احکام ومسائل
ترتیب : محمدانس عبدالرحیم
قنوت نازلہ کے معنی:
“نازلة” مصیبت کو کہتے ہیں اور “قنوت “دعا کو۔ اس لئے قنوتِ نازلہ کا معنی ہے: مصائب میں گھر جانے کے وقت نماز میں اللہ تعالیٰ سے ان کے ازالے کی التجا کرنا ۔
مقصد:
اس کا مقصد یہی ہے کہ مسلمان اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالی سے معانی مانگیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اہل اسلام پر رحم و کرم فرمائے اور ان کو ان مصائب اور تکالیف سے نجات دے۔
مواقع:
جب مسلمانوں پر کوئی عام اور عالمگیر مصیبت نازل ہوجائے، مثلاً: کافر مسلمانوں پر حملہ کردیں، کافرحکومت مسلمانوں پر تشدد کرنے لگے عالمی جنگ چھڑجائے،خود مسلمانوں میں قتل وغارت عام ہوجائے طاعون ،قحط یا طوفانوں کی کثرت ہو جائے تو ایسے مواقع میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ایک خاص عمل کرنا ثابت ہے جسے قنوتِ نازلہ کہتے ہیں۔یاد رہے کہ مشکلات تو ہر دور میں پیش آتی ہیں قنوت نازلہ ایسے موقعوں پر پڑھی جائے گی جب حالات انتہائی خراب ہوں ۔ کلیجے منہ کو آرہے ہوں۔عام مشکل حالات میں قنوت نازلہ نہیں ہے۔
مشروعیت کی دلیل:
حضرت اَنَس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک نمازِ فجر میں قنوت(نازلہ) پڑھی، جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے عرب کے بعض قبیلوں مثلاً: رِعْل، ذکوان، عُصَیَّةاور بنی لِحیان کے خلاف بددعا فرمائی تھی“۔
(البخاري، کتاب المغازي، باب غزوة الرجیع ورعل وذکوان وبئر معونة،رقم الحدیث:1579،ص:، دارالسلام)
ان پر اس لیے بددعا فرمائی تھی کہ ان قبائل نے ستر علما صحابہ کو دھوکے سے قتل کردیا تھا۔
قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ :
قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نمازِ فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد ”سَمِعَ اللّٰہ ُ لِمَنْ حَمِدَہ“ کہہ کر امام کھڑا ہو جائے ،اور قیام کی حالت میں دعائے قنوت (جو آگے آ رہی ہے) پڑھے اور مقتدی اس کی دعا پرآہستہ آواز سے آمین کہتے رہیں،پھر دعا سے فارغ ہو کر ”اللہ اکبر“کہتے ہوئے سجدے میں چلے جائیں ۔ بقیہ نماز امام کی اقتداء میں اپنے معمول کے مطابق ادا کریں۔
وأنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ، بدلیل أن ما استدل بہ الشافعي علی قنوت الفجر، وفیہ تصریح بالقنوت بعد الرکوع، حملہ علماوٴنا علی القنوت للنازلة، ثم رأیت الشرنبلالي في مراقي الفلاح صرح بأنہ بعدہ؛ واستظھر الحموي أنہ قبلہ، والأظھر ما قلناہ، واللّٰہ أعلم․ (حاشیة ابن عابدین، کتاب الصلاة ، مطلب:في القنوت للنازلة: 2/542، دار المعرفة، بیروت)
اس کے ساتھ توبہ و استغفار کی کثرت ، ہر قسم کے گناہوں سے پرہیز اور حقوق العباد کی ادائیگی کا پورا پورا لحاظ بھی ضروری ہے۔ ہر بات میں شریعتِ مقدسہ کی پابندی کا خیال رکھیں ۔ اخلاص اور خشوع و خضوع سے دعا کریں ،اللّٰہ پاک اس عام بلا و مصیبت سے نجات عطا فرمائے گا ۔وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز
تنہا نمازمیں قنوت نازلہ:
تنہا نماز پڑھنے والے کے لیے قنوتِ نازلہ پڑھنا درست نہیں ہے۔
في حاشیة ابن عابدین تحت قولہ:”فیقنت الإمام في الجھریة“و ظاھر تقییدھم بالإمام أنہ لا یقنت المنفرد
فجر کے علاوہ نمازوں میں قنوت نازلہ:
قنوت ِ نازلہ احناف کے نزدیک صرف فجر کی نماز میں پڑھی جا سکتی ہے ،البتہ امام شافعی کے نزدیک قنوت ِ نازلہ تمام نمازوں میں پڑھنا درست ہے۔
(وأما القنوت في الصلوٰت کلھا للنوازل فلم یقل بہ إلا الشافعي، وکأنھم حملوا ما روي عنہ علیہ الصلاة والسلام أنہ قنت في الظھر والعشاء کما في مسلم، وأنہ قنت في المغرب أیضاً کما في البخاري علی النسخ لعدم ورود المواظبة والتکرار الواردین في الفجر عنہ علیہ الصلاۃ والسلام، وھو الصریح في أن قنوت النازلة عندنا مختص بصلاة الفجر دون غیرھا من الصلوات الجھریة․(حاشیة ابن عابدین، کتاب الصلاة ، مطلب:في القنوت للنازلة: 2/542، دار المعرفة، بیروت)
تاہم مولانا سید زوار حسین شاہ صاحب”زبدۃ الفقہ” میں فرماتے ہیں:
احناف کی نزدیک تین جہری نمازوں میں قنوتِ نازلہ کا پڑھنا مذکور ہے، دیگر ائمہ خصوصاً شافعی پانچوں نمازوں میں اس کو جواز کے قائل ہیں اس لیے پانچوں نمازوں میں پڑھنے والوں پر اعتراض نہ کیا جائے۔
مقتدی قنوت نازلہ پڑھ سکتے ہیں؟
اگر دعائے قنوت مقتدیوں کو یاد ہو تو امام بھی آہستہ پڑھے اور مقتدی بھی آہستہ آواز میں پڑھے اور اگر مقتدیوں کو یاد نہ ہو جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے، تو امام بلند آواز سے دعا کے کلمات کہے اور سب مقتدی آہستہ آہستہ آمین کہتے رہیں۔
وھل المقتدي مثلہ أم لا؟ و ھل القنوت ھنا قبل الرکوع أم بعدہ ؟ لم أرہ․ والذي یظھر لي أن المقتدي یتابع إمامہ، إلا إذا جھر، فیوٴمن․ (حاشیة ابن عابدین، کتاب الصلاة ، مطلب:في القنوت للنازلة: 2/542، دار المعرفة، بیروت)
ہاتھ چھوڑے جائیں یا باندھے جائیں؟
قنوتِ نازلہ کے دوران دعا میں ہاتھوں کو لٹکایا جائے یا دعا کے انداز میں دونوں ہاتھوں کو اٹھایا جائے؟ اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ یہاں تین صورتیں ہوسکتی ہیں:
(1) ناف کے نیچے ہاتھوں کو باندھا جائے ،جیسا کہ عام طور سے قیامِ نماز میں باندھے جاتے ہیں۔
(2) دونوں ہاتھ نیچے کی طرف لٹکائے جائیں۔
(3) دعا مانگنے کے انداز میں ہاتھ اُوپراٹھا لیے جائیں۔
ان تین صورتوں میں سے پہلی دونوں صورتیں درست ہیں،لیکن ان میں سے دوسری صورت (یعنی ہاتھوں کو لٹکائے رکھنا)بہتر ہے۔جب کہ تیسری صورت (یعنی: دعا کی طرح ہاتھوں کو اٹھانا) مناسب نہیں ہے۔
مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے ”بوادر النوادر“ میں لکھا ہے:
”مسئلہ مجتہد فیہ ہے، دلائل سے دونوں طرف (یعنی: پہلی دو صورتوں کی طرف)گنجائش ہے اور ممکن ہے کہ ترجیح قواعد سے وضع(ہاتھ باندھنے) کو ہو۔کما ھو مقتضیٰ مذہب الشیخین، لیکن عارضِ التباس و تشویشِ عوام کی وجہ سے اِرسال کو ترجیح دی جاسکتی ہے،کماھومذھب محمد“۔(بوادر النوادر، نوے واں نادرہ، تحقیق اِرسال یا وضع یدین در قنوتِ نازلہ:6/122،123، ادارہ اسلامیات)
مسبوق کیا کرے؟
قنوتِ نازلہ کی دعا پڑھنے کی حالت میں جو مقتدی ،امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوں ، وہ تکبیر ِ تحریمہ کہنے کے بعد قیام کی حالت میں امام کی دعا پر آہستہ آواز سے آمین کہتے رہیں،تاہم ان کی یہ رکعت شمار نہیں ہو گی ؛کیونکہ ان کی شرکت امام کے رکوع سے اُٹھ جانے کے بعد ہوئی ہے،لہذا وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی دونوں رکعتوں کو حسبِ قاعدہ پورا کریں گے۔
کتنے دن پڑھی جائے؟
قنوت ِنازلہ کتنے دنوں تک جاری رکھی جائے؟ اس بارے میں کوئی مقدار متعین نہیں ہے کہ اتنے دن تک پڑھی جائے اور اس کے بعد پڑھنا جائز نہیں۔بلکہ ضرورت کے موافق اس دعا کو جاری رکھا جائے، تاہم اتباع ِسنت کی غرض سے ایک مہینہ تک اس کو جاری رکھا جائے ، جیسا کہ شروع میں ذکر کی گئی حدیثِ نبوی صلی الله علیہ وسلم میں ذکر ہوا۔
قلت و فیہ بیان غایة القنوت للنازلة أنہ ینبغي أن یقنت أیاماً معلومةً عن النبي صلی الله علیہ وسلم، وھي قدرُ شھرٍ، کما في الروایات عن أنس: ”أنہ صلی الله علیہ وسلم قنَت شھراً ثم ترک“ فاحفظْہ فھذا غایةُ اتباع السنة النبویة صلی الله علیہ وسلم․ (إعلاء السنن، أحکام القنوت النازلة: 6/118، إدارة القرآن، کراتشي)
قنوتِ نازلہ کی دعا:
دعائے قنوتِ نازلہ بہت سی روایات میں قدرے مختلف الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے ، ان سب کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ حالات کے مطابق علماء ِعصر نے ایک جامع دعا نقل کی ہے:
﴿اللّٰہمَّ اھْدِنَا فِيْ مَنْ ھَدَیْتَ، وَعَافِنَا فِيْ مَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنَا فِيْ مَنْ تَوَلَّیَتَ، وَبَارِکْ لَنَا فِيْ مَا أَعْطَیْتَ، وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَیْتَ، إِنَّکَ تَقْضِيْ وَلَا یُقْضیٰ عَلَیْکَ، وَإِنَّہ لَا یَذِلُّ مَنْ وَالَیْتَ، وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنا وَتَعالَیْتَ، نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ إِلَیْکَ، وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِيِّ الْکَرِیْمِ، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِلْمُوٴْمِنِیْنَ وَلِلْمُوٴْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ، وَأَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ، وَاجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِھِمُ الْإِیْمَانَ وَالْحِکْمَةَ،وَثَبِّتْھُمْ عَلیٰ مِلَّةِ رَسُوْلِکَ، وَاَوْزِعْھُمْ أَنْ یَشْکُرُوا نِعْمَتَکَ الَّتِيْ أَنْعَمتَ عَلَیْھِمْ وَأَنْ یُوْفُوْا بِعَھْدِکَ الَّذِيْ عَاھَدتَّھُمْ عَلَیْہِ، وَانْصُرْھُمْ عَلَی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ، اِلٰہَ الْحَقِّ، سُبْحَانَکَ؛ لَا اِلٰہَ غَیْرُکَ، اَللّٰھُمَّ انْصُرْ عَسَاکِرَ الْمُسْلِمِینَ، وَالْعَنِ الْکَفَرَةَ وَالْمُشْرِکِیْنَ لَا سِیَمَا الرَّافِضَةَ وَمَنْ حَذَا حَذْوَھُمْ مِنَ الْأَحْزَابِ وَالْمُنَافِقِیْنَ الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ، وَیُقَاتِلُوْنَ أَوْلِیَاءَ کَ مِنَ الطُّلَّابِ وَالْعُلَمَآءِ وَالْمُسْلِمِیْنَ، اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیَنَ کَلِمَتِھِمْ، وَفَرِّقْ جَمْعَھُمْ، وَشَتِّتْ شَمْلَھُمْ، وَزَلْزِلْ أَقْدَامَھِمْ، وَاَلْقِ فِيْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ، وَخُذْھُمْ أَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ، وَأَنْزِلْ بِھِمْ بَأْسَکَ الَّذيْ لَا تَرُدُّہ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ﴾․
ترجمہ:یا اللہ ! ہمیں راہ دکھلا اُن لوگوں میں جن کو آپ نے راہ دکھلائی، اور عافیت دے اُن لوگوں میں جن کو آپ نے عافیت عطا فرمائی، اور کارسازی فرمائیے ہماری ان لوگوں میں جن کے آپ کارسازہیں، اور ہمیں ان چیزوں میں برکت عطا فرمائیے جو آپ نے ہمیں عطا فرمائی، اور ہماری ان چیزوں کے شر سے حفاظت فرمائیے جن کا آپ نے فیصلہ فرمایا، کیوں کہ آپ ہی فیصلہ کرنے والے ہیں، اور آپ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا، بے شک آپ جس کی مدد فرمائیں وہ ذلیل نہیں ہو سکتا، اور عزت نہیں پا سکتا وہ شخص جو آپ سے دشمنی کرے، اے ہمارے رب آپ بابرکت ہیں اور بلند و بالا ہیں۔ہم تجھ ہی سے مغفرت طلب کرتے ہیں اورآپ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ رحمتیں نازل فرمائیے اس نبی پر جو بڑے کریم ہیں، اے اللہ! ہمارے اور موٴمن مردوں اور عورتوں کے اور مسلمان مَردوں اور عورتوں کے گناہ معاف فرما دے، اور ان کے دلوں میں باہم الفت پیدا فرمادیجیے، اور ان کے باہمی تعلقات کو درست فرمادیجیے، اور ان کے دلوں میں ایمان و حکمت کو قائم فرما دیجیے، اور ان کو اپنے رسول کے دین پر ثابت قدم رکھ، اور توفیق دے انہیں کہ شکر کریں آپ کی اس نعمت کا جو آپ نے انہیں دی ہے اور یہ کہ وہ پورا کریں آپ کے اس عہد کو جوآپ نے ان سے لیا ہے،اور ان کی اپنے اور ان کے دشمنوں کے خلاف مدد فرما،اے اللہ! ان کافروں اور مشرکوں پر لعنت فرما،خصوصاً روافض پر اور ان گروہوں پر جو ان کے نقشِ قدم پرچلتے ہیں اور منافقین پر جو آپ کے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں،اور آپ کے اولیاء کو قتل کرتے ہیں،بالخصوص علماء، طلبہ اور عامة المسلمین کو، اے اللہ ! خود انہیں کے اندر آپس میں اختلاف پیدا فرما، اور ان کی جماعت کو متفرق کر دے، اور ان کی طاقت پارہ پارہ کر دے، اور ان کے قدموں کو اُکھاڑ دے،اور ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دے ، اور ان کو ایسے عذاب میں پکڑ لے جس میں قوت و قدرت والا پکڑا کرتا ہے اور اُن پر اپنا ایسا عذاب نازل فرما جو آپ مجرم قوموں سے دور نہیں کرتے۔
مذکورہ الفاظ کے ساتھ قنوت مستحب ہے، شرط نہیں۔
علامہ نووی فرماتے ہیں:
