محمد انس عبدالرحیم
خواب کیا ہے؟
انسانی اعضا تھک ہار کر سوجاتے ہیں ،صرف ایک عضو ایسا ہے جو سونہیں سکتا اور وہ ہے انسانی دماغ۔انسانی دماغ کوکبھی چھٹی نہیں ملتی ۔اسے نیند کی حالت میں بھی فعال رہنا پڑتا ہے۔انسان جب سوتا ہے تو اللہ تعالی کے بنائے ہوئے ایک نظام کے تحت اس کے دل پر خیالات کاورود جاری رہتا ہے۔یہ خیالات کبھی فرشتے کی طرف سے ڈالے جاتے ہیں اورکبھی شیطان کی طرف سے۔یہ باتیں کبھی حقیقت کی صورت میں القاء کی جاتی ہیں اور کبھی اشارات اور علامتوں کی صورت میں ۔بعض اوقات مخلوط اور مشتبہ سی کیفیت ڈالی جاتی ہے۔
مشكاة المصابيح (2/ 1298)
قال محمد بن سيرين: وأنا أقول: الرؤيا ثلاث: حديث النفس وتخويف الشيطان وبشرى من الله
اس کیفیت کو ہم بیداری سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ بیداری کی حالت میں انسان کے دل دماغ میں افکاروخیالات کاایک ہجوم رہتا ہے۔جیسی طبیعت اور فطرت ہوتی ہے ویسے افکار آتے جاتے رہتے ہیں۔فرشتے کی طرف سے بھی کوئی بات ڈالی جاتی ہے اور شیطانی خطرات بھی آتے ہیں اور کبھی مرکب صورت حال ہوتی ہے۔ (الکوکب الدری، کتاب الرؤیا)
قرآن کریم کے خواب اور ان کی تعبیر :۔
نبی کریم ﷺ کو علوم براہ ِ راست اللہ تعالی نے سکھائے۔تعبیر ِخواب کا علم بھی آپ ﷺ کو اللہ جل شانہ ہی نےسکھایا۔ قرآن کریم میں سات خواب اور ان کی تعبیریں موجود ہیں۔یقینا ً ان سے آپ ﷺ نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ یہ خواب و تعبیران کے وقوع کی ترتیب سے پیش خدمت ہیں:
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا خواب:
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کررہے ہیں۔
تعبیر: نبیوں کا خواب وحی اورحکم خداوندی ہوتا ہے۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے حکم کی تعمیل کی۔صاحبزادے کو خواب بتایا۔ صاحبزادےاپنے عظیم والد کے نقش قدم پر ’’مسلم‘‘ یعنی حکم الہی کے مکمل تابع دار تھے۔حکم الہی کو پورا کرنے کے لیے فورا تیار ہوگئے، چہرے کے بل لیٹ گئے ۔ابراہیم علیہ السلام لخت جگر کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہیں۔چھری تیز کررہے ہیں کہ اتنے میں فرشتہ ، پیغام الہی لے کر جلوہ گر ہوا : بس کیجیے!خواب کی تعبیر پوری ہوئی۔اللہ تعالی کو آپ کا امتحان لینا منظور تھا جس میں آپ کامیاب ہوگئے۔
{فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ} [الصافات: 102]
یہ خواب کی وہ قسم ہے جو حقیقت ہوتا ہے یعنی جیسا خواب دیکھا ہے حقیقت میں و ہی کام انجام دیناہوتا ہے۔انبیائے کرام کے لیے ایسا خواب وحی ہوتا ہے۔اس کی تعمیل ان پر ضروری ہوتی ہے۔ عام امت کے لیے یہ حکم نہیں۔عام امتیوں کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ خواب میں کہی گئی بات کو شریعت کے میزان پر تولیں۔جو خواب شریعت کے میزان پر پورا اترے اس پر عمل کرنا درست ہے ، واجب نہیں اور جو خواب شریعت کے خلاف ہو اس پر عمل کرنا درست نہیں۔
یوسف علیہ السلام کا خواب:
دیکھا کہ گیارہ ستارے اور چاند سورج ہیں جو ان کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔
{إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ} [يوسف: 4]
تعبیر: چاند سورج سے مراد والدین اور ستاروں سے مراد بھائی ہیں ۔ یہ خواب حقیقت تھا جو چالیس سال بعد پورا ہوا ۔مصر کے شاہی دربار میں حضرت یوسف علیہ السلام کے جاہ وجلال کو دیکھ کر گیارہ بھائیوں اور ان کے والدین نے یوسف علیہ السلام کو سجدہ کیاتھا۔(یہ سجدہ تعظیم وتکریم کا تھا جو ان کی شریعت میں جائز تھا۔شریعت محمدیہ ﷺ میں اس طرح کے سجدے کی ممانعت ہے۔)
{وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ يَا أَبَتِ هَذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا} [يوسف: 100]
قیدیوں کے خواب:
خواب: یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت یوسف علیہ السلام کو خواتین ِ مصر کے فتنے سے بچنے کے لیے پابندِ سلاسل ہونا پڑا۔ آپ کے ساتھ دو ایسے قیدی بھی لائے گئے جن پر بادشاہ کے کھانے میں زہر ملانے کا الزام تھا۔ ایک بادشاہ کا ساقی تھا اور دوسرا باورچی۔ ساقی نے خواب دیکھا کہ وہ انگور کا رس نچوڑ کر بادشاہ کو پلارہا ہےجبکہ باورچی نے دیکھا کہ وہ سرپر روٹیاں اٹھائے جارہا ہے جس سے پرندے نوچ نوچ کر کھارہے ہیں۔
{وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيَانِ قَالَ أَحَدُهُمَا إِنِّي أَرَانِي أَعْصِرُ خَمْرًا وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّي أَرَانِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ} [يوسف: 36]
خواب اور اس کا پس منظر آپ نے ملا حظہ کیا۔اب تعبیر ملاحظہ کیجیے:
تعبیر: سیدنایوسف علیہ السلام نے ساقی کے خواب کی تعبیر یہ دی کہ تم الزام سے بری ہوکر دوبارہ اپنے سابقہ عہدے پر بحال ہوجاؤگے۔جبکہ باورچی سے فرمایا کہ تم پر الزام ثابت ہوجائے گا جس کی سزا میں تمہیں صلیب پر چڑھادیا جائے گااور پرندے تمہارے سر کو نوچ نوچ کر کھائیں گے۔
{يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْ رَأْسِهِ قُضِيَ الْأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ (41) } [يوسف: 41، 42]
شاہ مصر کا خواب:
شاہ مصر نے خواب میں دو منظر دیکھے:ایک یہ کہ سات موٹی گائیں ہیں جنہیں سات دبلی گائیں کھارہی ہیں۔دوسرا یہ کہ ایک طرف سات سبز خوشے ہیں اوردوسری طرف سات خشک خوشے۔خشک خوشے سبز خوشوں پر لپٹ کر کھاجاتے ہیں۔
{وَقَالَ الْمَلِكُ إِنِّي أَرَى سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعَ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ} [يوسف: 43]
تعبیر: حضرت یوسف علیہ السلام نے تعبیر دی کہ سات گائے، سات خوشوں کا مطلب ہےسات سال۔ گائے کا فربا اور موٹا ہونا اچھی علامت ہے جبکہ دبلا ہونا برا۔اسی طرح خوشے کا سبز ہونا اچھا ہے جبکہ خشک ہونا برا۔بادشاہ کا خواب ہے اس لیے اشارہ اس کی رعایا اور اس کے ملک کی صورت حال کی طرف ہے۔تمام کڑیوں کو جوڑیں تو یہ تصویر سامنے آتی ہے کہ مصر میں اگلے سات سال بہت اچھے ہوں گے۔وافر مقدار میں غلہ اناج اگے گا،لیکن ان سات سالوں کے بعد اگلے سات سال بہت سخت ہوں گے،ملک میں قحط سالی ہوگی۔یہ ایسی قحط سالی ہوگی جو گزشتہ سات سالوں کا سارا اناج کھا جائے گا۔قحط سالی سات سال تک ہی رہے گی ، اس کے بعد حالات ٹھیک ہوجائیں گے۔
{قَالَ تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِينَ دَأَبًا فَمَا حَصَدْتُمْ فَذَرُوهُ فِي سُنْبُلِهِ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تَأْكُلُونَ، ثُمَّ يَأْتِي مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ يَأْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ ، ثُمَّ يَأْتِي مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ عَامٌ فِيهِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ} [يوسف: 47 – 49]
یہ تینوں خواب خواب کی اس قسم سے تعلق رکھتے ہیں جس میں رمز یہ یعنی اشارات کی زبان استعمال کی گئی ہے۔
جنگ ِ بدر کا خواب:
ہجرت کے دوسرے سال غزوۂ بدر کے موقع پر نبی کریم ﷺ کو خواب میں دکھایا گیا کہ دشمن کی تعداد بہت کم ہے۔
{إِذْ يُرِيكَهُمُ اللَّهُ فِي مَنَامِكَ قَلِيلًا وَلَوْ أَرَاكَهُمْ كَثِيرًا لَفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَلَكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ } [الأنفال: 43]
تعبیر: یہ خواب بھی اشاراتی زبان میں ہے ۔حقیقت میں دشمن کی تعداد زیادہ تھی لیکن خواب میں تعداد کم دکھانا اس کا اشارہ تھا کہ دشمن کی تعداد گو بہت زیادہ ہے لیکن وہ بہت معمولی اور کمزور ثابت ہوں گے۔ آپ ﷺ نے خواب صحابہ کرام کو بتایا ،اس سے ان کے حوصلے بلند ہوئے۔
عمرہ ادائی کا خواب:
ہجرت کے پانچویں سال نبی کریم ﷺ نے خواب دیکھا کہ آپ ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ کرنے تشریف لے گئے ہیں۔اطمینان سے مسجد حرام میں داخل ہوئے ہیں۔عمرہ کرکے بعض نے سرمنڈوایا ہے جبکہ بعض نے بال کتروائے ہیں۔
تعبیر: یہ خواب حقیقت بن کر رونما ہوا۔لیکن جس سال خواب دیکھا اسی سال پورا نہیں ہوا بلکہ اس کے بعد والے سال پورا ہوا۔
{لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ} [الفتح: 27]
خواب اور اسوہ ٔ مبارکہ :۔
آدمی جتنا سچا ہوتا ہے اس کا خواب بھی اتنا ہی سچا اور حقیقت ہوتا ہے۔ آپ ﷺ سے بڑھ کر کون صادق اورسچا ہوسکتا ہے؟اس لیے آپ ﷺ کے خواب سچے اور حقیقت ہوا کرتے تھے۔نبوت کی ابتدابھی سچے خوابوں کے ذریعے ہوئی ہے۔نبوت سے پہلے آپ ﷺ جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح ِ روشن کی طرح حقیقت بن کر ظاہر ہوتا۔چھ ماہ اسی حالت میں گزرے۔چھ ماہ بعد پہلی وحی نازل ہوئی اورنبوت عطا کی گئی۔نبوت ملنے کے بعد آپ ﷺ دنیا میں ۲۳ سال حیات رہے ۔سچے خوابوں کے یہ چھ ماہ ۲۳ سال کا چھیالیسواں حصہ ہیں، اس لیے حدیث میں ’’سچے خواب‘‘ کو نبوت کا ’’چھالیسواں‘‘ حصہ کہا گیا ہے۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 2913): «الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ»
سیرت طیبہ کے بہت سے گوشے ایسے ہیں جس کا تعلق خواب سے جڑتا ہے۔دوسری طرف آپ ﷺ معبر اعظم بھی تھے۔ آئیے اس کی چند مثالیں ملاحظہ کرتے ہیں:
- مذہبی رسومات کی ادائی کے لیےہر مذہب کا خاص طریقۂ کار رہا ہے۔کوئی بگل بجاتا ہے توکوئی گھنٹیاں بجاتا ہے۔نماز باجماعت کے لیے مسلمانوں کا کیا طریقہ ٔ کار ہو؟ اس حوالے سے عہدنبویﷺ میں مشاورت ہوئی۔مختلف رائے سامنے آئیں۔اسی رات ایک صحابی حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ کو خواب میں اذان سکھائی گئی۔صبح انہوں نے اپنا خواب رسالت مآب ﷺ میں بیان کیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ سچا خواب ہے۔مسلمان اپنی نمازوں کے لیے اسی طرح اذان دیا کریں گے۔ اس طرح اذان کی ابتدا خواب کے ذریعے ہوئی۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 553)
وَعَن عبد الله بن زيد بن عبد ربه قَالَ: لَمَّا أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاقُوسِ يُعْمَلُ لِيُضْرَبَ بِهِ لِلنَّاسِ لِجَمْعِ الصَّلَاةِ طَافَ بِي وَأَنَا نَائِمٌ رَجُلٌ يَحْمِلُ نَاقُوسًا فِي يَدِهِ فَقُلْتُ يَا عَبْدَ اللَّهِ أَتَبِيعُ النَّاقُوسَ قَالَ وَمَا تَصْنَعُ بِهِ فَقلت نَدْعُو بِهِ إِلَى الصَّلَاةِ قَالَ أَفَلَا أَدُلُّكَ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكَ فَقُلْتُ لَهُ بَلَى قَالَ فَقَالَ تَقُولَ اللَّهُ أَكْبَرُ إِلَى آخِرِهِ وَكَذَا الْإِقَامَةُ -[206]- فَلَمَّا أَصْبَحْتُ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا رَأَيْتُ فَقَالَ: «إِنَّهَا لَرُؤْيَا حَقٍّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ
- آپ ﷺ نےمرحوم کو سفید لباس میں دیکھنے کی تعبیر اس کے جنتی ہونے سے دی۔ورقہ بن نوفل کے انتقال کے بعدآپ ﷺ نے ان کو سفید کپڑوں میں ملبوس دیکھا تو یہی تعبیر ارشاد فرمائی۔
مشكاة المصابيح (2/ 1302)
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أريته في المنام وعليه ثياب بيض ولو كان من أهل النار لكان عليه لباس غير ذلك»
- آپ ﷺ نے مرحوم کے لیے جاری نہر کی دیکھنے کی تعبیر اس کے نیک اعمال سے دی۔
مشكاة المصابيح (2/ 1299)
عن أم العلاء الأنصارية قالت: رأيت لعثمان بن مظعون في النوم عينا تجري فقصصتها على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «ذلك عمله يجرى له»
- آپ ﷺ نے ناموں کی مناسبت سے بھی خوابوں کی تعبیر دی ہے۔ایک بار آپ ﷺ نے خواب دیکھا کہ آپ عقبہ بن رافع کے گھر میں ہیں۔وہاں آپ ﷺ کے سامنے ابن طاب کی کھجوریں پیش کی گئیں۔اس خواب کی تعبیر آپ ﷺ نے ناموں کے معنی سے دی۔عقبہ کا مطلب’’آخری انجام‘‘۔ابن کا مطلب ’’بیٹا‘‘رافع کا مطلب ’’بلند‘‘ اور طاب میں ’’طاب ‘‘ کا مطلب ’’ بہتر۔‘‘آپ ﷺ نے تعبیر یہ دی کہ مذہب اسلام دنیا میں (رافع) بلند رہے گا ۔ آخرت جو(عقبہ) دنیا کے بعد آتی ہے وہ بھی اچھی ہوگی۔اور اس دین کے ثمرات ونتائج (طاب) اچھے رہیں گے۔
مشكاة المصابيح (2/ 1298)
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «رأيت ذات ليلة فيما يرى النائم كأنا في دار عقبة بن رافع فأوتينا برطب من رطب ابن طاب فأولت أن الرفعة لنا في الدنيا والعاقبة في الآخرة وأن ديننا قد طاب» . رواه مسلم
- ڈراؤنے خواب کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ نیک آدمی ایسا خواب دیکھے تو یہ شیطان ہوتا ہےجو اس سےکھلواڑ کررہا ہوتا ہے۔
مشكاة المصابيح (2/ 1298)
جاء رجل الی النبي صلى الله عليه وسلم فقال: رأيت في المنام كأن رأسي قطع قال: فضحك النبي صلى الله عليه وسلم وقال: «إذا لعب الشيطان بأحدكم في منامه فلا يحدث به الناس» . رواه مسلم
- آپ ﷺ نے دودھ پینے کی تعبیر علم اور فطرت سے دی۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (9/ 3896)
«بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِيتُ بِقَدَحِ لَبَنٍ فَشَرِبْتُ حَتَّى إِنِّي لَأَرَى الرِّيَّ يَخْرُجُ فِي أَظْفَارِي ثُمَّ أَعْطَيْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ» قَالُوا: فَمَا أَوَّلْتَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «الْعِلْمَ»
- بیڑی کی تعبیر دین میں استقامت سے دی۔طوق کی تعبیر جہنم سے دی۔
مشكاة المصابيح (2/ 1298): وكان يكره الغل في النوم ويعجبهم القيد ويقال: القيد ثبات في الدين
- لباس کی تعبیر دین سےدی کہ جتنا لمبا لباس خواب میں پہنا ہوگا اس شخص کے اندرا تنی زیادہ دین داری زیادہ ہوگی۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (9/ 3896)
بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُ النَّاسَ يُعْرَضُونَ عَلَيَّ وَعَلَيْهِمْ قُمُصٌ مِنْهَا مَا يَبْلُغُ الثُّدِيَّ وَمِنْهَا مَا دُونَ ذَلِكَ وَعُرِضَ عَلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَلَيْهِ قَمِيصٌ يَجُرُّهُ» قَالُوا: فَمَا أَوَّلْتَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «الدِّينَ»
- مضبوط کڑے کی تعبیر دین اسلام پر قیام سے دی۔عبداللہ بن سلام کے مناقب میں یہ بات کتب حدیث میں دیکھی جاسکتی ہے۔(دیکھیے: مشکوۃ ، باب جامع المناقب،حدیث نمبر۶۲۱۰)
- نبی کے ہاتھوں میں سونے کے کنگنوں کی تعبیر نبوت کے جھوٹے دعوی داروں سے دی۔ویسے بھی سونا مردوں کے لیے حرام ہے،اس لیےمردوں کا خواب میں سونا پہننا اچھا نہیں۔ عورتوں کے لیے سونا حلال ہے اس لیے ان کے لیے ایسا خواب اچھا ہے۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 2923)
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ بِخَزَائِنِ الْأَرْضِ فَوُضِعَ فِي كَفَّيَّ سِوَارَانِ مِنْ ذَهَبٍ فَكَبُرَا عَلَيَّ فَأُوحِيَ إِلَيَّ أَنِ انْفُخْهُمَا فَنَفَخْتُهُمَا فَذَهَبَا فَأَوَّلْتُهُمَا الْكَذَّابَيْنِ اللَّذَيْنِ أَنَا بَيْنَهُمَا صَاحِبَ صَنْعَاءَ وَصَاحِبَ الْيَمَامَةِ»
- کشتی کی تعبیر نجات سے دی۔اونٹ کی تعبیر غم سے ،سبزے کی تعبیر جنت سے اور عورت کی تعبیر خیر سے۔
سنن الدارمي ت الغمري (ص: 515)
حَدَّثَنِي بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلى الله عَليهِ وسَلم (5) قَالَ: اللَّبَنُ: الْفِطْرَةُ, وَالسَّفِينَةُ: نَجَاةٌ, وَالْجَمَلُ: حُزْنٌ, وَالْخُضْرَةُ: الْجَنَّةُ, وَالْمَرْأَةُ: خَيْرٌ.
- تلوار ٹوٹنے کی تعبیر شکست سے دی جبکہ تلوار جڑنے اوراسے بہتر صورت میں دیکھنے کی تعبیر فتح ونصرت سے۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 2922)
وَرَأَيْتُ فِي رُؤْيَايَ هَذِهِ: أَنِّي هَزَزْتُ سَيْفًا فَانْقَطَعَ صَدْرُهُ فَإِذَا هُوَ مَا أُصِيبَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ أُحُدٍ ثُمَّ هَزَزْتُهُ أُخْرَى فعادَ أحسنَ مَا كانَ فإِذا هوَ جَاءَ اللَّهُ بِهِ مِنَ الْفَتْحِ وَاجْتِمَاعِ الْمُؤْمِنِينَ “
- سورج آسمان میں جانے کی تعبیر اپنی وفات سے دی۔
سنن الدارمي ت الغمري (ص: 516)
عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ: رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ شَمْسًا – أَوْ قَمَرًا، شَكَّ أَبُو جَعْفَرٍ -فِي الأَرْضِ تُرْفَعُ إِلَى السَّمَاءِ, بِأَشْطَانٍ شِدَادٍ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلى الله عَليهِ وسَلم فَقَالَ: ذَاكَ ابْنُ أَخِيكَ – نَعَى رَسُولُ الله نَفْسَهُ
نتائج اور فوائد:۔
قرآن کریم اور سیرت ِ طیبہ کے ان حوالوں سے ہمیں خواب اور تعبیر خواب کے یہ اصول ملتے ہیں:
1۔ تعبیرِخواب کا علم انعامات خداوندی میں سے ہے، جیسا کہ سورہ يوسف:آیت نمبر 6 میں فرمایا گیا ہے۔
2۔تعبیرایک طرح کا فتوی ہے۔سورہ یوسف میں تعبیر خواب کےلیے تستفتیان اور افتنا کےالفاظ فرمائے گئے ہیں۔یعنی خواب اور تعبیر خواب پر’’استفتاء‘‘ اور ’’فتوی‘‘ کا اطلاق کیا گیا ہے۔اس لیےمعبر کو احتیاط کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اصولوں کے مطابق تعبیر دینی چاہیے۔
3۔انبیائے کرام، بادشاہ اور عوام سب کے خواب کی تعبیر ہوتی ہے۔کیونکہ قرآن کریم اور احادیث میں انبیاء، بادشاہ ،مردعورت،عوام خواص سب کے خوابوں کا تذکرہ موجود ہے۔
4۔قرآن میں خواب کی تعبیر حقیقت سے بھی دی گئی ہے اور اشارات سے بھی۔
5۔جو تعبیردی جاتی ہے وہ واقع ہوجاتی ہے،جبکہ وہ اصولوں پر اترتا ہو۔
مشكاة المصابيح (2/ 1301): وهي على رجل طائر ما لم يحدث بها فإذا حدث بها وقعت
6۔کافر کے خواب کی تعبیر سچی ہوسکتی ہے۔بادشاہ مصر جس کے خواب کی تعبیر حضرت یوسف علیہ السلام نے دی ،وہ کافر تھا۔
7۔ خوابوں کی تین قسمیں ہوتی ہیں: کچھ خواب آپ کے ماضی یا مستقبل کے احوال کے عکاس ہوتے ہیں۔ بشارت، اطلاع یا تنبیہ لیے ہوتے ہیں۔ یہ خواب حقیقت ہوتے ہیں، فن تعبیر ایسے ہی خوابوں کے لیے ہے۔فرشتوں کی طرف سے ایسے خواب دل میں القاء کیے جاتے ہیں۔
کچھ خواب ذہنی پریشانی، پراگندہ خیالی یا پیٹ کی خرابی کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔ ذہنی پریشانی کے موقع پر جب دن بھر انسان ٹینشن میں ہو تو نیند میں بھی برے خواب نظر آتے ہیں یا انسان دن بھر جو خواب و ارمان دل میں بسائے رکھتا ہے سوتے ہوئے وہی ارمان اسے سپنے کی صورت میں خوش کرتے ہیں یا انسان کا معدہ خوب بھرا ہو تو ایسے موقع پر بھی فضول خواب آتے ہیں۔ ایسے خوابوں کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی۔ ماہر تعبیردان بس یوں کہہ دیتا ہے کہ خیالات ہیں۔انہی کو اضغاث احلام کہا جاتا ہے۔بیمار آدمی کے خواب کو بھی بعض علما نے اضغاث احلام میں شمار کیا ہے۔
ڈراؤنا خواب نظر آئے ، ناممکن چیز خواب میں نظر آئے یا غسل واجب ہوجائے تو یہ شیطانی خواب ہوتا ہے۔
8۔ اگر ایک آدمی سمجھتا ہے کہ اس نے برا خواب دیکھا ہے۔ اس کی تعبیر اچھی نہیں ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کی تعبیر نہ لے ۔ اسے کسی کے سامنے بیان نہ کرے بلکہ جیسے ہی آنکھ کھلے بائیں طرف تین مرتبہ اعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم پڑھ کر تھو تھو تھو کردے اور کروٹ بدل کر سو جائے ۔ ایسا کرنے سے صاحب خواب اس خواب کے شر سے محفوظ رہے گا۔
مشكاة المصابيح (2/ 1297)
فإذا رأى أحدكم ما يحب فلا يحدث به إلا من يحب وإذا رأى ما يكره فليتعوذ بالله من شرها ومن شر الشيطان وليتفل ثلاثا ولا يحدث بها أحدا فإنها لن تضره
9۔خواب دشمن سے بیان نہ کریں، ہمیشہ اپنے خیرخواہ سے بیان کریں۔اسی طرح خواب عوام کے سامنےبیان نہ کریں، جو اس کا ماہر ہو اسی سے بیان کریں۔
مشكاة المصابيح (2/ 1301): لا تحدث إلا حبيبا أو لبيبا
10۔عمومالوگ خوابوں پر یقین رکھنے والے ہوتے ہیں اس لیے بہت سے لوگ اس سے ذاتی فوائد بھی سمیٹتے ہیں۔ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے جھوٹے خوابوں کا سہارا لیتے ہیں۔کبھی گدی نشینی کے لیے کبھی مال ومیراث کے لیے اور کبھی سیاسی فائدے کے لیے۔لوگوں کو چاہیے کہ اپنے فیصلوں کا مدار شریعت اور علم وعقل کو سمجھیں ،جھوٹے خوابوں سے دھوکہ نہ کھائیں۔