قربانی کی کھال کاصحیح مصرف کیا ہے

فتویٰ نمبر:383

سوال:کیافرماتےہیں علماءکرام ومفتیان ِعظام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ!

(۱)     قربانی کی کھال کاصحیح مصرف کون ہےاورکن کن مصارف میں کھال کواستعمال کیاجاسکتا ہے؟

(۲)     ایک شخص ہےجوکہ اپنی کھال کوکسی کی شادی میں خرچ کرنےکیلئےدیتاہےخرچ نہ ہونے کی بناءپرکیایہ جائزہے؟اگرجائزہےتواس کی کیاصورت ہوسکتی ہے؟

            الجواب حامدا   ومصلیا

(۱)       واضح رہےکہ قربانی کی کھال کواپنےاستعمال میں لاکرجائےنماز،مشکیزہ وغیرہ بنانابھی درست ہےاورکسی مستحق کودینابھی درست ہے (اورمستحق ہروہ شخص ہےجوساڑھےباؤن تولہ چاندی ،یااسکےبرابرسونا،روپیہ یاضرورت سےزائد سامان کامالک نہ ہو) اسی طرح قربانی کی کھال کسی غنی کوبطورہدیہ بھی دی جاسکتی ہے،اوراگرقربانی کی کھال کوفروخت کیاجائےتوان روپیوں کااپنےاستعمال میں لانادرست نہیں بلکہ صدقہ کرناواجب ہے۔(۱)

چنانچہ فتاوٰی شامی (6/328)میں ہے

(فَإِنْ) (بِيعَ اللَّحْمُ أَوْ الْجِلْدُ بِهِ) أَيْ بِمُسْتَهْلَكٍ (أَوْ بِدَرَاهِمَ) (تَصَدَّقَ بِثَمَنِهِ)

التخريج

(۱)فتح القدير للمحقق ابن الهمام الحنفي – (22 / 119)

 وَلَوْ بَاعَ الْجِلْدَ وَاللَّحْمَ بِالدَّرَاهِمِ أَوْ بِمَا لَا يُنْتَفَعُ بِهِ إلَّا بِاسْتِهْلَاكِهِ تَصَدَّقَ بِثَمَنِهِ

الهداية في شرح بداية المبتدي – (4 / 360)

 فلو باع الجلد أو اللحم بالدراهم أو بما لا ينتفع به إلا بعد استهلاكه تصدق بثمنه، لأن القربة انتقلت إلى بدله، وقوله عليه الصلاة والسلام: “من باع جلد أضحيته فلا أضحية له” يفيد كراهة البيع.

 البناية شرح الهداية – (12 / 55)

 (واللحم بمنزلة الجلد في الصحيح) ش: يعني إذا باعه بالدراهم يتصدق به، وإن باعه بشيء آخر ينتفع به، كما في الجلد، ولو اشترى ما لا ينتفع به إلا بعد استهلاكه لا يجوز، احترز بقوله في الصحيح، عما روي في ” الأجناس ” قال: وإنما في اللحم أن يأكل ويطعم وليس له غيره فيه، وفي الجلد له أن يشتري الغربال والمنخل ويتخذ منه مسكا

اپنا تبصرہ بھیجیں