دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:135
رفع یدین کے بارے میں
کیافرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں :
کہ اہل حدیث کہتے ہیں بغیر رفع یدین کے نماز نہیں ہوتی ،ا ور حضور ﷺ نے بغیر رفع یدین کے نماز نہیں پڑھی اور اس پر بہت ساری احادیث پیش کرتے ہیں ، توکیا ان کا کہنا درست ہے ؟
اور کیا ہمارے پاس ایسی کوئی احادیث ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضور ﷺ نے رفع یدین کے بغیر بھی نماز پڑھی ہے ، برائے کرم حوالہ کے ساتھ جواب تحریر کریں ۔
الجواب حامداومصلیا ً
پہلے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین میں ائممہ اربعہ کے درمیان جو اختلاف ہے وہ محض افضلیت اور عدم افضلیت کا ہے ،
شافعیہ اور حنابلہ ؒ کے نزدیک ان دونوں مواقع پر رفع یدین افضل ہے ، جبکہ امام ابو حنفیہ ؒ اور امام مالک ِؒ کے نزدیک ان دونوں مواقع پر ہاتھ نہ اٹھانا افضل ہے ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں عشرہ مبشرہ یعنی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت طلحہ بن عبیداللہ ، حضرت زبیر بن العوام ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت سعید بن زید ، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ، اور دیگر جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مثلا فقہ الصحابہ حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ، حضرت براء بن عازب ، حضرت عباد بن زبیر رضی اللہ عنہم وغیرہ حضرات سے عملا یا تصدیقاً مذکورہ مواقع پر ہاتھ نہ اٹھانا ثابت ہے ، ( معارف السنن : ج 2/464 وعمدۃ القاری ج 5/ 272 اوجزالمسالک ص 208 نقلا عن البدائع ج 1 / 207)
نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے جلیل القدر اصحاب اور شاگردوں کے علاوہ بے شمار تابعین مذکورہ مواقع میں ترک رفع پر عامل رہے ہیں ، اسی طرح حضرت ابراہیم نخعی ؒ، حضرت علقمہ ؒ حضرت امام شعبی ؒ اور ابو اسحاق سبیعی ؒ وغیرہ جیسے فقہاء کرام سے ترک رفع یدین ثابت ہے۔
ابو بکر عیاش ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے کسی فقیہ کو تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (طحاوی شریف ج 1 /112)
ترک رفع کی احادیث عملاً متواتر ہیں اور عالم اسلام کے دوبڑے مراکز مدینہ طیبہ اور کوفہ تقریباً بلا استثناء رعک رفع یدین پر عمل پیرا رہے ہیں ۔ ( نیل الفرقدین فی رفع الیدین )
قرآن مجید میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے” وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ﴿٢٣٨﴾
اس ارشاد ربانی کا تقاضا یہ ہے کہ نماز میں حرکت کم سے کم ہو، لہذا جن احادیث میں حرکتیں کم منقول ہیں وہ اس آیۃ کے زیادہ مطابق ہوں گی ،ا س سے یہ بھی معلوم ہو اکہ ترک رفع کی روایات اوفق بالقرآن ہیں ۔
ترمذی میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا میں تمہیں حضور علیہ الصلاۃ والسلام جیسی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں ؟ چنانچہ آپ نے نماز پڑھی اور پہلی مرتبہ ( تکبیر تحریمہ کے وقت ) رفع یدین کرنے کے علاوہ کسی اور جگہ رفع یدین نہیں کیا۔امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ بے شمار اہل علم صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور تابعین اسی کے قائل ہیں ، ( ترمذی ج 1ص 59) اسی طرح ابو داؤد نسائی ، مصنف ابن ابی شیبہ اور السنن الکبری للبہیقی ؒ نے بھی اس روایت کیاہے۔
ابوداؤد میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع فرماتے تو دونوں ہاتھ کانوں کے قریب تک لے جاکر رفع یدین کرتے پھر ( کسی جگہ ) نہ کرتے دار قطنی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے پھر دوبارہ نہیں کرتے تھے ۔
