فتویٰ نمبر:4075
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
ایک پلاٹ قسطوں پہ لیا ہے جس کی قسطیں ابھی ادا کی جارہی ہیں،ایک سال کی ادا ہوگٸی ہیں، اگلے پانچ سال کی ادا کرنی ہے، پلاٹ اس نیت سے لیا تھا کہ بچوں کی پڑھاٸی اور شادی کے لیے کام آجاۓ گا، سوال یہ ہے کہ کیا ادا کی ہوٸی رقم پہ زکاة ہوگی؟
والسلام
الجواب حامداو مصليا
واضح ہو کہ مکان اور پلاٹس وغیرہ پر زکاة ادا کرنا تب لازم ہوتا ہے جب وہ بنیت تجارت یعنی آگے فروخت کرنے کے ارادے سے لیے جاٸیں اور یہ نیت بعد میں بھی برقرار رہے، بوقت ضرورت کام آنے کے لیے خریدے گٸے پلاٹس مال تجارت میں شمار نہیں ہوتے۔
سوال میں مذکور پلاٹ چونکہ ضرورت پوری کرنے کے لیے خریدا گیا ہے، تجارت کے لیے نہیں خریدا گیا اس لیے اس پر زکوة لازم نہیں ۔
(فتوی نمبر: ٥٧/ ٦٣٧٤٠ فتاوی دار العلوم)
١۔”وشرط مقارنتھا لعقد التجارة وھو کسب المال بالمال بعقد شراء او اجارة او استقراض و لو نوی التجارة بعد العقد او اشتری شیٸا للقنیة ناویا انہ ان وجد ربحا باعہ لازکاة علیہ۔“
(الدر المحتار: ٢٧٣/٢)
٢۔” وذکر فی المحیط فی بیان اقسام الدین ان المبیع قبل القبض قیل لایکون نصابا لان الملک فیہ ناقص بافتقاد الید والصحیح انہ یکون نصابا لانہ عوض عن مال کانت یدہ ثابتة علیہ وقد امکنہ احتواء الید علی العوض فتعتبر یدہ باقیة علی النصاب باعتبار التمکن شرعا۔“
(البحر الراٸق: ٢٢٥/٢)
فقط۔
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ: ١٤۔٦۔١٤٤٠ھ
عیسوی تاریخ: ٢٠١٩۔٢۔٢١
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: