوں کو برائی سے نہ روکا تو قیامت میں ہماری پکڑ ہوگی لیکن اﷲ معاف فرمائے کسی اور کو آج برائی سے روکنا اپنی موت کو اور اپنی بے عزتی کو دعوت دینا ہے۔ تو ایسے حالات میں اور ایسے موقع پر جہاں برائی سے روکنے کی صورت میں اپنی جان اور عزت کا خطرہ ہو تو برائی سے نہ روکنا جائز ہے، اس کو اس مجبوری کی وجہ سے کوئی گناہ نہ ہوگا، لیکن جہاں ایسا خطرہ نہ ہو تو وہاں منع کرنا ضروری ہے۔ مثلاً: آج کل شادی بیاہ میں کیسے کیسے گناہ اور کیسے کیسے تکلیف دہ امور شامل کر لےے گئے ہیں۔ اتنے زور سے گانے بجائے جاتے ہیں اور ایسی ایسی رسومات ہوتی ہیں کہ آنے جانے والوں کو اور اہل محلہ کو تکلیف سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ایسی شادیوں میں پھر برکت کہاں سے آئے گی؟ اﷲ کے حکموں کو توڑ کر جو شادی کی جائے اس شادی میں برکت نہیں ہوسکتی۔ اس میں پھر گھریلو جھگڑے ایسے پیدا ہوتے ہیں کہ کھڑے کھڑے طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔ اچانک اموات ہوجاتی ہیں اور حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اﷲ جل شانہ ہمیں اپنی نافرمانی اور گناہوں کے کاموں سے محفوظ رکھے۔ ہمیں اخلاق اور آداب سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب سے راضی ہوکر ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ (آمین)