قربانی کے اسباق
چوتھا اور آخری سبق
قربانی کےضروری مسائل
(مفتی) محمدانس عبدالرحیم
دارالافتاء جامعۃ السعیدکراچی پاکستان
جن جانوروں کی قربانی درست نہیں:
(1) حادثاتی طورپر ایک سینگ یا دونوں سینگ جڑ سے اس طرح ٹوٹ گئے ہوں کہ اس کا اثر دماغ تک پہنچ گیا ہو۔
(2) پیدائشی طور پر دونوں یا ایک کان بالکل نہ ہوں۔
(3) دانت نہ ہوں اور چارہ بھی نہ کھاسکتا ہو۔
(4) گائے میں دو تھن اور بکری میں ایک تھن سوکھا ہوا یا کٹا ہوا ہو، اسی طرح گائے کے دو تھنوں کی گھنڈیاں اور بکری کے ایک تھن کی گھنڈی کٹ گئی ہو۔
(5) ایسا لنگڑا جانور جو چلتے وقت کسی ایک پاؤں سے بالکل سہارا بھی نہ لے سکتا ہو۔
(6) اتنا کمزور جانور کہ اس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔
(7) مکمل اندھا یا کانا جانور یا جس کی ایک آنکھ کی بینائی بالکل نہ ہو۔
(8) گائے کی زبان نصف سے زیادہ کٹی ہوئی ہو۔( تہائی اور تہائی سے زیادہ کا فتوی بھی ہے۔)
(9) کان نصف سے زیادہ کٹا ہوا ہو۔( تہائی اور تہائی سے زیادہ کا فتوی بھی ہے۔)
(10) د م نصف سے زیادہ کٹی ہوئی ہو۔( تہائی اور تہائی سے زیادہ کا فتوی بھی ہے۔)
(11) ناک کٹ چکی ہو۔
(12) پیدائشی طور پر دُم نہ ہو۔ (شامی، ہندیہ)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 75)
وَالْأَصْلُ فِي اعْتِبَارِ هَذِهِ الشُّرُوطِ مَا رُوِيَ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا – أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْت رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَقُولُ «لَا تُجْزِي مِنْ الضَّحَايَا أَرْبَعٌ الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ عَرَجُهَا وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا وَالْعَجْفَاءُ الَّتِي لَا تُنْقِي» وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – أَنَّهُ قَالَ «اسْتَشْرِفُوا الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ» أَيْ تَأَمَّلُوا سَلَامَتَهُمَا عَنْ الْآفَاتِ.وَرُوِيَ «أَنَّهُ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – نَهَى أَنْ يُضَحَّى بِعَضْبَاءِ الْأُذُنِ»
جن کی قربانی درست ہے
(1) پیدائشی سینگ نہ ہوں تو قربانی درست ہے۔
(2) سینگ جڑ سے نہ ٹوٹے ہوں یا جڑ سے ٹوٹے ہوں لیکن اثر دماغ تک نہ پہنچا ہو تو قربانی درست ہے۔
(3) خوب صورتی کے لیے سینگوں کی گھسائی کردی جاتی ہے اس سے بھی قربانی میں خلل نہیں آتا۔
(4) اگر دانت نہ ہوں لیکن چارہ کھاسکتا ہو تو قربانی درست ہے۔
(5) حاملہ ہونا ایسا عیب نہیں کہ قربانی درست ہی نہ ہو لیکن جان بوجھ کر ولادت کے قریب جانور کو خرید کر قربانی کرنا مکروہ ہے۔قربانی کردی تو ہوجائے گی۔
(6) بانجھ کی قربانی جائز ہے۔
(7) خنثی مشکل جانور کی قربانی ایک فتوے کے مطابق درست ہے ؛ آج کل ایسی چیزیں موجود ہیں جس سے اس کا گوشت بآسانی پک سکتا ہے۔
(8) ایک خصیہ یا دونوں خصیے نہ ہوں تو اس کی بھی قربانی درست ہے۔(فتاوی مفتی محمود)
(9) پالتو یاک کی قربانی درست ہے؛ کیونکہ وہ گائے ہی کی ایک قسم ہے۔
(10) خصی کی قربانی زیادہ افضل ہے۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 80)
وَأَفْضَلُ الشَّاءِ أَنْ يَكُونَ كَبْشًا أَمْلَحَ أَقْرَنَ مَوْجُوءًا؛ لِمَا رَوَى جَابِرٌ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – ضَحَّى بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ مَوْجُوءَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ» وَالْأَقْرَنُ: الْعَظِيمُ الْقَرْنِ، وَالْأَمْلَحُ: الْأَبْيَضُ.۔۔۔۔۔ وَالْمَوْجُوءُ: قِيلَ هُوَ مَدْقُوقُ الْخُصْيَتَيْنِ، وَقِيلَ: هُوَ الْخَصِيُّ، كَذَا رُوِيَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ – رَحِمَهُ اللَّهُ – فَإِنَّهُ رُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ التَّضْحِيَةِ بِالْخَصِيِّ فَقَالَ: مَا زَادَ فِي لَحْمِهِ أَنْفَعُ مِمَّا ذَهَبَ مِنْ خُصْيَتَيْهِ.
