قربانی کے جانور کی دم یا کان کٹے ہونے کی صورت میں قربانی کا حکم
واضح رہے کہ جانور کے کان،آنکھ یا دم وغیرہ میں عیب کثیر قربانی سے مانع ہے اور قلیل مانع نہیں ،قلیل اور کثیر کے درمیان حد فاصل کے متعلق امام صاحب ؒ سے چار اقوال منقول ہیں:
(ایک قول میں چوتھائی کو کثیر قرار دیا گیا ہے،ایک میں تہائی ،ایک میں تہائی سے زائد اور ایک قول میں مذکورہ اعضاء کے اکثر حصے کو معیار قرار دیا گیا ہے)ان میں تیسرا قول ظاہرالروایۃ ہے، یعنی یہ کہ جانور کا کان یا دم وغیرہ اگر ایک تہائی سے زیادہ کٹی ہوئی ہو (اگر چہ نصف سے کم ہے) تو قربانی درست نہیں، البتہ صاحبین نے نصف کو معیار قرار دیا ہے یعنی جانور کا کان یا دم و غیرہ نصف یا اس سے زائد اگر کٹی ہوئی ہو، تو قربانی جائز نہیں، اور اگر نصف سے کم کٹی ہو، تو جائز ہے، علامہ شامی نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ مشہور تابعی سعید ابن المسیب رحمہ اللہ نے بھی حدیث کے الفاظ ” عضباء الاذن” کی تفسیر میں یہی قول ذکر کیا ہے۔ متون جیسے ہدایہ ،کنز اور ملتقی میں بھی صاحبین کے قول کو اختیار کیا گیا ہے، اور امام صاحب رحمہ اللہ سے بھی صاحبین کے قول کی طرف رجوع منقول ہے۔
ہمارے اکابر رحمہم اللہ کی کتابوں میں بعض میں تہائی کو معیار قرار دیا گیا ہے ، جیسا کہ بہشتی زیور میں یہی قول ذکر ہے:
جو جانور اندھا ہو یا کانا ہو، ایک آنکھ کی تہائی روشنی یا اس سے زیادہ جاتی رہی ہو،یا ایک کان تہائی یا تہائی سے زیادہ کٹ گیا یا دم تہائی یا تہائی سے زیادہ کٹ گئی۔ تو اس جانور کی قربانی درست نہیں۔ (بہشتی زیور،ج 3 ص 165)فتاوی رحیمیہ میں بھی یہی قول ذکر ہے :10/48)
“جواہر الفقہ ” میں تہائی سے زائد کا قول مذکور ہے:
جس جانور کا تہائی سے زیادہ کان یادم وغیرہ کئی ہوئی ہو، اس کی قربانی جائزنہیں (جواہر الفقہ : ۲/۲۷۲)
اور “احسن الفتاوی ” میں نصف کے قول کو اختیار کیا گیا ہے:
کان یادم کا نصف یا اس سے زائدحصہ کٹا ہوا ہو، تو قربانی جائز نہیں (۷/۵۱۵)
لہذا مذکورہ بالا تفصیل کو مد نظر رکھتے ہوئے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ قربانی کا جانور خریدتے وقت ایسا جانور خریدنے سے اجتناب کیا جائے، جس کا کان یادم تہائی تک کئی ہوئی ہو، تاہم اگر کسی نے ایسے جانور کی قربانی کی جس کے مذکورہ اعضاء ایک تہائی یا اس سے زیادہ کٹے ہوئے ہوں ، مگر نصف سے کم ہوں، تو صاحبین کے قول پر عمل کرتے ہوئے،اس کی قربانی درست ہو جائیگی۔