قوم لوطؑ کا علاقہ :۔ اردون کی وہ جانب جہاں آج بحر میت یا بحر لوط واقع ہے یہی وہ جگہ ہے جہاں سدوم اور عامورہ کی بستیاں آباد تھیں جہاں لوط ؑکو مبعوث فرمایا۔اس کے قریب بسنے والوں کا یہ اعتقاد ہے کہ پہلے یہ تمام حصہ جواب سمندر نظر آتا ہے کسی زمانے میں خشک زمین تھی اور اس پر شہر آباد تھے ۔یہ مقام شروع سے سمندر نہیں تھا بلکہ جب قوم لوط پرعذاب آیا تب یہ زمین تقریبا چارسو میٹر زمین سمندر سے نیچے چلی گئی اور پانی ابھر آیا ۔اسی لیے اس کا نام بحر میت اور بحر لوط ہے ۔
قوم لوط کی برائیاں :۔اس قوم میں بہت ساری بیماریاں اور برائیاں تھیں۔ یہ لوٹ مار کرتے تھے راستے میں قافلوں کو لوٹ لیتے بیہودہ حرکتوں میں مبتلا تھے جیسے کبوتر بازی ، مرغوں کو لڑانا اور مجالس میں کھلم کھلا اللہ سے بغاوت کا اظہار کرنا ۔ عورتوں کے بجائے مردوں سے اپنی خواہشات پوری کرتے ۔ جیسا کہ سورۃ العنکبوت میں ہے
َىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ ڏوَتَاْتُوْنَ فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ ۭ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ 29
ترجمہ : کیا تم مردوں کے پاس آتے ہو اور رہزنی کرتے ہو اور اپنی مجلسوں میں برا کام کرتے ہو، سو ان کی قوم کا جواب یہی تھا کہ تو اللہ کا عذاب لے آ اگر تو سچوں میں سے ہے۔
دعوت اسلام : لوط ؑ نے انھیں گناہوں سے روکا ۔اللہ کی وحدانیت اور دین کی دعوت دی مگر اس قوم سے صرف دو افراد مسلمان ہوئے اور وہ لوط ؑکی بیٹیاں تھیں حتیٰ کہ بیوی تک مسلمان نہ ہوئی بلکہ اس کا الٹا اثر ہوا اور کہنے لگے :
َمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْيَتِكُمْ ۚاِنَّهُمْ اُنَاسٌ يَّتَطَهَّرُوْنَ 82 سورۃ الاعراف
ترجمہ :اور ان کی قوم سے کوئی جواب نہ بن پڑا بجز اس کے آپس میں کہنے لگے کہ ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو۔ یہ لوگ بڑے پاک صاف بنتے ہیں۔
پھر لوط ؑ نے ان کے لیے عذاب کی دعاکی ۔
قَالَ رَبِّ انْصُرْنِيْ عَلَي الْقَوْمِ الْمُفْسِدِيْنَ 30
ترجمہ : لوط نے عرض کیا کہ اے میرے رب فساد کرنے والے لوگوں کے مقابلہ میں میری مدد فرمائیے۔
اللہ تعالیٰ نے دعاقبول فرمائی اور تین فرشتوں کو قوم لوط ؑ پہ عذاب کے لیے بھیجا جو نہایت حسین وجمیل شکل میں آئے تھے اور حضرت لوط ؑ کے گھر پہ آکر اللہ کا حکم پہنچا یا کہ ان لوگوں پرعذاب آنےوالا ہے۔
وَلَمَّا جَاۗءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِيْۗءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّقَالَ ھٰذَا يَوْمٌ عَصِيْبٌ 77
ترجمہ :اور جب پہنچے ہمارے بھیجے ہوئے لوط کے پاس غمگین ہوا ان کے آنے سے اور تنگ ہوا دل میں اور بولا آج دن بڑا سخت ہے۔
حضرت لوطؑ کی بیوی نے قوم کو بتا یا کہ ان کے گھر تین خوب صورت انسان آئے ہیں لہذا تم ان سے اپنی خواہش پوری کرو۔لوگ یہ سن کر بھاگے چلے آئے اوردروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے لوطؑ بہت شرمندہ ہوئے اور فرمایا سورہ ہودمیں ہے
وَجَاءَهٗ قَوْمُهٗ يُهْرَعُوْنَ اِلَيْهِ ۭ وَمِنْ قَبْلُ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ السَّيِّاٰتِ ۭ قَالَ يٰقَوْمِ هٰٓؤُلَاۗءِ بَنَاتِيْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَلَا تُخْزُوْنِ فِيْ ضَيْفِيْ ۭ اَلَيْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِيْدٌ 78
