﴿ رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر: ۴۹﴾
سوال:- رسم اور بدعت میں کیا فرق ہے ؟رسم کرنا کتنا بڑا گناہ ہے؟
جواب :- رسم کےلغوی معنی طریقے کے ہیں۔ طریقے کا اطلاق اچھے ،برے دونوں پر ہوتا ہے۔ اصطلاح میں رسم کہتے ہیں کسی غیر لازم کام کو اس طور پر لازم کرلینا کہ اس کے اچھے ،برے پہلو کو نظر انداز کرکے ہر حال میں اختیار کرنا ضروری سمجھاجائے۔
بدعت کے لغوی معنی نئی چیز کے ہیں ، چاہے وہ عبادات میں ہو یا معاملات میں۔ اصطلاح میں بدعت ان چیزوں کو کہتے ہیں جن کی اصل شریعت سے ثابت نہ ہو،لیکن پھر بھی اس کو دین سمجھ کر کیا جائے اور شریعت سے ثابت نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اس کا ثبوت نہ ملے ،رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ،تابعین اور تبع تابعین کے زمانوں میں اس کا وجود نہ ہو ، نہ اس کی نظیر ان تینوں زمانے میں پائی جائے اور شریعت کی چاروں دلیلوں (کتاب اللہ ،سنت رسول اللہ ،صحابہ کرام ،تابعین وتبع تابعینؒ کا اجماع ،اجماع امت اور قیاس مجتہدین )سے اس کا ثبوت نہ ملے ۔عمدۃ الفقہ:ص۶۷میں ہے:
شریعت میں جن امور کی کوئی اصل نہ ہو،ان کو دین میں اس طرح ملادینا کہ دین میں غیر دین مل جائے، اس کی پابندی کرنابنِیت ثواب اور تقرب الی اللہ کے طور پر کرنااور اس کی شرائط وآداب کی اسی طرح رعایت کرنا جس طرح حکم شرعی کی پابندی کی جاتی ہے؛ ایسے کام بدعات کہلاتےہیں۔پس اس تعریف سے تمام مباح کام،جن میں ثواب کی نیت نہیں کی جاتی، نیز رسم بھی اس سے خارج ہوگئے کیونکہ ان امور کو کوئی دین کی حیثیت سے نہیں کرتا۔
رسم اور بدعت میں اصولی فرق یہ ہوا کہ کسی غیر دین کو دین سمجھ کر ثواب کی نیت سے کرے تو بدعت ہے اور ثواب کی نیت نہ ہو اور دین کا حصہ سمجھ کر نہ کیا جائے تو رسم اور التزام مالایلزم(غیر ضروری چیز کو ضروری سمجھنا)ہے۔بدعت میں ثواب کی امید ہوتی ہے اور رسم کرنے میں ثواب کی نیت نہیں ہوتی بلکہ معاشرے اور برادری کی مرضی و منشا کو دیکھا جاتا ہے۔جس طرح رسم اور بدعت کے معنی میں فرق ہےاسی طرح ان دونوں کے حکم میں بھی فرق ہے۔ ”بدعت “ حدیث کی رو سے گمراہی اور گناہ ہے۔جبکہ ”رسم ورواج “کے حکم میں یہ تفصیل ہے کہ جو رسوم ورواج کتاب وسنت کے مطابق ہوں،معاشرے کے لیے مفید ہوں وہ جائز ہیں اور جو رسم اسلامی مزاج وعادات کے خلاف ہیں، معاشرے کے لیے مضرہیں وہ ناجائز ہوں گے جیسے اسراف، کفار سے مشابہت، ریا اور معصیت میں تعاون، ایسے رسم ورواج سے اجتناب لازم ہے۔
من ابتدعَ فی الاسلام بدعۃًیراھا حسنۃًفقد زعم ان محمداﷺ خان الرسالۃ فان اللہ یقول :” الیوم اکملت لکم دینکم” فمالم یکن یومئذدینا فلا یکون الیوم دیناً۔ (روایت ابن الماجشون عن الامام مالک دستور حیات۸۳)
عمدۃ القاری:۳۷۱/۱۳
وقولہ: من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو ردّ۔قال علامہ عینی فی شرحہ:المراد بہ امرالدین
(سنن ابی داود:۶۳۵/۲)
وقولہ:علیکم بسنتی وسنت الخلفاء الراشدین تمسکوا بھا و عضّوا علیھا بالنواجذ و ایاکم ومحدثات الامور فان کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔
(قواعد الفقہ، مکتبہ اشرفیہ۲۰۴)
البدعۃ ھی الامر المحدث الذی لم یکن علیہ الصحابۃ والتابعون ولم یکن مما اقتضاہ الدلیل الشرعی
(شامی،مکتبہ زکریا ۲۹۹/۲)
البدعۃ ما احدث علی خلاف الحق المتلقی عن رسول اللہ من علم او عمل او حال بنوع شبھۃ واستحسان وجعل دیناً قویماًوصراطاًمستقیماً۔
الاعتصام:۱۱۳/۱)
کل عبادۃلم یتعبدھا اصحاب رسول اللہ فلا تعبدوھا فان الاول لم یدع للآخر مقالاً۔
(غنیۃ الطالبین:۵۷)
عن ابن عباسؓ:قال لا یاتی علی الناس زمان الا اماتوا فیہ سنۃو احیوا بدعۃ۔
فقط والله المؤفق
صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر