رجب کے روزے
کچھ لوگ رجب کے روزوں کی فضلیت پر مشتمل احادیث عوام میں پھیلا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ماہ رجب میں خاص نماز اور روزہ رکھنے کے حوالے سے بیہقی، طبرانی وغیرہ میں احادیث موجود تو ہیں،لیکن یہ احادیث سند کے اعتبار سے کس درجہ کی ہیں؟ اور علم حدیث کے قواعد کی رو سے ان کو عوام میں مشہور کرنا جائز ہے یا نہیں؟ ان باتوں سے شاید یہ لوگ لا علم ہیں۔ حافظ الدنیا حافظ ابن حجر، حافظ ابو اسماعیل ہروی،حافظ ابن رجب حنبلی، علامہ ابن القیم جوزی اور دیگر کئی معتبر مستند اور حدیث کے نبض شناس محدثین نے ان احادیث کو ناقابل اعتبار مانا ہے۔
ابن القیم نے لکھا ہے کہ رجب کے روزوں کی فضیلت والی احادیث من گھڑت ہیں ۔خود امام بیہقی جنہوں نے یہ احادیث نقل کی ہیں، ان احادیث پر یوں تبصرہ فرماتے ہیں:’’یہ تمام احادیث منکر ہیں۔ ان کے ناقل بہت سے مجہول راوی ہیں اورمیں اللہ کی بارگاہ میں ان سےبراءت کااظہارکرتاہوں‘‘۔
(شعب الایمان للبیہقی:۳/۳۶۹ دارالکتب العلمیہ بیروت)
دوسری طرف ان احادیث کے مقابلے میں سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ یہ روایت منقول ہے: ’’حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رجب میں لوگوں کو روزہ رکھنے پر مارا کرتے تھے اور ہاتھ پکڑ کر ان کو کھانا کھانے پر مجبور کرتے تھے اورفرماتے کہ لوگ جہالت کے دور میں اس ماہ کی تعظیم کرتےتھے۔‘‘
(مصنف ابن ابی شیبہ: ۶/۳۳۴فی صوم رجب ماجا ء فیہ ،حدیث نمبر: ۹۸۵۱، کتاب الصیام)
ظاہر ہے کہ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ سے زیادہ دین کو کوئی قریب سے نہیں سمجھ سکتا جب وہ رجب میں روزہ رکھنے سے منع کر رہے ہیں تو یقیناًوہ اس کی حقیقت سے مکمل واقفیت کی وجہ سے ہی منع کر رہے ہیں۔ شاید رجب کے روزوں کی فضیلت منسوخ ہوگئی ہو اس لیے یا پھر کسی اور غلط عقیدے کی روک تھام کے لیے بہرحال اس صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رجب کے مہینے میں روزے رکھنے پر خصوصی فضیلت کا عقیدہ درست نہیں۔یہی سلامتی اور احتیاط کا راستہ ہے۔
سنن ابن ماجہ کی ایک حدیث سے بھی سید نا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے موقف کی تائید ہوتی ہے:
ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نہی عن صیام رجب
(سنن ابن ماجہ ص۱۲۵، باب صیام اشھر الحرم: حدیث نمبر ۱۷۴۳)
یعنی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ماہ رجب کے روزوں سے منع فرمایا ہے۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی رجب میں روزے رکھنے اور اس کی فضیلت سمجھنے پر ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ:۶/۳۳۵، حدیث ۹۸۵۴)
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ رجب میں کوئی سے بھی روزے جائز نہیں،بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس طرح دس محرم ،عرفہ وغیرہ کے روزوں کی فضیلت ہے اس طرح کی کسی فضیلت کے عقیدے سے روزہ رکھنا بدعت ہے۔لہذا کوئی شخص پیر جمعرات یاایام بیض کے روزے رکھے، قضا روزے رکھے،یا سنت سمجھے بغیرعام نفلی روزے رکھے توکوئی حرج نہیں۔
قال ابن حجر: “لم يرد في فضل شهر رجب، ولا في صيا مه ، ولا في صيام شيء منه معين، ولا في قيام ليلة مخصوصة فيه.. حديث صحيح يصلح للحجة،وقد سبقني إلى الجزم بذلك الإمام أبو إسماعيل الهروي الحافظ، رويناه عنه بإسناد صحيح، وكذلك رويناه عن غيره” (تبيين العجب فيما ورد في فضل رجب ، لابن حجر ، ص6 ، وانظر: السنن والمبتدعات للشقيري ، ص125)
وقال أيضاً: “وأما الأحاديث الواردة في فضل رجب ، أو في فضل صيامه ، أو صيام شيء منه صريحة: فهي على قسمين: ضعيفة ، وموضوعة ، ونحن نسوق الضعيفة ، ونشير إلى الموضوعة إشارة مفهمة” (المصدرالسابق)
قال ابن رجب: “وأما الصيام: فلم يصح في فضل صوم رجب بخصوصه شيء عن النبي -صلى الله عليه وسلم- ولا عن أصحابه”( لطائف المعارف ، ص 228.)
