ماہ شعبان ،اصل حقائق اور کرنے کے کام
شعبان کا لفظ عربی گرامر میں ’’شعب‘‘ سے بنا ہے جس کے معنی ’’شاخ‘‘ کے ہیں اس مہینے میں خیرو برکت کی شاخیں پھوٹتی ہیں اس لیے اس کو شعبان کہتے ہیں احادیث مبارکہ میں شعبان کے یہ فضائل وارد ہوئے ہیں:
ماہ شعبان کے فضائل :
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ’’آپ صلی اﷲ علیہ وسلم شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہیں رکھتے تھے۔ آپ (تقریباً ) پورے شعبان کے روزے رکھتے تھے اور فرماتے ’’نیک عمل اتنا ہی کیا کرو جتنے کی تم کو طاقت ہے کیونکہ اﷲ ثواب دینے سے تھکے گا نہیں تم ہی تھک جاؤ گے۔‘‘
(بخاری : ۲/۶۹۵)
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھا فرماتے ہیں : آپ صلی اﷲ علیہ وسلم شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں کثرت سے روزے نہیں رکھا کرتے تھے۔ اس لیے کہ اس مہینے میں آئندہ سال کی اموات کے فیصلے لکھے جاتے ہیں۔ اب ہوتا یوں ہے کہ ایک شخص شادیوں کی تیاریوں میں مگن ہوتا ہے حالانکہ اس کی موت کا فیصلہ لکھا جا چکا ہوتا ہے، ایک شخص سفر حج کی تیاریوں میں مشغول ہوتا ہے حالانکہ اس کا اندراج مردوں کی فہرست میں لکھا جا چکا ہوتا ہے۔ (درمنثور: ۶/۲۲ بحوالہ ابن مردویہ، ابن عساکر)
کرنے کے کام:
1۔روزوں کی قضا:
نبی کریم ﷺ اس مہینے میں کثرت سے روزے رکھتے تھے ،اس لیے ہمیں بھی اپنی طاقت کے مطابق آپ ﷺ کی اتباع میں روزے رکھنے کی کوشش کرنی چاہیےبالخصوص مستورات اس ماہ میں قضا روزے رکھ لیا کریں!حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اسی ماہ اپنے قضا روزے ادا کرتی تھیں۔
2۔شب بیداری:
اکثر علما، فقہا اور محدثین کی رائے یہ ہے کہ شعبان کی پندرھویں رات فضیلت والی رات ہے اور اس میں عبادت کرنا باعث خیر وبرکت ہے ۔ لیکن خاص راتوں میں عبادت خاص طریقے سے کرنا کہیں سے ثابت نہیں۔
3۔پندرہ شعبان کاروزہ:
پندرہ شعبان کے دن روزہ رکھنے کا ایک ضعیف حدیث میں ذکر ملتا ہے:
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : جب شعبان کی رات آئے تو اس رات کو عبادت اور قیام میں گزارواور اس کے دن میں روزہ رکھو۔۔۔‘‘
(روح المعانی: ۳/ ۱۱۱ بحوالہ بن ماجہ بیہقی)
بعض اہل علم اس دن کے روزے کو درست قرارنہیں دیتے،جبکہ مولانا اشرف علی تھانوی، حضرت مفتی محمد شفیع، مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہم اﷲ کی تصریحات کے مطابق اس دن روزہ رکھنا مستحب ہے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہم کی رائے یہ ہے کہ ہراسلامی مہینے میں ایام بیض یعنی تیرہ ،چودہ ،پندرہ تاریخ کو روزے رکھنا مستحب ہے،نیز شعبان کے مہینے میں ویسے بھی آپ ﷺ کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے اس لیے پندرہ شعبان کے دن ، ایام بیض کی نیت سے روزے رکھ لیے جائیں،یا ماہ شعبان کے روزوں کی نیت سے روزہ رکھ لیا جائے تو پندرہ شعبان کا روزہ خود ہی اس میں آجائے گا۔اس طرح کرنے سے تمام علماء کے نزدیک یہ روزے درست قرار پائیں گے۔
نوٹ: سلف صالحین سے منقول ہے کہ وہ اپنی زکوۃ کا حساب کتاب رجب ، شعبان میں ہی کرلیا کرتے تھے ۔ایک تو اس وجہ سے کہ رمضان المبارک میں یکسوئی کے ساتھ عبادت ہوسکے۔دوسرا یہ کہ مستحق اور غریب مسلمانوں کی خیرخواہی بھی اسی میں ہے کہ رمضان سے پہلے ہی اس فرض کو ادا کرلیا جائے تاکہ وہ بھی رمضان المبارک مکمل فراغت اور وسعت کے ساتھ بسر کرسکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفہ آن لائن کورسز
زیرسرپرستی: حضرت مفتی سعید احمد حفظہ اللہ
زیر ادارات : مفتی انس عبد الرحیم
تمرین
خالی جگہیں مناسب الفاظ سے پر کریں:
(1) ماہ شعبان میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی شاخیں پھوٹتی ہیں۔
(2) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ نفلی روزے ماہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں رکھتے تھے۔
(3) شعبان کے مہینے میں آئندہ سال کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے فیصلے لکھے جاتے ہیں۔
(4) شعبان کی پندرھویں رات کو نفلی عبادت کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا باعث ہے۔
(5) نیک عمل اتنا ہی کرنا چاہیے جتنا انسان کے اندرکرنے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو۔
تشریحی آڈیو اس لنک پر دیکھیے:https://www.youtube.com/watch?v=CFD81QwiG1k