دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:165
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدا ومصلیا
۱ واضح رہے کہ اگر صاحب نصاب شخص قربانی کی نیت سے جانور خریدے تو اس شخص پر اسی جانور کو قربان کرنا واجب نہیں بلکہ وہ اس جانور کی جگہ دوسرا جانور بھی قربان کر سکتا ہے اسی وجہ سے صاحب نصاب شخص کے لیے قربانی کی نیت سے خریدے ہوئے جانور کو بیچنا بھی درست ہے۔ لہذا صورت مسئولہ میں اگر جانور خریدنے والا شخص صاحب نصاب تھا اور اس نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا تھا تو اس کے لیے اس جانور کو بیچنا درست تھا لیکن خریدے ہوئے دوسرے جانور میں صاحب نصاب شرکاء کو شریک کرنا مکروہ تھا البتہ دوسروں کو اس جانور میں شریک کرنے کے باوجود تمام شرکاء کی قربانی درست ہوگئی اور اس شخص کے لئے بہتر ہے کہ جن صاحب نصاب شرکاء پر قربانی واجب تھی، ان کے حصوں کی قیمت صدقہ کردے۔ لیکن ایسا کرنا واجب نہیں ، ہاں بہتر ہے ۔اور اگر صاحب نصاب شخص خریدے ہوئے جانور میں تمام غیر صاحب نصاب شرکاء کو شریک کرے اور اپنی قربانی کی نیت کے ساتھ ساتھ ان کی طرف سے ان کے حصوں کی تطوعا قربانی کرے تو اس صورت میں اس کے لیے کسی شریک کے حصے کی قیمت صدقہ کرنا ضروری نہ ہوگا۔
اور اگر جانور خریدنے والا شخص صاحب نصاب نہ ہو بلکہ غریب ہو تو مشہور قول کے مطابق غیر صاحب نصاب شخص پر قربانی کی نیت سے جانور خریدنے سے اسی جانور کی قربانی واجب ہو جاتی ہے اور اس کے لیے اس جانور کو بیچنا جائز نہیں ہوتا بلکہ اسی کو قربان کرنا واجب ہوتا ہے۔ یہ قول اکثر فقہاء کرام کا ہے اور اسی کو عام اردو فتاویٰ میں اختیار کیا گیا ہے ۔ لہذا اگر غیر صاحب نصاب شخص قربانی کی نیت سے خریدا ہوا جانور بیچ دے تو اس پر واجب ہے کہ یا تو وہ اس کی قیمت صدقہ کرے یا اسی قیمت کا دوسرا جانور خرید کر اسے قربان کر ے اور اگر غیر صاحب نصاب شخص قربانی کی نیت سے خریدا ہوا جانور بیچ کر دوسرا جانور خرید لے اور دوسرے افراد کو بھی اس میں شریک کر کے اسکی قربانی کرے تو ایسی صورت میں اس شخص پر واجب ہو گا کہ وہ صاحب نصاب شخص کی قیمت صدقہ کردے تاہم مشترکہ جانور کی قربانی سے سب شرکاء کی قربانی ہوجائے گی ۔
البتہ بعض فقہاء کرام کا مذہب یہ ہے کہ غیر صاحب نصاب شخص پر محض قربانی کی نیت سے جانور خرید لینے سے اس جانور کی قربانی واجب نہیں ہوتی بلکہ اس شخص پر اس جانور کی قربانی واجب ہونے کے لئے شرط یہ ہے کہ یہ شخص قربانی کی نیت سے جانور خرید کر اپنے اوپر اس جانور کی قربانی زبان سے بھی واجب کرلے اس طور پر کہ یوں کہے کہ میرے ذمے۳۲ اس جانور کی قربانی لازم ہے (جس کو فقہاء کی اصطلاح میں الا یحاب بلسانہ کہا جاتا ہے) تو اس صورت میں اس شخص پر قربانی کی نیت سے خریدے ہوئے اس جانور کی قربانی واجب ہو جائے گی چناچہ اس کے لیے اس جانور کا بیچنا جائز نہیں ہوگا بلکہ اسی کو قربان کرنا واجب ہے اور ایسے جانور میں دوسروں کو شریک کرنے کی صورت میں صدقہ کے وجوب کا وہی حکم ہے جو اوپر بیان ہوا ۔
فقہاء کرام کے اس قول کے مطابق اگر غیر صاحب نصاب شخص جانور خرید کر اپنے اوپر اس جانور کی قربانی واجب نہ کرے تو محض قربانی کی نیت سے جانور خریدنے سے اس پر اس جانور کی قربانی واجب نہیں ہوگی چنانچہ اس کے لیے اس جانور کو بیچنا اور دوسرا جانور خریدنا درست ہوگا لیکن دیگر افراد کو اس میں شریک کرنا بہرحال مکروہ ہوگا ۔
یہ قول بعض فقہاء کرام کا ہے ۔ صاحب فتح القدیر نے اس قول کو النھایہ کے حوالے سے نقل کیا ہے اورعلامہ حموی نے الاشباہ کی شرح میں اس قول کو جمہور کا قول قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ امدادالاحکام میں حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا یہ قول ذکر فرمایا ہے:
’’حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ فقیر کا قربانی کی نیت سے جانور خریدنے کے مسئلے میں میرے نزدیک نوادر کی روایت راجح ہے کیونکہ فقہاء نے ظاہرالروایہ کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ فقیر کا قربانی کی نیت سے جانور خریدنا ایجاب (اپنے اوپر خود واجب کرلینے) کے قائم مقام ہے اور یہ عرفا قربانی کی نذر ہے۔ پس ظاہر یہ ہے کہ اس کا مدار عرف ہے۔ تو یہ ممکن ہے کہ ان فقہاء کے زمانے میں یہ ایجاب متعارف ہو۔ جب کہ ہمارے زمانے میں فقیر کا قربانی کی نیت سے جانور خریدنے میں ایجاب متعارف نہیں ہے بلکہ نفل کی نیت متعارف ہے اور جانور خریدتے وقت کسی کے بھی دل میں نذر کا مفہوم نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم‘‘ (امداد الاحکام جلد۴، صفحہ ۲۲۲)
اور چونکہ ایجاب بلسانہ کے ذریعے قربانی کے وجوب میں فقیر کے لیے سہولت بھی ہے ، اس لئے بعض فقہاء کرام کے اس قول پر عمل کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے ۔
معسرا فقد اوجب بالشراء فلا یجوز ان یشرک فیھا، وکذا لو اشرک فیھا ستۃ بعد مااوجبھا لنفسہ لم یسعہ لانہ اوجبھا کلھا للہ تعالی، وان اشرک جاز، ویضمن ستۃ اسباعھا، وقبل فی الغنی: انہ یتصدق بالثمن۔
۲ مسئولہ صورت میں چونکہ بائیس ہزار روپے کا جانور خریدنے والا شخص صاحب نصاب ہے اور اس نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا تھا، لہذا اس کے لیے یہ جانور تبدیل کر کے دوسرے جانوروں کا خریدنا جائز تھا لہذا اس صورت میں شرعا سب افراد کی طرف سے کی گئی قربانی درست ہوگئی۔
۳۔۔۔اگر جیل شہر کے اندر ہو اور اتنی بڑی ہو کہ اس کے احاطے میں معتد بہ مقدار لوگوں کی یا قیدیوں کی رہتی ہو اور اس جیل کے احاطے میں کسی ایسی جگہ جمعہ ادا کیا جائے جہاں اس جیل کی آبادی کے تمام افراد کو باآسانی اگر جمعہ پڑھنے کی اجازت ہو تو ایسی صورت میں جیل میں جمعہ درست ہو جائے گا اگرچہ دفاعی ، انتظامی یا حفاظتی وجوہ کی بنا پر جیل کے احاطے کے باہر کے افراد کو اندر آنے کی اجازت نہ ہو۔ (ماخذہ التبویب ۱۷/۴۹۲) واللہ اعلم
اویس احمد قاضی
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی
۳/۳۰ ۱۴۳۰ھ
پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیے لنک پرکلک کریں :
https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/652056778496904/