وقال ابن تيمية: “وأما صوم رجب بخصوصه: فأحاديثه كلها ضعيفة ، بل موضوعة ، لا يعتمد أهل العلم على شيء منها ، وليست من الضعيف الذي يروى في الفضائل ، بل عامتها من الموضوعات المكذوبات… وقد روى ابن ماجة في سننه ، عن ابن عباس ، عن النبي -صلى الله عليه وسلم-: أنه نهى عن صوم رجب ، وفي إسناده نظر ، لكن صح أن عمر بن الخطاب كان يضرب أيدي الناس؛ ليضعوا أيديهم في الطعام في رجب ، ويقول: لا تشبهوه برمضان… وأما تخصيصها بالاعتكاف الثلاثة الأشهر: رجب ، وشعبان ، ورمضان فلا أعلم فيه أمراً ، بل كل من صام صوماً مشروعاً وأراد أن يعتكف من صيامه ، كان ذلك جائزاً بلا ريب ، وإن اعتكف بدون الصيام ففيه قولان مشهوران لأهل العلم”( الفتاوى: 25/290 292.)
وكونه لم يرد في فضل صيام رجب بخصوصه شيء لا يعني أنه لا صيام تطوع فيه مما وردت النصوص عامة فيه وفي غيره ، كالإثنين ، والخميس ، وثلاثة أيام من كل شهر ، وصيام يوم وإفطار آخر ، وإنما الذي يكره كما ذكر الطرطوشي صومه على أحد ثلاثة أوجه:
1- إذا خصه المسلمون في كل عام حسب العوام ومن لا معرفة له بالشريعة ، مع ظهور صيامه أنه فرض كرمضان.
2- اعتقاد أن صومه سنّة ثابتة خصه الرسول بالصوم كالسنن الراتبة.
3- اعتقاد أن الصوم فيه مخصوص بفضل ثواب على صيام سائر الشهور ، وأنه جارٍ مجرى عاشوراء ، وفضل آخر الليل على أوله في الصلاة ، فيكون من باب الفضائل لا من باب السنن والفرائض ، ولو كان كذلك لبينه النبي -صلى الله عليه وسلم- أو فعله ولو مرة في العمر ، ولما لم يفعل: بطل كونه مخصوصاً بالفضيلة.
(البدع والحوادث ، ص110 1111 ، وانظر (تبيين العجب..) لابن حجر ، ص 37 38.)
کونڈوں کی حقیقت
مشہور ہے کہ 22 رجب کے کونڈے حضرت جعفر صادق رحمہ اﷲ کی فاتحہ کا کھانا ہے اور اس دن حضرتؒ نے اپنی فاتحہ منانے کا حکم دیا ہے تاریخ کے اعتبار سے یہ خیال نہایت فاش غلطی ہے کیونکہ اسلامی تاریخ میں 22 رجب کے دن حضرت جعفر صادقؒ کی ولادت یا وفات ثابت نہیں اور نہ ہی حضرتؒ نے کسی خاص دن اپنی فاتحہ منانے کا حکم دیا ہے۔
اہل سنت کو اس رسم سے بچنا کئی وجوہات کی بناء بہت ضروری ہے:
۱۔ یہ رسم کسی شرعی اصل سے ثابت نہیں۔ حضرت جعفر صادقؒ کی طرف اس کی نسبت جھوٹی ہے۔
۲۔ چونکہ یہ رسم صحابہ دشمن عناصر نے ایک صحابی رسول(حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ) کی وفات کی خوشی میں ایجاد کی ہے۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا انتقال 22 رجب کو ہواتھا۔ اس لیے اس رسم کوادا کرنا دشمنان صحابہ کے ساتھ تعاون اور نا دانستہ ان کا آلہ کار بننا ہے۔
۳۔ ایصال ثواب کرنا باعث ثواب عمل ہے بشرطیکہ اس کے لیے اجرت نہ لی جائے۔ اجتماع اور معین تاریخ کا اہتمام اور کھانے کے خاص آئٹم کو ضروری نہ سمجھا جائے۔ جبکہ کونڈوں کی اس رسم میں یہ سب خرابیاں موجود ہیں۔ اس لیے یہ غیر لازم کو لازم سمجھنے وجہ سے بدعت اور ناجائز ہے۔
ان سب باتوں کے باوجود اگر کوئی شخص ۲۲رجب کے دن کونڈے بنادے تو کونڈے کھانے کا حکم کونڈے بنوانے والے کی نیت کے اعتبار سے مختلف ہے۔ اگر بنوانے والے کی نیت صرف ایصال ثواب ہو تو کونڈے حلال ہیں۔ فقراء اور محتاجوں کو کھلا دیے جائیں۔ صدقہ فطر کا نصاب رکھنے والوں کے لیے کھانا مکروہ تنزیہی ہے۔ (فتاویٰ رشیدیہ: ص۲۵۲)
اگر بنوانے والے کی نیت حضرت جعفر صادقؒ کی خوشنودی اور ان کا قرب حاصل کرنا ہو تو ایسے کونڈے ما اہل بہ لغیراﷲ میں داخل ہونے کی بناء پر حرام ہیں۔ (امداد الفتاویٰ : ۵/۲۶۰،۲۶۱) کسی نے کیا خوب کہا ہے :
حقیقت روایات میں کھو گئی
یہ امت خرافات میں کھو گئی