سوال :اگر قرآن پاک پڑھتے ہوئے کوئی ایسی غلطی ہوجائے کہ مطلب کلمہ کفر بن جائے تو درج ذیل صورتوں میں پڑھنے والا کافر ہوجائیگا کہ نہیں۔
٭ اگر کوئی حافظ زبانی قرآن پاک پڑھ رہا ہو تو زبانی پڑھنے کی وجہ سے ایسی غلطی ہوجائے ؟ ایسی صورت میں اگر وہ فوراًتصحیح کرے یا پھر کچھ دیر بعد یا کئی دن بعد قرآن پاک دیکھنے پر معلوم ہوجائے کہ یہ غلطی ہوئی تھی پھر وہ اس کو درست کر لے ؟
٭ اگر غلطی جان کر نہ کی ہو بلکہ زبانی پڑھنے کی وجہ سے ہوئی ہو یا بے دھیانی اور لاپرواہی اور لاپرواہی کےساتھ پڑھنے کے باعث ایسا ہوا ہو۔
٭ اسطرح نماز تراویح کے دوران حافظ قرآن پاک پڑھ رہا ہو اگر اس سے کفریہ مطلب کی غلطی ہوجائے اور اس کو درست سمجھتے ہوئےسامعہ حافظ کی بات نہ مانے یا سامع ایسا غلط لقمہ دے اور وہ اس کو درست سمجھتے ہوئے حافظ امام کو اس پر مجبور کرے ۔ اور اگر حافظ امام اسکا لقمہ لے لے تو کیا صورت ہوگی ؟
لیکن درج بالا صورتوں میں یہ بات واضح ہے کہ قرآن پاک پڑھنے والا حافظ عربی زبان کے مطالب ومعنی کو نہیں سمجھتا نہ ہی وہ جان کر ایسا کرتا ہے ۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ جب بھی حافظ قرآن زبانی قرآن پاک پڑھتا ہے چاہے نماز تراویح میں ہو یا اس کے علاوہ تو ذہنی لحاظ سےا س کا اندازہ یہ ہوتا ہے کہ جیسے سوال کررہا ہو کہ کیا میں قرآن پاک درست پڑھ رہا ہوں ؟ یا غلط پڑھ رہا ہو ں ؟ اس طرح بعض اوقات دیکھ کر پڑھنے میں بلا قصد کوئی ایسی غلطی ہوجائے اور اس کو فوراً درست کرلیا جائے ؟
٭ اگر ایسا آدمی جو قرآن پاک صحیح پڑھان نہ جانتا ہو جیسے آج کل ایسا عام ہورہا ہے تو نماز پڑھنے کے دوران ۔ اور قرآن پاک پڑھنے کے دوران زبر ۔ زیر پیش ۔ تلفظ اور دوسری عام غلطیاں ہوتی ہیں جیسے الحمد میں بڑی ” ح ” کی جگہ چھوٹی “ھ” پڑھ دی اجئے اس طرح انعمت ” کی ت پر پیش پڑھ دیاجائے تو ایسے لوگ لاعلمی کی وجہ سے اکثر ایسا کرتے ہیں تو کفریہ غلطی کی صؤرت میں وہ کافر ہوجائینگے یا نہیں ؟
درج بالا صورتوں میں سے اگر کہیں کفر کا حکم لگ جائے تو ایمان کی تجدید اور نکاح کی تجدید ضروری ہے کہ نہیں ؟
(ب) اگر قرآن پاک پڑھتے ہوئے اصحب الجنۃ کو اصحب الجہنم یا اصحب الجہنم کو اصحب الجنۃ پڑھان کیسا ہے ؟
2) اگر عام زندگی میں کلمہ کفر سے آدمی ایمان سے نکل جائے اور وہ پھر توبہ کر کے کلمہ پڑھ کر دوبارہ مسلمان ہوجائے تو نکاح دوبارہ پڑھوانا ضروری ہے ؟ یا مسلمان ہونیکی صورت میں نکاح خود بخود بحال ہوجائیگا ؟
3) اگر ناپاک کپڑے واشنگ مشین میں ڈال دیے جائیں اور پھر ان کو نچوڑ کر باہر نکال لیاجائے اس طرح مشین کے پہلے پانی اور صابن میں اور کپڑے ڈال دیے جائیں جو کہ پاک ہو اور کچھ ناپاک ہوں اور ان کو نچوڑ کر باہر نکال لیاجائے ۔ اور مزید کپڑے مشین سے دھوکر نچوڑ کر باہر نکال لیے جائیں اب ان تمام کپڑوں کو باری باری اس طرح دھویاجائے کہ ایک بڑی بالٹی پانی کی ٹوٹی کے نیچے رکھ کر پانی سے بھر لی جائے ٹوٹی چلتی رہے اور پھر کپ سے پانی لیکر کپڑے دھولئے جائیں اب دونوں ہاتھوں سے پکڑے ملے جارہے ہیں اور انہیں ہاتھوں سے کپ کے ذریعے بالٹی سے پانی لیاجارہا ہے اور بالٹی میں ٹوٹی کے ذریعے مسلسل پاک پانی گر رہا ہے اور پلاسٹک کپ سے پانی نکالا بھی جارہا ہے اور کپڑے دھل رہے ہیں کیا اس طریقے سے کپڑے پاک ہوجائینگے ؟
جواب: ان تمام صورتوں میں پڑھنے والا کافر نہیں ہوتا۔
فی الشامیۃ : ” والقاعدۃ عندا لمتقدمین ان ما غیر المعنی تغییرا یکون اعتقادہ کفرا یفسد سواء کان فی القرآن ۔اولا ” ( شامیۃ :1/466)
(ب) قرآن میں “اصحب الجنۃ ” کا لفظ تو ہے لیکن “اصحب الجہنم کا لفظ نہیں ،ا لبتہ اصحب الجحیم کا لفظ ہے ” اصحب الجنۃ ” کی بجائے ” اصحب الجحیم ” یا اس کے برعکس پڑھنے کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں ، آپ کو جو صورت پیش آئی ہے وہ لکھ کر بھیجیں ۔
2) اگر واقعۃ کفر کا ارتکاب ہوجائے تو ایمان کی تجدید کے ساتھ دوبارہ نکاح پڑھوانا ضروری ہے ۔
فی الشامیۃ ان ما یکون کفرا اتفاقا ، یبطل العمل والنکاح ، ومافیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ ، عتجدید ا لنکاح ۔” ( شامیۃ :3/ 316)
3) اگر بالٹی پوری بھر کر پانی گرنے لگتا ہے اور اسی حالت میں کپ سے پانی نکال کر کپڑے دھوئے جاتے ہیں تو پانی اور کپڑے پاک ہیں ۔
فی الشامیۃ : ” وبقی شیء آخر سئلت عنہ وھو ان دلوا نجس،فافرغ فیہ رجل اء حتی امرلاء ، وسال من جوانبۃ ۔۔۔ والذی یطھرلی ،ا لطھارۃ۔” ( شامیۃ :1/144)
وفیہ ایضاً: ” اما لو غسل فی غدیر ۔وصب علیہ ماء کثیرا، اوجری علیہ الامء ، طھر مطلقا بلا شرط عصر وتخفیف ، وتکرار غسل ،وھو المختار ۔” ( شامیۃ :1/597 دارالمعروف)