“تحفہء خاص”معراج المومنین”
“صحیح مسلم”میں ہے کہ “حضورِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے فرمایا”پھر مجھے “اللہ تعالٰیٰ” نے”مجھے” ایک خاص تحفے سے نوازا٫نماز جو “میری آنکھوں کی ٹھنڈک” ہے-نماز جو” معراج المومنین”ہے- اسوقت دن رات میں مجھ پر “پچاس نمازیں” فرض کی گئیں-پھر میں جب واپس آرہا تھا تو “چھٹے آسمان”پر “حضرت موسیٰ علیہ السلام”ملے- انہوں نے پوچھا کہ “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کی امت پر “اللّٰہ تعالٰی”نے کیا فرض کیا ہے-“میں نے کہا دن رات میں “50 نمازیں” فرض ہوئ ہیں،”
“حضرت موسیٰ علیہ السلام”نے کہا “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”واپس جائیے اور نمازوں میں تخفیف کی درخواست کریں٫ کیونکہ “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی-اور میں “اپنی امت”کو آزما چکا ہوں”میری امت “دو فرض نمازیں ادا نہیں کر سکی تو “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کی امت” 50فرض نمازیں “کیسے ادا کریگی-
“آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نے فرمایا:” کہ اس طرح میں “بارگاہ الٰہی”میں پھر حاظر ہوا اور کہا کہ”اے میرے پروردگار میری امت کے حق میں آسانی فرما دیجئے٫چنانچہ “اللّٰہ تعالٰی نے میری امت کے حق میں 5نمازیں کم کردیں- “میں “حضرت موسیٰ علیہ السلام”کے پاس آیا اور انکو بتایا کہ”اللّٰہ تعالٰی” نے”5″ نمازیں کم کردی ہیں-“حضرت موسیٰ علیہ السلام”نے کہا “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”پھر جائیں اور تخفیف کی درخواست کریں-“میں”اسی طرح بار بار اپنے ” پروردگار”اور “حضرت موسیٰ علیہ السلام” کے درمیان آتا جاتا رہا- یہاں تک کہ”صرف5نمازیں” باقی رہ گئیں- “حضرت موسیٰ علیہ السلام”نے پھر جانے اور تخفیف کرنے کو کہا- لیکن اب مجھے”اپنے اللّٰہ”سے حیاء آئ کہ اب اگر گیا تو یہ 5 نمازیں بھی ختم ہو جائینگی- “پروردگار”کی طرف سے منادی ہوئ کی”محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم”رات دن میں فرض تو یہ” پانچ نمازیں” ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک نماز کا ثواب “دس نمازوں” کے برابر ہے- اس طرح یہ”5″نمازیں ثواب میں”50″ نمازوں کے برابر ہیں-” سبحان اللّٰہ (مسلم91/1)
پھر “میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم””حضرت جبرائیل علیہ السلام”کے ہمراہ”بیت المقدس”سے ہوتے ہوئے “مکہ مکرمہ” تشریف لائے-بقول شاعر
“زنجیر بھی ہلتی رہی ٫ بستر بھی رہا گرم”
اک پل میں سوئے عرش گئے ٫ آئے محمد (صلی اللّٰہ علیہ وسلم)”
صبح جب قریش کے سامنے یہ واقعات “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے بیان کئے ان ” باطن کے اندھوں” نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا-اور”بیت المقدس” کے بارے میں سوالات شروع کردئے- اللّٰہ تعالٰی نے اپنی”قدرت کاملہ”سے “بیت المقدس” کو “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کی نظروں کے سامنے کر دیا اور “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”انکے سوالوں کے تشفی بخش جواب دیتے گئے-(مسلم1/96)
“حکیم العصر”حضرت مولانا محمد یوسف شہیںد رحمۃ اللہ” رقمطراز ہیں کہ”حضرت مولانا انور شاہ کشمیری”اپنے قصیدہ”ضرب الخاتم علی حدوث العالم” میں فرماتے ہیں کہ”معجزات”ان ترقیات کی طرف علامتی اشارہ ہوتے ہیں جو کہیں مدتوں میں قوموں کو حاصل ہونے والی ہوتی ہیں”اس اصول کو سامنے رکھ کر “معراج شریف”کے واقعے پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ “1300”سال بعد سائنسی ترقی نے “خلائی سفر”اور”تسخیر خلاء” کی مہمات کو عملی شکل دی ہے٫جبکہ “میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”شب معراج”میں اس کا راستہ پہلے ہی صاف کر چکے ہیں-“معراج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے بتا دیا کہ “خلائی سفر”نہ صرف ممکن بلکہ “مشاہداتی واقعہ” ہے-
“حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے” معجزات” پر اگر غور کیا جائے تو آج جن کمالات پر دنیا کو ناز ہےوہ سب “معجزاتِ محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کے سامنے ہیچ نظر آتے ہیں-ہمارے سائنسدان اگر زمین پر بیٹھ کر” خلائی راکٹوں” کو کنٹرول کرتے نظر آتے ہیں تو”میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کی “انگشتِ مبارک” کا ایک اشارہ “چاند کو دونیم”کر کے دکھا دیتا ہے-اس زمانے کے”نیل آرمسٹرانگ”اور آدم کلارک”چاند ہر قدم رنجہ فرماتے ہیں تو انہیں کسی اور پر فوقیت ہو تو ہو مگر وہ”رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” پر فوقیت کا دعویٰ نہیں کر سکتے-کیونکہ “شب معراج” کا “خلائی سفر”وہ سفر ہے کہ “چاند” اس سفر کی گرد راہ ہے- ہمارے سائنسدان چاہے” مریخ” پر پہنچ جائیں٫زہرہ” پر کمند ڈال لیں٫ سورج” کے کرہ کو فتح کر لیں مگر وہ “میرے نبی صل اللہ علیہ وسلم”کے اس”عظیم الشان سفر” کی بلندی کو نہیں چھو سکتے٫ بلکہ وہ جہاں بھی پہنچیں گے انہیں “آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے نشان قدم”ان سب سے بالاتر نظر آئیں گے-
کاش!ان “سائنسدانوں” کی رسائی اس حقیقت تک ہوجاتی کہ ان کی ساری ترقیات” محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے” سفر معراج” کے طفیل ہیں-اور”حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم” نے “معراج انسانیت” کا جو ریکارڈ قائم کیا ہے اسے “مادی آلات” و “وسائل” سے توڑنا ناممکن ہے یہی “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی نبوت کا اعجاز ہے اور یہ”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم”کے نبیء برحق ہونے کی دلیل ہے-
(ختم شد)
حوالہ: تاریخ کے ساتھ ساتھ-
مرسلہ:خولہ بنت سلیمان