“بارہواں سبق”
رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم” بحیثیت معلم
“بچے” قوم کا مستقبل ہوتے ہیں-جو آج بچے ہیں کل یہی ہمارا سہارا بنیں گے(ان شاءاللہ)اور ملک کی باگ ڈور انہی کے ہاتھ میں ہوگی-
جن کو آج ہم لقمے بنا کر کھلا رہے ہیں٫کل وہ ہمیں لقمے بنا کر کھلائیں گے-
جنکو آج ہم تختی لکھنا سکھا رہے ہیں٫ ممکن ہے کہ کل یہ ہمارے بچوں کو لکھنا سکھا رہے ہوں-
جن کو آج ہم کمزور سمجھ رہے ہیں٫ ممکن ہے کل یہ اپنے وقت کے وزیر٫مشیر اور ناظم الامور ہوں-
اگر ہم چاہتے ہیں کہ مستقبل کے ان معماروں میں وہ اعلیٰ صلاحیتیں پیدا ہوں جن سے ملک و ملت کو نشاہ ثانیہ ملے تو ہمیں ان کی تعلیم و تربیت پہ خاص توجہ دینی ہوگی-ہمارا ایمان ہے کہ”سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” ہر مشکل کا آسان حل پیش کر سکتی ہےاور تا قیامت کرتی رہےگی- یاد رہے”سیرت النبی” سے مراد”قرآن وسنت دونوں ہیں-
ہم”قرآن کریم فرقان حمید” کو سیرت سے الگ نہیں کر سکتے٫بلکہ”سنت” خود”قرآن مجید” کی تفسیر و تشریح ہے-اسی لئے”قرآن کریم” میں جو بات آئ ہو وہ بھی در حقیقت “سیرت” ہی کا حصہ ہے-بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے “سیرتِ طیبہ” میں بے شمار راز پنہان ہیں- کچھ کا تعلق طالب علم سے ہے اور کچھ کا استاذ اور مربی سے ہے-ملاحظہ فرمائیں”
“طالبِ علم کےلئے ہدایات”
( توجہ سے سنئے)
جب استاذ سبق پڑھاتا ہے تو یہ بہت قیمتی وقت ہوتا ہے- سیکھنے کا اصل وقت یہی ہے- اس لئے اس وقت کی قدر کریں-سبق کے دوران آپکی توجہ کسی اور طرف بالکل نہیں ہونی چاہئے-“میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” وعظ و ارشاد٫اور تعلیم و تعلّم کے مواقع پر حاضرین کو خاموش رہنے کی ترغیب دیتے تھے-
“صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کے ارشادات کو نہایت توجہ اور غور سے سنتے تھے٫کیونکہ اس سے صحیح سیکھا جاتا ہے اور اسی سے” علم “دلوں میں اترتا ہے- ارشاد باری تعالٰی ہے
“واذا قرء القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون”-(سورہ الانفال٫204 )
ترجمہ:اور جب “قرآن مجید”تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو٫ شاید کہ/تاکہ تم پر بھی رحمت کی جائے-
“حضرت جریر رضی اللّٰہ عنہ” سے روایت ہے کہ”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے ان سے “حجتہ الوداع”کے موقع پر فرمایا” لوگوں کو بالکل خاموش کرادو( تاکہ وہ خوب سن لیں)پھر فرمایا”لوگوں! میرے بعد پھر کافر مت بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو-(صحیح بخاری)
کوئ بات ذہن نشین کرنی ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس بات کو مختلف پیرایوں میں موقع کی مناسبت سے دہرایا جاتا ہے-دہرائی اور اعادہ کے عمل سے ذہن اس کو قبول کرنے لگتا ہے- “نبیء اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” پر جب”قرآن کریم” نازل ہوتا تو”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” اسے دہراتے تاکہ یاد ہو جائے- “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی”احادیث” کو دیکھا جائے تو یہ امر واضح ہوتا ہے کہ”نبیء کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے ایک ہی بات کو مختلف اسالیب میں بار بار بیان کیا ہے٫تاکہ”صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین”کے دلوں میں بات اتر جائے-
“ادب کا خیال رکھیں”
بقول شاعر”
“ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں”
تعلیم حاصل کرنے کے جو آداب ہیں٫وہ سب آداب جب ہم بجا لائیں گے تبھی ہم اچھا علم حاصل کر پائیں گے-(مشکوہ)
“شرم اور تکبر سے بچیں”
علم کے حصول میں دو چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں-
1-” شرم و حیا”- 2-احساس برتری اور تکبر”
“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے” علم کے حصول” میں “حیاء” سے منع فرمایا ہے-
اور ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو”علم”کے مقابلے میں”شرم و حیا” کو آڑے نہیں آنے دیتے-
“متکبر”اپنے”تکبر” کی حماقت میں مبتلا ہے٫ جو کسی سے تحصیل علم کو کسر شان سمجھتا ہے- اور “شرم کرنے والا اپنی کم عقلی سے ایسی جگہ “حیادار بن رہا ہے جہاں “شرم و حیا” کا کوئ مقام نہیں ہے-
“امام مجاہد کہتے ہیں کہ “متکبر اور”شرمانے والا” آدمی”علم” حاصل نہیں کر سکتا-“امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا”کا ارشاد ہے کہ”انصار کی عورتیں” اچھی عورتیں ہیں کہ”شرم” انہیں دین میں سمجھ پیدا کرنے سے نہیں روکتی-(صحیح بخاری)
( جاری ہے٫ 12واں سبق)
حوالہ:” سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کورس-
مرسلہ:خولہ بنت سلیمان-
“الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف آمین”