ترجمہ :اور ان کی قوم ان کے پاس دوڑی ہوئی آئی اور پہلے سے نامعقول حرکتیں کیا ہی کرتے تھے لوط (علیہ السلام) فرمانے لگے کہ اے میری قوم یہ میری (بہو) بیٹیاں موجود ہیں (ف ٤) وہ تمہارے (نفس کی کامرانی کے) لیے (اچھی) خاصی ہیں سو الله سے ڈرو اور میرے مہمانوں میں مجھ کو فضیحت مت کرو کیا تم میں کوئی بھی (معقول آدمی اور) بھلا مانس نہیں۔ 78
قَالُوْا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِيْ بَنٰتِكَ مِنْ حَقٍّ ۚ وَاِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيْدُ 79
وہ لوگ کہنے لگے کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہم کو آپ کی ان (بہو) بیٹیوں کی کوئی ضرورت نہیں اور آپ کو معلوم ہے (یہاں آنے سے) جو ہمارا مطلب ہے۔
قَالَ لَوْ اَنَّ لِيْ بِكُمْ قُوَّةً اَوْ اٰوِيْٓ اِلٰي رُكْنٍ شَدِيْدٍ 80
ترجمہ :لوط (علیہ السلام) فرمانے لگے کیا خوب ہوتا اگر میرا تم پر کچھ زور چلتا یا کسی مظبوط پایہ کی پناہ پکڑتا۔
فرشتوں نےا نہیں تسلی دی اور کہا :
قَالُوْا يٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَّصِلُوْٓا اِلَيْكَ فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ اِلَّا امْرَاَتَكَ ۭ اِنَّهٗ مُصِيْبُهَا مَآ اَصَابَهُمْ ۭ اِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ ۭ اَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيْبٍ 81
فرشتے کہنے لگے کہ اے لوط (علیہ السلام) ہم تو آپ کے رب کے بھیجے ہوئے (فرشے) ہیں آپ تک (بھی) ہرگز ان کی رسائی نہیں ہوگی سو آپ رات کے کسی حصے میں اپنے گھر والوں کو لے کر (یہاں سے باہر) چلے جائيے اور تم میں سے کوئی پیچھا پھر کر بھی نہ دیکھے ہاں مگر آپ کی بیوی (بوجہ مسلمان نہ ہونے کے) نہ جاوے گی اس پر بھی آفت آنے والی ہے جو اور لوگوں پر آوے گی ان کے (عذاب کے) وعدہ کا وقت صبح کا وقت ہے کیا صبح کا وقت قریب نہیں۔ (81)
فرشتے کہنے لگے کہ ہم آپ کے پروردگار کی طرف بھیجے ہوئے ہیں آپ غم نہ کریں یہ لوگ آپ کا یا ہمارا کچھ نہ بگاڑ پائیں گے آپ ؑ اپنے گھروالوں کو رات کے وقت یہاں سے لے کر نکل جائیں اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں مگرآپ کی بیوی نہیں جاسکتی کیونکہ وہ کافر ہے ۔
عذاب الٰہی :۔ جب صبح کا وقت آگیا تو ان بستیوں کو نیچے سے اوپراوراوپرسے نیچے کردیا اور روایت میں آتا ہے کہ حضرت جبرائیل ؑ جو عذاب پہ مامور تھے۔زمین سے اٹھا کرآسمان تک لے گئے ییہاں تک کہ ملائکہ نے ان کی چیخوں کو سنا اور اوپر سے نیچے کردیا ۔اوپر گارے اور مٹی کے پتھر برسائے۔
فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَاَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّيْلٍ ڏ مَّنْضُوْدٍ 82
ترجمہ :سو جب ہمارا حکم (عذاب کے لیے) آ پہنچا تو ہم نے اس زمین (کو الٹ کر اس) کا اوپر کا تختہ تو نیچے کردیا اور اس زمین پر کھنگر کے پتھر برسانا شروع کیے جو لگا تار گر رہے تھے۔
مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ ۭ وَمَا ھِيَ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ بِبَعِيْدٍ 83( سورہ ہود )
ترجمہ :جن پر آپ کے رب کے پاس (یعنی عالم غیب میں) خاص نشان بھی تھا (ف ١) اور یہ بستیاں (قوم لوط (علیہ السلام) کی) ان ظالموں سے کچھ دور نہیں۔
جو اللہ کی نافرمانی کرے گا وہ اللہ کے عذاب کا حقدار ضرور بنے گا ۔ایک کی نیکی دوسرے کے کام نہیں آسکتی ۔یہں تک کہ انبیاء بھی اللہ کے فیصلے کے سامنے بے بس ہیں۔وہ اللہ کے احکامات کو تسلیم کرتے ہیں ۔لہذا ہمیں بھی تسلیم کرنا چاہیے ۔
قوم لوط کے آثار :۔
ماہرین کی تحقیق کے مطابق بحر میت کے ساحل پر لوط ؑ کی بستیو ں کے تباہ شدہ آثار ملے ہیں جس کا علم ویقین 1400 سال پہلے قرآن نے دیا۔
تحریر :اسماء فاروق