ماہ شعبان ، نہ کرنے کے کام
پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنا بہترنہیں:
ارشاد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے: ’’نصف شعبان کے بعد روزہ نہ رکھو۔‘‘(ترمذی حدیث: ۷۱۷ درجہ حسن صحیح، راوی ابوہریرہ)
یہ حدیث ان لوگوں کے لیے ہے جن کو پیر جمعرات کو یا ہر مہینے میں تین دن روزے رکھنے کی عادت نہ ہو یا جن پر قضا روزے نہ ہوں۔لہذا جن کے ذمے قضا روزے ہیں اور وہ ان دنوں میں روزے رکھنا چاہیں تو رکھ سکتے ہیں ،کوئی حرج نہیں۔اسی طرح جن لوگوں کو پیر ،جمعرات کو روزہ رکھنے کی عادت ہے وہ بھی حسب معمول پندرہ شعبان کے بعد پیر جمعرات کا روزہ رکھ سکتے ہیں۔جن لوگوں کو عادت ہے کہ وہ ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھتے ہیں وہ ان دنوں میں روزہ رکھنا چاہیں تو رکھ سکتے ہیں۔اس حدیث کا تعلق ان کے علاوہ لوگوں سے ہے۔اور علما نے لکھا ہے کہ حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ پندرہ شعبان کے بعد روزے رکھنا بالکل بھی درست نہیں ،بلکہ مطلب یہ ہے کہ روزہ نہ رکھنا بہتر ہے۔اگر کوئی رکھ لے تو اسے گناہ بھی نہیں۔
قبرستان جانا:
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پندرہ شعبان کی رات کو خلاف معمول زندگی میں صرف ایک بار تشریف لے گئے۔ ہر سال شب برات کو قبرستان جانا آپ کا معمول نہ تھا۔ اس لیے کوئی مسلمان اگر زندگی میں ایک بار یا کبھی کبھار اس حدیث پر عمل کر لے تو کافی ہے۔ اس کو ہر سال لازم سمجھ کر کرنا، دین میں اضافہ کرنا ہے۔
آتش بازی:
آتش بازی اور بم پھوڑنا عبادت میں مشغول لوگوں کی عبادت میں دخل اندازی، اہل محلہ اور مریضوں کو ایذاء پہنچانے، اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے اور اس جیسے کئی گناہوں کا مجموعہ ہے اس سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔اسلام تلوار کی نوک اور بندوق کی نال کسی کی طرف کرنے کی اجازت نہیں دیتا کہ کہیں کسی کو لگ نہ جائے،بغیرمنڈیر کی چھت پر سونے کی اجازت نہیں دیتا کہ کہیں گر نہ جائے تو بم پھاڑنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟
مسجدوں میں اجتماع کا اہتمام:
مبارک راتوں میں عبادت کا اہتمام اپنے گھروں میں کرنا چاہیے۔ یہی سنت طریقہ ہے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے حجرہ مبارکہ میں ہی اس رات کی عبادت کی تھی۔ مسجد میں آپ تشریف نہیں لے گئے تھے۔
چراغاں کرنا:
اہل سنت علمانے اس رات چراغاں کرنے کو ناجائز اور خلاف سنت قرار دیا ہے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ چراغاں کرنے کی بنیاد مسلمانوں میں، قوم برامکہ نے ڈالی جو ایک آتش پرست قوم تھی اور آتش پرستی سے اسلام میں داخل ہوئی تھی۔
حلوہ اور ایصال ثواب:
اس رات ایصال ثواب کی کوئی خصوصیت ثابت نہیں، اسی طرح اس رات میں اہتمام سے حلوہ پکانا اور بی بی عائشہ کی روٹیاں بنانا، یہ سب باتیں بھی بے اصل ہیں۔اور اسی طرح فاتحہ دلانا بھی بے اصل ہے ۔ ان کاموں کو سنت سمجھ کر کرنا بدعت ہے۔
قبروں پر پھول ڈالنا:
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اﷲ علیہ نے قبروں پر پھول اور چادریں چڑھانے کو سنت کی ضد قرار دیا ہے۔بالخصوص چادریں چڑھانا تو سراسر اسراف ہے، اتنے روپے کسی غریب کودے دیے جائیں تو اس کا بھلا ہوجائے گا۔مفتی اکمل مدنی صاحب جو بریلوی مکتب فکر کے جید علما میں سے ہیں انہوں نے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ان کی ویڈیویوٹیوب پر موجود ہے۔
صفہ آن لائن کورسز
تمرین
خالی جگہیں مناسب الفاظ سے پر کریں:
(1) جن کے ذمے روزے قضا ہوں وہ پندرہ شعبان کے بعد روزہ ـــــــــــ
(2) ہر سال شب برات کو قبرستان جاناسنت سے ـــــــــــــ نہیں۔
(3) شب برات میں آتش بازی اور چراغاں کرناــــــــــــــــــ ہے۔
(4) شب برات میں حلوہ پکانے کو لازمی سمجھنا ــــــــــــــــــ ہے۔
(5) مبارک راتوں میں عبادت کا اہتمام ــــــــــــــــــــــ میں کرنا چاہیے!