اگر واقعی یہ دنیا ایک اتفاق ہے تو اس کو بہت ہی بے ڈھنگا سا ہونا چاہیئے تھا۔ انتہائی بے ترتیب، الجھی ہوئی سی دنیا۔ جگہ جگہ آتش فشاں پہاڑ کھول رہے ہوتے۔ دھوئیں کے بادل ہوتے، سانس لینا محال ہوتا۔
زمین اتنی کمزور ہوتی کہ کچھ عرصہ بعد خود ہی ٹوٹ پھوٹ کر فنا ہوجاتی۔
اور یہاں کی “ارتقا یافتہ” مخلوق چاہے جتنی بھی ترقی کرجاتی ان سب مخلوقات کی شکلیں کم از کم ایک دوسرے سے ملتی ہوتیں۔ چیونٹی اور اونٹ کی شکلوں میں کوئی خاص فرق نہ ہوتا۔ سائز چھوٹا بڑا ہوسکتا تھا۔ ہاتھی کی شکل میں سانپ ہوتے اور سانپ کی شکل کے ہاتھی۔ اگر کوئی انسان نما مخلوق بھی ہوتی تو اسے سانپ ہاتھی اور گھوڑے اونٹ کے مشابہ ہونا چاہیئے تھا۔
جانداروں کو زندہ رہنے کے لیے مٹی کھانی چاہیئے تھی۔ کیونکہ وہ اسی زمین سے جو نکلے تھے۔ سب کے سب جاندار مٹی کھاتے اور مٹی سے ہی ان کے جسموں کی تمام ضروریات پوری ہوتیں۔ دوسرے سیاروں اور ستاروں سے شہاب ثاقب گرتے اور اس مخلوق کو ہلاک کرتے رہتے۔ زمین پر زندگی انتہائی مشکل ہوتی۔
ایک بے حد بدشکل، بدنما، بدصورت اور بے ترتیب دنیا۔
لیکن صورتحال بالکل برعکس ہے۔
انسان کے حسن وجمال کو چھوڑیے جانوروں پرندوں کی خوبصورتی اور ترتیب کو بھی جانے دیجیے ان کے جسموں میں لگی ذہین ترین مشینوں پر بھی یہ کہہ کر پردہ ڈال دیجیے کہ یہ سب جس پہلے یک خلوی جرثومے سے بنے وہ کمال کا تھا۔ جس نے ہر ہر خلقت کو ایک منظم ترتیب اور خوبصورتی دے دی۔
لیکن ان قدرتی مناظر کے بارے میں کیا خیال ہے جن کو دیکھ کے انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے؟ جن کا مقصد صرف خوبصورتی نہیں بلکہ ان کی بدولت کئی مقاصد بیک وقت پورے ہوتے ہیں۔ ہر ہر پہاڑ ایک اعلیٰ تخلیق کا منہ بولتا ثبوت ایک انتہائی خوبصورت شاہکار ہے۔ کیا اس کی خوبصورتی بھی محض اتفاق؟
آپ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ہم اسی دنیا میں رہتے ہیں اس لیے ہوسکتا ہے سب کچھ “بے ڈھنگا” ہی ہو لیکن ہمیں خوبصورت لگتا ہو۔
ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں،
یہ بھی تو ہو سکتا ہے یہ سب کچھ بے ڈھنگا نہ ہو قدرت کے اعلٰی مصورانہ ہاتھ کا کمال ہو۔ اس کی ذہین ترین ٹیکنیک کا شاہکار ہو۔ اور ہم جانتے بوجھتے بھی اس سے انکار پر کمربستہ ہوں۔
تحریر:ثوبان تابش