«والصحيح أنه لا يتعين فيه دعاء مخصوص بل يحصل بکل دعاء وفيه وجه أنه لا يحصل إلا بالدعاء المشهور اللهم اهدنی إلی آخره والصحيح أن هذا مستحب لا شرط(مسلم مع النووی: ۵/۱۷۶)
پانچوں نمازوں کے بعد امام و مقتدی سب یہ دعا کریں:
مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے” جواہر الفقہ” میں لکھا ہے کہ پانچوں نمازوں کے بعد امام اور مقتدی یہ دعا بھی مانگیں ، وہ دعاموجودہ حالات کے پیشِ نظر قدرے تبدیلی کے ساتھ نقل کی جاتی ہے:
﴿اَللّٰھَمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ، سَرِیْعَ الْحِسَابِ، اَللّٰہُمَّ اھْزِمِ الْاَحْزَابَ، اَللّٰہُمَّ اھْزِمْھِمْ وَزَلْزِلْھُمْ، اَللّٰھُمَّ انْصُرِ الإِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُجَاھِدِیْنَ الَّذِیْنَ یُجَاھِدُوْنَ فِيْ سَبِیْلِکَ حَقّاً، وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَائِمٍ فِيْ مَشَارِقِ الْأَرْضِ وَمَغَارِبِھَا خَاصَّةً فِيْ بَاکِسْتَانَ وَأَطْرَافِھَا، اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَا وَاحْفَظِ الطُّلَّابَ وَالْعُلَمَآءَ خَاصَّةً وَالْمُسْلِمِیْنَ عَامَّةً وَکَافَّةً، وَالْمَدَارِسَ وَالْمَعَاھِدَ الدِّیْنِیَّةَ کُلَّھَا، اَللّٰھُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَاٰمِنْ رَوْعَاتِنَا، وَاکْنُفْنَا بِرُکْنِکَ الَّذِيْ لَا یُرَامُ، وَاَعِنَّا وَلَا تُعِنْ عَلَیْنَا، وَانْصُرْنَا وَلَا تَنْصُرْ عَلَیْنَا، وَامْکُرْلَنَا وَلَا تَمْکُرْبِنَا، وَاھْدِنَا وَیَسِّرِ الْھُدیٰ لَنَا، اَللّٰھُمَّ إِلَیْکَ نَشْکُوْا ضُعْفَ قُوَّتِنَا، وَقِلَّةَ حِیْلَتِنَا، وَھَوَانَنَا عَلیٰ النَّاسِ، إِنَّہُ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَأَ مِنْکَ إِلَّا إِلَیْک﴾َ۔
ترجمہ:اے اللہ! اے کتاب نازل کرنے والے! جلد حساب لینے والے! یا للہ! ان طاقتوں کو شکست دیدے، یا اللہ! اسلام ، مسلمان اور ان مجاہدین کی مدد فرما،جو تیرے راستے میں زمین کے مشرق و مغرب میں خاص طور پر پاکستان اور اس کے گردونوح میں جہاد کرتے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے، یااللہ! ہماری حفاظت فرما، خاص طور پر طلبہ اور علماء کی اور عام طور پر عام مسلمانوں کی اور مدارس و تمام مراکز دینیہ کی حفاظت فرما۔ یا للہ! ہماری کمزوریوں پر پردہ دال دے اور خوف کی چیزوں سے ہم کو امن عطا فرما۔اور ہمیں اپنی اس طاقت کی پناہ میں لے جس کاکسی دشمن کی طرف سے بھی ارادہ نہیں کیا جاسکتا، اور ہماری مدد فرما اور ہمارے مقابل کی مدد نہ فرما اور ہم کو فتح دے، ہمارے مقابل کو فتح نہ دے، اور ہمارے مخالف کی مدد نہ فرما، اور ہم کو ہدایت عطا فرما، اور ہمارے لیے ہدایت کو آسان فرما، یا اللہ! ہم آپ ہی کے سامنے اپنی کمزوری ، بے سامانی اور لوگوں کی نظروں میں بے وقعتی کی شکایت پیش کرتے ہیں، کیوں کہ آپ کے عذاب سے نجات و پناہ بجز آپ کے کوئی نہیں دے سکتا۔
وصلی اللہ علی سیدنا محمدوآلہ وصحبہ وسلم
جمعہ 16 ربیع الاول 1438 ہجری
مدرسہ فاطمہ زہراء ،گودھرا،کراچی سے