دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:88
سوال: آج کل جگہ جگہ قرآن خوانی اور نعت خوانی کی محفلیں منعقد ہورہی ہیں کیا یہ سنت سے ثابت ہے یا بدعت ہے آپ کیا فرماتے ہیں اس طرح کی محفلیں منعقد کی جائیں ایصال ثواب کے لیے ؟
جواب : قرآن پاک کی تلاوت ایصال ثواب کے لیے فی نفسہ بلاشبہ بہت اہمیت رکھتی ہے اس کے لیے مسنون طریقہ جو سلف صالحین میں جاری رہا وہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے طور پر جتنا بھی ہوسکے بغیر کسی قسم کی تعیین کے قرآن پاک پڑھ کر یا کوئی نفلی عبادت وغیرہ کرکے کسی کو ثواب بخش دے ، البتہ چند مخلص ساتھی اگر اتفاقاً مجمع ہوجائیں اور اپنی مرضی سے جتنا ہوسکے بغیر کسی تعیین کے قرآن پاک ایصال ثواب کے لیے پڑھ لیں تو اس کی بھی شرعاً گنجائش ہے لیکن رسول اور بدعات پر مبنی مروجہ قرآن خوانی بہت سی خلاف شرع باتوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے لیکن رسوم اور بدعات پر مبنی مروجہ قرآن خوانی بہت سی خلاف شرع باتوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے ۔
مثلا ۔۔
1۔ خاص دن یا وقت کی تعیین کرنا ۔
2۔ اجتماع کا خصوصی انتظام اور شرکت نہ کرنے والوں پر طعن وتشنیع کرنا ۔
3۔ محض برادری کے دباؤ کی وجہ سے شرکت کرنا ۔
4۔ رسمی طور پر شرکت کرنا کہ اگر کوئی شخص نہیں آئے گا تو میں بھی اس کے ہاں قرآن خوانی کے لیے نہیں جاؤں گا ۔
5۔ کھانے اور شیرنی وغیرہ کا االتزام ہونا۔
6۔ بطور عرف اورعادت کےا س کو ضروری سمجھنا ۔لہذا مروجہ قرآن خوانی درست نہیں ، نیز یہ ثابت بھی نہیں ۔
نعت خوانی اگررسم وبدعات اور منکرات سے بچتے ہوئے کی جائے تو ا س میں مضائقہ نہیں ، لیکن اگر مضمون شرکیہ ہو یا موہم شرک ہو یا گانے کی طرز ہو یا مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوتو یہ نعت خوانی جائز نہیں ۔
حاشیۃ ابن عبادین۔ ( 2/73)
مطلب فی بطلان الوصیۃ بالختمات والتھالیل وبہ ضھر حال وصایا اھل زماننا فان الواحد منھم یکون فی ذمتہ صلوات کثیرۃ وغیرھا من زکاۃ واضاح وایمان ویوصی لذلک بدراھم یسیرۃ ویجعل معظم وصیتہ لقراءۃ الختمات والتھالیل التی نص علماؤنا علی عدم صحۃ الوصیۃ بھا وان القراٰءۃ لشئی من الدنیا لا تجوز وان الاخذ والمعطی آثمان لان ذلک یشبہ الاستئجار علی القراءۃ ونفس الاستئجار علیھا لایجوز فکذا ما اشبھہ کما صرح بذلک فی عدۃ کتب من مشاھیر کتب المذھب وانما افتی المتاخرون بجواز الاستئجار علی تعلیم القرآن لا علی التلاوۃ وعللوہ بالضرورۃ وھی خوف ضیاع القرآن ولا ضرورۃ فی جواز الاستئجار علی التلاوۃ کما اوضحت ذلک فی شفاء العلیل ۔
الفتاوی البزازیۃ ۔ (1/38)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ ثلاثۃ ایام واکلھا لانہ مشروعۃ للسرور مات فاجلس وارثہ من یقرا القرآن لاباس بہ اخذ بعض المشایخ ولا باس بزیارتھا بشرط ان یطاھا وکرہ الصاق اللوح والکتابۃعلیھا ولا یبنی علیہ بیت ولا یجصص ولا یطین بالالون ویکرہ اتخاذ الطعام فی الیوم الاول والثالث وبعد الاسبوع والاعیاد ونقل الطعام الی القبر فی المواسم واتخاذ الدعوۃ بقراءۃ القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم او لقراءۃ سورۃا لانعام او الاخلاص فالحاصل ان اتخاذ الطعام عند القرآن لاجل الاکل یکرہ ۔
مشکاۃ المصابیح ۔ (3/41)
عائشۃ قالت : کان رسول اللہ ﷺ یضع لحسان منیرا فی المسجد یقوم علیہ قائما یفاخر عن رسول اللہ ﷺ اوینافح ویقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : “ان اللہ یؤید حسان بروح القدس مانافح اوفاخر عن رسول اللہ ﷺ ” رواہ البخاری ۔
مشکاۃ المصابیح ۔ (3/39)
وعن ابی ھریۃ قال : قال رسول اللہ ﷺ : “لان یمتلی ء جوف رجل قیحا یریہ خیر من ان یمتلی شعرا” متفق علیہ ۔
مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ۔ ( 13/297٭)
لان یمتلی ئ جوف رجل قیحا حتی یریہ ای یفسدہ خیر لہ من ان یمتلی ء شعرا قال ابن الملک یونی ان انشاء الشعر حرام علی وکذا شرب التریاق وتعلیق التمائم حرامان علی واما فی حق الامام فالتمائم وانشاء الشعر غیر حرام اذا لم یکن فیہ کذب ولا ھجومسلم او شیء من المعاصی ۔
دارالافتاء دارالعلوم کراچی