”فرشتوں کی آمد“
“حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ”نبیء اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ”
“اذا کان لیلہ القدر نزل جبرائیل فی کبکبہ من الملیکہ یصلون علی کل عبد قائم او قاعد یذکر اللّٰہ عزوجل”(المشکوٰۃ)
“شبِ قدر میں”حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ اترتے ہیں اور ہر اس شخص کے لئے جو کھڑے یا بیٹھے”اللّٰہ”کا ذکر کررہا ہے اور عبادت میں مشغول ہے”دعاء رحمت کرتے ہیں-“
“تشریح”
“حضرت جبرائیل علیہ السلام” کا فرشتوں کے ساتھ آنا”تنزل الملائکہ”
“اس رات میں فرشتے اترتے ہیں”-خود”قرآن مجید”میں مذکور ہے-
“حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ” کی ایک روایت میں ہے کہ”فرشتے “حضرت جبرائیل علیہ السلام” کے کہنے سے “متفرق”ہو جاتے ہیں اور کوئ چھوٹا٫بڑا٫جنگل٫کشتی ایسی نہیں ہوتی جس میں کوئ مومن ہو اور وہ “فرشتے” مصافحہ”کرنے کے لئے وہاں نہ جاتے ہوں- (فرشتوں کے مصافحہ کا احساس ہو جاتا ہے-جب دعا مانگتے ہوئے رقت طاری ہو جاتی ہے اور آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہو جاتے ہیں-)
“فرشتے کس گھر میں نہیں آتے”
“فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں “کتا یا تصویرہو” ( بخاری)
“شبِ قدر” کی تعین نہ ہونے کا سبب”
“حضرت عبادہ بن صامت رضی اللّٰہ عنہ”سے روایت ہے کہ”رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”(اپنےحجرے سے)اس لئے باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں “شبِ قدر” کی اطلاع دیں٫مگر دو مسلمانوں میں جھگڑا ہو رہا تھا-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نے ارشاد فرمایا کہ “خرجت لاخبرکم بلیلہ القدر٫فتلاحی “فلان و فلان”فرفعت وعسی ان یکون خیرا لکم فالتمسوھا فی التاسعہ و السابعہ والخامسہ( مشکوہ و بخاری شریف)
“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نے ارشاد فرمایا کہ”میں اسلئے آیا تھا کہ تمہیں “شبِ قدر” کی خبر دوں٫مگر “فلاں فلاں شخصوں”میں جھگڑا ہو رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی تعین اٹھالی گئ٫کیا بعید کے کہ”اٹھا لینا”اللہ” کے علم میں بہتر ہو”لہذا اب اس رات کو”نویں٫ساتویں اور پانچویں٫رات میں تلاش کرو”
جھگڑا اتنی بری چیز ہے کہ اس کی وجہ سے “شبِ قدر”کی تعین اٹھا لی گئ-
“اس رات میں بھی کچھ لوگوں کی مغفرت نہیں ہوتی-(العیاذ بااللہ)
“ارشادِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم) ہے کہ”شبِ قدر”میں”رحمت الٰہی”مخلوق کی طرف ہر پل متوجہ رہتی ہے ( بہانہ می شود) مگر ایسے عالم میں بھی “دو اشخاص” محروم رہتے ہیں اور وہ ہیں1- کافر2- وہ مسلمان جو کسی مسلمان سے کینہ رکھے”
“بدنصیب کون”
دنیا والوں کی نظر میں تو سب سے بڑا بیوقوف اور نادان وہی ہے جو کمائ کے مواقع کو گنوا دے “لیکن “میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کی نظر مبارک”میں سب سے “بڑا بدنصیب اور”محروم” وہ ہے جو نیکیوں کے بہترین مواقع ضائع کردے”ارشادِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” ہے-
تمہارے اوپر یہ مہینہ آ چکا ہے٫جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے٫جو اس رات سے “محروم” رہ گیا وہ گویا ساری بھلائیوں سے “محروم” رہا اور اسکی بھلائ سے وہی “محروم”ہوتا ہے جو واقعی”محروم” ہو” (رمضان کیا ہے؟بحوالہ مشکوہ شریف٫ص182)
“کیا خبر یہ زندگی کا آخری رمضان ہو؟”
ہم جانتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے جو”ہمارے پیارے اس دنیا میں موجود تھے٫ آج وہ ہم میں موجود نہیں ہیں-ہو سکتا ہے یہ میرا (ہم میں سے کسی کا بھی) آخری رمضان ہو٫تو اگر ان “مبارک اور فضیلتوں والی راتوں میں “اتنی بڑی نعمت”حاصل کرنے کیلئے ان چند راتوں میں جاگ لیں تو کون سی مشکل بات ہے-اگر پھر بھی پوری رات جاگنا مشکل ہو ( کیا عام دنوں میں دنیاوی لذتوں کے لئے٫فیکٹریوں میں” نائٹ ڈیوٹی” کے لئے مسلسل پوری رات جاگتے نہیں رہتے)تو کم ازکم رات کا کچھ حصہ تو عبادت اور دعاؤں میں گزار سکتے ہیں-( اللّٰہ تعالٰی مجھے اور ہم سب کو اس کی توفیق دے آمین) ہر شخص کو اپنی ہمت کے مطابق کوشش کرنی چاہئے اور “رمضان المبارک”کے” آخری عشرے” کو تو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے-اگر “تائید الہی” شامل ہے اور اپنی “نیت”بھی ہو تو پھر تمام دنیا کی “نعمتیں اور راحتیں”اس رات”کے مقابلے میں ہیچ ہیں-اگر “شبِ قدر”نہ بھی ملی تو بھی اجر سے خالی نہیں- بالخصوص مغرب٫عشاء اور فجر کی نمازیں تو “مرد حضرات” با جماعت”ادا کرلیں اور “خواتین” ان اوقات میں “عبادت اور ذکر و اذکار”میں مصروف رہیں تو اللہ تعالیٰ کا کس قدر احسان و انعام ہے کہ کامیابی نہ ہونے کی صورت میں بھی اس کوشش کا اجر ضرور ملتا ہے-( فضائل رمضان المبارک’از39تا47)
(جاری ہے)
حوالہ:تحفہء رمضان
مرسلہ:خولہ بنت سلیمان