سات ممنوع چیزیں:
حلال جانور میں مندرجہ ذیل سات چیزیں منع ہیں:
(۱) بہتا ہوا خون
(۲)نر کی شرمگاہ
(۳) مادہ کی شرمگاہ
(۴) کپورے
(۵) مثانہ
(۶ ) پِتہ
(۷) غدود
حرام مغز خوامخواہ بدنام ہے۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 61)
وَأَمَّا بَيَانُ مَا يَحْرُمُ أَكْلُهُ مِنْ أَجْزَاءِ الْحَيَوَانِ الْمَأْكُولِ فَاَلَّذِي يَحْرُمُ أَكْلُهُ مِنْهُ سَبْعَةٌ: الدَّمُ الْمَسْفُوحُ، وَالذَّكَرُ، وَالْأُنْثَيَانِ، وَالْقُبُلُ، وَالْغُدَّةُ، وَالْمَثَانَةُ، وَالْمَرَارَةُ لِقَوْلِهِ عَزَّ شَأْنُهُ {وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ} [الأعراف: 157] وَهَذِهِ الْأَشْيَاءُ السَّبْعَةُ مِمَّا تَسْتَخْبِثُهُ الطِّبَاعُ السَّلِيمَةُ فَكَانَتْ مُحَرَّمَةً.
وَرُوِيَ عَنْ مُجَاهِدٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – أَنَّهُ قَالَ: كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – مِنْ الشَّاةِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَيَيْنِ وَالْقُبُلَ وَالْغُدَّةَ وَالْمَرَارَةَ وَالْمَثَانَةَ وَالدَّمَ فَالْمُرَادُ مِنْهُ كَرَاهَةُ التَّحْرِيمِ بِدَلِيلِ أَنَّهُ جَمَعَ بَيْنَ الْأَشْيَاءِ السِّتَّةِ وَبَيْنَ الدَّمِ فِي الْكَرَاهَةِ، وَالدَّمُ الْمَسْفُوحُ مُحَرَّمٌ، وَالْمَرْوِيُّ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ – رَحِمَهُ اللَّهُ – أَنَّهُ قَالَ: الدَّمُ حَرَامٌ
قربانی کی کھال :
قربانی کی کھال صاحبِ قربانی خود بھی استعمال کرسکتا ہے صدقہ بھی کرسکتا ہے،کسی کو ہدیہ بھی کرسکتا ہے۔ البتہ تنخواہ اورقصائی کی اُجرت میں نہیں دیا جاسکتا۔دینی مدارس کے طلبہ کے لیے ہدیۃً کھال دینا زیادہ اچھا ہے۔ کافر کو بھی کھال ہدیہ یا صدقے کے طور پر کی جاسکتی ہے۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 81)
لِمَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَنَّهُ قَالَ «مَنْ بَاعَ جِلْدَ أُضْحِيَّتِهِ فَلَا أُضْحِيَّةَ لَهُ» وَرُوِيَ أَنَّ النَّبِيَّ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – قَالَ لِعَلِيٍّ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -: ” تَصَدَّقْ بِجِلَالِهَا وَخِطَامِهَا، وَلَا تُعْطِي أَجْرًا لِجَزَّارٍ مِنْهَا
وزن سے خریدنا:
قربانی کا جانور وزن سے خریدنا جائز ہے۔
ایک حصہ مشترکہ طور پر ایصال ثواب کرنا:
عموما ایسا ہوتا ہے کہ قربانی کا ایک حصہ نبی کریم ﷺ یا ساری امت کے لیے کیا جاتا ہے۔یہاں پر یہ سمجھ لیں کہ اس کی دو صورتیں ہیں:
(الف) حصہ مکمل کسی ایک حصہ دار کا ہو اور وہ اس کا ثواب نبی کریم ﷺ اور ساری امت کے لیے کردے تو یہ درست ہے۔ایصال ثواب ہوجائے گا۔
(ب) لیکن اگر حصہ تمام حصہ داروں کا مشترکہ طور پر ہواور تمام شریک ایک حصے کے مالک بن کر ایصال ثواب کریں، مثلا: چھ شریک ہو ں اور چھ نے مل کر ساتواں حصہ نبی کریم ﷺ کی طرف سے یا ساری امت کی طرف سے کیا توقربانی ان چھ افراد کی ہوجائے گی، لیکن ایصال ثواب درست نہیں ہوگا۔اس لیے درست طریقے پر عمل کرنا چاہیے!(فتاوی عثمانی)
عقیقے کی نیت:
ایک بکرے یا بڑے جانور کے ایک حصے میں ایک ہی نیت ہوسکتی ہے، ایک سے زیادہ نہیں، لہذاایک حصے میں یا توصرف قربانی کی نیت کریں یا صرف عقیقے کی،ہاں! یہ درست ہے کہ دو حصے لیے جائیں ایک میں قربانی کی نیت کی جائے اور دوسرے میں عقیقے کی۔
جانور کولٹانے کا سہولت والا طریقہ:
جانور کو ذبح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے قبلہ رخ گرایا جائے ،اگر قبلہ رخ نہیں گرا تو گھسیٹ کر قبلہ رخ کرنے کی ضرورت نہیں،اس سے جانور کواضافی تکلیف ہوتی ہے۔جانور بائیں کروٹ پر ہو تو ذبح کرنے میں آسانی رہتی ہے کیونکہ اس طرح آپ دائیں ہاتھ میں چھری اور بائیں ہاتھ سے اس کاسر بآسانی پکڑ سکتے ہیں۔