شرح معانی الاثار اور کشف الاستار میں حضرت عبداللہ بن عباس وعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا رفع یدین ساتھ مقامات پر کیاجائے نماز کے شروع میں ، بیت اللہ کی زیارت کے وقت ، صفا ومروہ پر، عرفات ومزدلفہ میں وقوف کے وقت اور رمی جمار کے وقت ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی علیہ ا لصلاۃ والسلام حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی ہے، ان سب نے رفع یدین نہیں کیا مگر پہلی تکبیر کے وقت نماز کے شروع میں ( دار قطنی : ج 1/295، بیہقی :ج 2/79)
حضرت عاصم بن کلیب ؒ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز کی پہلی تکبیر میں رفع یدین کرتے تھے پھر اس کے بعد رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا رفع یدین کو نماز کے کسی بھی تکبیر میں نہ جھکتے ہوئے نہ اٹھتے ہوئے سوائے ابتداء نماز کے ( المدونۃ الکبری)
خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ دلائل اور ان کے علاوہ بے شمار دیگر روایات اور آثارصحابہ وتابعین کی بناء پر احناف عدم رفع یدین کو ترجیح دیتے ہیں اور ہاتھ نہ اٹھانے کو افضل قرار دیتے ہیں ، لہذا یہ کہنا کہ حضور اکرم ﷺ سے نماز میں عدم رفع ثابت نہیں ہے بالکل غلط اور بے بنیاد ہے ۔
مذکورہ دلائل اور دیگر دلائل کی عبارات درج ذیل ہیں ۔
- وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ﴿٢٣٨﴾ البقرۃ
- قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١﴾ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴿٢﴾ ( سورۃ المومنون )
قال ابن عباس : مخبتون ، متواضعون لایلتفتون یمینا ولا شمالا ولا یرفعون ایدیھم فی الصلاۃ ۔ ( تفسیر ابن عباس ص 212)
- وقال النبی ﷺ اسکنوا فی الصلوۃ ، مسلم ( ج :1/181)
- وقال عبداللہ بن عباس العشرۃ الذین شھد لھم رسول اللہ ﷺ باالجنۃ ماکانوا یرفعون ایدیھم الا فی افتتاح الصلوۃ ۔ ( عمدۃ القاری ج : 5/272) ( اوجز المسالک ص 208 نقلا ً عن البدائع ج : 1/207)
- عن علقمۃ رضی اللہ عنہ قال : قال عبداللہ بن مسعود الا اصلی بکم صلوۃ رسول اللہ ﷺ فصلی فلم یرفع یدیہ الا فی اول مرۃ ۔
قال ابو عیسی حدیث ابن مسعود حدیث حسن وبہ یقول غیر واحد من اصحاب النبی ﷺ والتابعین وھو قول سفیان واھل ا لکوفۃ ( ترمذی ج : 1/59 ) وابو داؤد ج : 1/109 ونسائی ج: 1/17 او مسند احمد ج : 1/ 388 ومصنف ابن ابی شیبہ ج : 1/236 والسنن الکبری للبیھقی ؒ ج : 2/78 )
- عن البراء ان رسول اللہ ﷺ کان اذا افتتح الصلوۃ ۔ رفع یدیہ الی قریب من اذنیہ لایعود ، ( ابوداؤد ج : 1/109)
- عن علی عن النبی ﷺ ان کان یرفع یدیہ فی اول الصلوۃ ثم لایعود ( دار قطنی ج : 4/106)
- عن مقسم عن ابن عباس وعن نافع ۔۔۔عن ابن عمر النبی ﷺ قال ترفع ایدی فی سبعۃ مواطن افتتاح الصلوۃ واستقبال البیت والصفا والمروۃ والموقفین وعندا لحجر ، ( کشف الاستار ج : 1/295) ( وشرح المعانی الآثار ج : ق/54)
- عن علقمۃ عن عبداللہ قال صلیت مع النبی ﷺ ومع ابی بکر ومع عمر رضی اللہ عنھما فلم ترفعوا ایدیھم الا عند التکبیرۃ الاولی فی افتتاح الصلوۃ ،قال ابو اسحا ق بہ ناخذ فی الصلوۃ کلھا ( دار قطنی ج : 1/295 وبیھقی ج :2/79)
- عن علقمۃ عن عبداللہ قال صلیت مع النبی ﷺ ومع ابی بکر ومع عمر رضی اللہ عنھما فلم ترفعوا ایدیھم الا عند التکبیرۃ الاولیٰ فی افتتاح الصلوۃ،قال ابو اسحا ق بہ ناخذ فی الصلوۃ کلھا ( دار قطنی ج : 1/259 وبیھقی ج : 2/79)
- عن عاصم بن کلیب ۔۔الخ
مزید عربی عبارات پی ڈی ایف فائل دیے گئے لنک پر کلک کریں :https://www.facebook.com/groups/497276240641626/572318589804057/
مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں
- معارف السنن ج : 2/451 )
- نیل الفرقدین فی رفع الیدین ۔
- حدیث واہل حدیث ص 390
- رسول اکرم ﷺ کا طریقہ نماز ص /180 )
واللہ اعلم بالصواب
آفتاب عالم ، غفرلہ
دارالافتاء دارالعلوم کراچی