قربانی کے اسباق
تیسرا سبق:
قربانی کی شرائط
(مفتی) محمدانس عبدالرحیم
دارالافتاء جامعۃ السعیدکراچی پاکستان
اس سبق میں ہم قربانی کی شرائط پڑھیں گے۔شرط کا مطلب یہ ہے کہ اس کا خیال نہ رکھا گیاتوقربانی نہیں ہوگی۔ان شرائط میں سے کچھ کا تعلق قربانی کرنے والے سے ہے ،کچھ کا دست رکھنے والےسے،کچھ کا جانور سے،کچھ کا قربانی کے وقت سے اور کچھ کا اجتماعی قربانی سے۔اس سبق میں ایک مسئلہ گوشت کی تقسیم کا بھی بیان ہوگا۔
قربانی کرنے والےکی شرائط:
(1) قربانی کرنے والے کی نیت قربانی یا ثواب کی ہو۔ لہٰذا اگر گوشت خوری یا کاروبار کی نیت سے جانور ذبح کیا تو قربانی نہ ہوگی۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 71)
قَالَ النَّبِيُّ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – «إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى» وَيَكْفِيهِ أَنْ يَنْوِيَ بِقَلْبِهِ وَلَا يُشْتَرَطُ أَنْ يَقُولَ بِلِسَانِهِ مَا نَوَى بِقَلْبِهِ كَمَا فِي الصَّلَاةِ؛ لِأَنَّ النِّيَّةَ عَمَلُ الْقَلْبِ، وَالذِّكْرُ بِاللِّسَانِ دَلِيلٌ عَلَيْهَا.
(2) جانور میں دوسرے حصے دار بھی ہیں تو اس کے لیے بھی یہی شرط ہے کہ سب کی نیت قربانی کی ہو،کسی ایک شریک کی بھی نیت محض گوشت کی ہوگی ، قربانی یا ثواب کی نہ ہوگی تو کسی کی بھی قربانی درست نہ ہوگی۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 71)
وَمِنْهَا أَنْ لَا يُشَارِكَ الْمُضَحِّيَ – فِيمَا يَحْتَمِلُ الشَّرِكَةَ – مَنْ لَا يُرِيدُ الْقُرْبَةَ رَأْسًا، فَإِنْ شَارَكَ لَمْ يَجُزْ عَنْ الْأُضْحِيَّةَ
ذبح کرنے والے کی شرائط:
(3) ذبح کرنے والا مسلمان ہو۔ آتش پرست، ہندو، قادیانی اور مذہب کو نہ ماننے والے کا ذبیحہ درست نہیں۔
(4) ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو تو وہ شرکیہ یا ملحدانہ عقائد نہ رکھتا ہو، ذبح کرنے والا مسلمان شخص ایسا کوئی عقیدہ رکھتا ہو تو جانور حرام ہوجاتا ہے۔
(5) جو یہودی یا عیسائی دہریہ عقائد کے حامل ہوں تو ایسے یہودی یا عیسائی کا ذبیحہ بھی حرام ہے۔
(6) ذبح کرنے والااللہ کا نام لے کر جانور ذبح کرے،مثلاً: بسم اللہ کہے۔ اگر جان بوجھ کر اللہ کا نام نہ لے یا غیراللہ کے نام پر کوئی شخص جانور ذبح کرے تو جانور حرام ہوجاتا ہے۔
(7) کم از کم تین رگیں کٹ جائیں۔ تین سے کم رگیں کٹنے کی صورت میں جانور حرام ہوجاتا ہے۔
قربانی کے جانور کی شرائط:
(1) حلال جانور تو بہت سارے ہیں،لیکن ان سب میں سے قربانی صرف تین طرح کے جانوروں کی درست ہے کسی اور کی قربانی درست نہیں۔اونٹ،گائے اور بکری۔گائے کے اندر بھینس اورپالتو یاک شامل ہے اور بکری کے اندردنبہ، بھیڑ اور مینڈھا شامل ہے۔
(2) اونٹ اونٹنی کم از کم 5سال کا ہونا ضروری ہے۔گائے، بیل،بھینس،بھینسا کم از کم 2سال کا ہونا ضروری ہے۔بکرا،بکری کم از کم 1 سال کا ہونا ضروری ہے۔ بھیڑ،دنبہ،مینڈھاان کی عمر بھی ایک سال ہونی چاہیے، البتہ یہ اگر چھ ماہ کے ہوں مگر ایسے صحت مند اور موٹے ہوں کہ ایک سال کے لگتے ہوں تو پھر ان کی قربانی بھی درست ہے، لیکن چھ ماہ سے کم ہونے کی صورت میں بالکل بھی درست نہیں۔جانور کے دو دانت نکل آئیں تو وہ بہرصورت اس عمر کا ہوچکاہوتا ہے۔بعض مستند علمائے کرام نے بتا یا ہے کہ دودھ دانت گرچکے ہوں تب بھی تجربہ ہے کہ عمر پوری ہوچکی ہوتی ہے۔
دانت نہ نکلے ہوں یاگرے نہ ہوں تو شک رہتا ہے کہ عمر پوری ہے یا نہیں ؟ اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ دودانتوں والاجانور لیں یا کم از کم ایسا جانور لیں کس کے دودھ دانت گرچکے ہوں،کسی نے تجربہ کار بیوپاری کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے خریدلیا اور خریدار کو یقین یا غالب گمان ہے کہ جانور دوسال کا ہوچکا ہے تب بھی قربانی ہوجائے گی۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 70)
وَأَمَّا سِنُّهُ فَلَا يَجُوزُ شَيْءٌ مِمَّا ذَكَرْنَا مِنْ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ مِنْ الْأُضْحِيَّةَ إلَّا الثَّنِيَّ مِنْ كُلِّ جِنْسٍ إلَّا الْجَذَعَ مِنْ الضَّأْنِ خَاصَّةً إذَا كَانَ عَظِيمًا؛ لِمَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَنَّهُ قَالَ «ضَحُّوا بِالثَّنَايَا إلَّا أَنْ يَعِزَّ عَلَى أَحَدِكُمْ فَيَذْبَحَ الْجَذَعَ فِي الضَّأْنِ» وَرُوِيَ عَنْهُ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – أَنَّهُ قَالَ «يُجْزِي الْجَذَعُ مِنْ الضَّأْنِ عَمَّا يُجْزِي فِيهِ الثَّنِيُّ مِنْ الْمَعْزِ»
(3) جانور کے اندر ایسا عیب نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی نہیں ہوتی۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 75)
وَأَمَّا الَّذِي يَرْجِعُ إلَى مَحَلِّ التَّضْحِيَةِ فَنَوْعَانِ: أَحَدُهُمَا: سَلَامَةُ الْمَحَلِّ عَنْ الْعُيُوبِ الْفَاحِشَةِ
عیبوں کی تفصیل سبق نمبرچار میں ملاحظہ کی جائے!
(4) جانور جنگلی نسل سے نہ ہو، جنگلی نسل کے جانور کی قربانی درست نہیں۔ نیل گائے کی قربانی درست نہیں٬ کیونکہ وہ جنگلی ہے۔
قربانی کےوقت کی شرائط:
(1) قربانی کے تین دن: دس، گیارہ اور بارہ ذوالحج میں سے قربانی کی جائے۔تیرہ ذوالحج کے دن قربانی مسلک حنفی کے مطابق درست نہیں۔ایک ملک کے مسلمان نے دوسرے ملک میں قربانی کروائی ہو تو اس کی قربانی صحیح ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ دونوں جگہ قربانی کا دن ہو،مثلا: سعودی باشندہ پاکستان میں قربانی کروائے تو ضروری ہوگا کہ پاکستان کے وقت کے مطابق گیارہ ذوالحج تک اس کی طرف سے قربانی کرلی جائے ؛کیونکہ یہاں کی گیارہ سعودیہ کی بارہ ہوگی، جس کے بعد وہاں عید ختم ہوجائے گی۔
(2) دس ذوالحج کے دن شہروں میں نماز عید کے بعدقربانی کی جائے ۔دیہاتوں میں صبح صادق کے بعد بھی جائز ہے۔اگر شہر میں کسی نے نماز عید سے پہلے قربانی کرلی تو قربانی نہیں ہوئی۔ہاں! اگر کسی نے ایسا کیا کہ شہر میں رہتا ہے لیکن قربانی دیہات میں صبح صادق کے بعد کروالی تو قربانی درست ہے۔
اللباب في شرح الكتاب (3/ 233)
فأول وقتها في حق المصري والقروي طلوع الفجر، إلا أنه شرط لأهل المصر تقديم الصلاة عليها، فعدم الجواز لفقد الشرط، لا لعدم الوقت كما في المبسوط
اجتماعی قربانی کی شرائط:
(1) بڑے جانور میں سات سے زائد حصّے نہ ہونا۔ اگر ایک بڑے جانور میں سات سے زیادہ حصّے رکھ لیے تو کسی کی قربانی ادا نہ ہوگی۔
(2) کسی بھی حصّہ دار کا شرکیہ، کفریہ یا زندقہ وملحدانہ عقائد والا نہ ہونا۔ ایسے عقیدے والا کوئی بھی شخص شریکِ قربانی ہوگیا تو تمام حصّہ داروں کی قربانی غارت ہوجائے گی۔
(3) جان بوجھ کر کسی ایسے شخص کو حصہ دار نہ بنانا جس کی کل یا اکثر آمدنی حرام کی ہو۔ اگر کوئی ایک شخص بھی حرام آمدنی سے شریکِ قربانی ہوگیا تو کسی کی قربانی نہ ہوگی۔یہ ایک قول ہے ۔یہی مشہور ہے اوراسی میں احتیاط ہے، تاہم یہاں ایک دوسرا قول بھی ہے کہ انہیں شریک تو نہیں کرنا چاہیے لیکن شریک کرلیا تو سب کی قربانی ہوجائے گی،البتہ حرام آمدنی والے کو ثواب نہیں ملے گا۔
گوشت کی تقسیم میں سود سے بچنے کا طریقہ:
حصّہ داری کی صورت میں اندازے سے گوشت تقسیم کرنے سے قربانی تو ہوجائے گی لیکن سودکا
گناہ ہو گا۔سود سے بچنے کی چار صورتیں ہیں:
(1) گوشت اور ہڈیاں تمام حصّہ داروں میں بالکل صحیح ناپ تول کر برابر تقسیم کیا جائے۔
(2) اگر تولنے کی مشقت سے بچنا ہو تو کسی کے حصّہ میں پائے کسی کے حصّے میں کلیجی کسی کے حصّے میں گردے اور کسی میں زبان رکھ دی جائے، اس صورت میں اندازے سے تقسیم سود نہیں ہوگا۔
(3) تمام گوشت صدقہ کرنا ہوتو تقسیم ضروری نہیں۔
(4) اگر چولھا ایک ہوتب بھی تقسیم میں برابری ضروری نہیں۔