قصہ حضرت ہود علیہ السلام 

شجرہ نسب:

حضرت ہود علیہ السلام کا تعلق قبیلہ عاد سے ہے۔عاد کا نسب یوں ہے : عاداکبر بن عوص بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام ۔ قرآن کریم میں سترہ سے زیادہ مقامات پر حضرت ہود علیہ السلام اور ان کی قوم “عاد” کا تذکرہ آیا ہے۔حضرت ہود علیہ السلام کا سلسلہ نسب یوں ہے: ہود بن عبداللہ بن رباح بن خلود بن عاد اکبر۔(ابن خلدون)

محل وقوع:

عاد ایک عرب قبیلہ گزراہے جو احقاف میں آباد تھا۔احقاف ریت کے ٹیلوں والے علاقے کو کہاجاتا ہے ۔ یہ علاقہ یمن میں تھا جو عمان اور حضر موت کے درمیان ہے ۔

حالات:

قرآن کریم میں ان کے یہ حالات آئے ہیں:

(1) عاد عرب تھے اور “احقاف “کے باشندے تھے۔{وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَافِ} [الأحقاف: 21] 

(2) یہ لوگ بڑی قد وقامت کے مالک تھے۔ {وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً} [الأعراف: 69] 

(3) بہت زیادہ طاقت ور تھے۔اسی قوت وطاقت نے انہیں سرکش اور گھمنڈی بنادیا تھا۔{فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً } [فصلت: 15]

(4) کمزوروں پر ظلم ڈھاتے تھے۔ واذا بطشتم بطشتم جبارین۔

(5) بت پرست اور مشرک تھے۔{وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ} [الأعراف: 65]

(6) خیمے ہونے کے باوجود ہر اونچائی پر مضبوط محل بناتےاوراس پر فخر کرتے ۔گویا مال ودولت کو بے کار میں ضائع کرتے۔{أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ ،وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ} [الشعراء: 128، 129]

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں :

اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ Č۝۽

کیا تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے پروردگار نے عاد کے ساتھ کیا سلوک کیا؟

اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ Ċ۝۽

اس اونچے ستونوں والی قوم ارم کے ساتھ۔

الَّتِيْ لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ ۝۽ ( سورۃ الفجر ) 

جس کے برابر دنیا کے ملکوں میں کوئی اور قوم پیدا نہیں کی گئی ؟ 

یہ قوم بڑی زور آور ، قوی الجثہ ، ستونوں کی طرح طویل القامت تھی ۔ ایسی قد وقامت والی اور طاقتور قوم نہ اس سے پہلے پیدا کی گئی اور نہ بعدمیں ۔

یہ لوگ عرب تھے اور عربی میں بات چیت کرتے تھے ۔ حضرت ہود سامی نسل کے قدیم ترین پیغمبروں میں سے ہیں ۔ طوفان نوح کے بعد جب ایمان والوں نے زمین پر قدم رکھا تو ان بستیوں میں رہنے لگے جہاں نوح علیہ السلام رہا کرتے تھے یہ لوگ توحید پرست تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ شیطان نے ان کےدلوں میں وسوسہ ڈالا اور وہ شیطان کی عبادت کرنے لگے ۔ چنانچہ قوم نوح س کے بعد جس قوم نے سب سے پہلے بت پرستی اختیار کی وہ قوم عاد تھی ۔

حضرت ہود علیہ السلام کااپنی قوم سے مکالمہ :

قرآن پاک کی سورہ ہود میں اللہ تعالیٰ نے حضر ت ہود ؑ کےاپنی قوم کے ساتھ ہونے والے مکالمے کو یوں بیان کیا ہے:

وَاِلٰي عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا ۭ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ۭ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ 50؀

اور قوم عاد کے پاس ہم نے ان کے بھائی ہود کو پیغمبر بنا کر بھیجا۔انہوں نے کہا : اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، تمہاری حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ تم نے جھوٹی باتیں تراش رکھی ہیں۔

يٰقَوْمِ لَآ اَسْـــَٔـلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا ۭ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلَي الَّذِيْ فَطَرَنِيْ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ 51 ؀

اے میری قوم ! میں تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا  میرا اجر کسی اور نے نہیں، اس ذات نے اپنے ذمے لیا ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، کیا پھر بھی تم عقل سے کام نہیں لیتے؟

وَيٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا وَّيَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰي قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِيْنَ 52؀

اے میری قوم ! اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی مانگو، پھر اس کی طرف رجوع کرو، وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارشیں برسائے گااور تمہاری موجودہ قوت میں مزید قوت کا اضافہ کرے گا، اور مجرم بن کر منہ نہ موڑو۔

سورۃ الشعراء میں ہے : 

اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْعٍ اٰيَةً تَعْبَثُوْنَ ١٢٨؀ۙ

کیا تم ہر اونچی جگہ پر کوئی یاد گار بنا کر فضول حرکتیں کرتے ہو؟ 

وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ ١٢٩؀ۚ

اور تم نے بڑی کاریگری سے بنائی ہوئی عمارتیں اس طرح رکھ چھوڑی ہیں جیسے تمہیں ہمیشہ زندہ رہنا ہے ؟ 

وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ ١٣٠؀ۚ

اور جب کسی کی پکڑ کرتے ہو تو پکے ظالم و جابر بن کر پکڑ کرتے ہو۔ 

فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ ١٣١؀ۚ

اب اللہ سے ڈرو، اور میری بات مانو۔

وَاتَّــقُوا الَّذِيْٓ اَمَدَّكُمْ بِمَا تَعْلَمُوْنَ ١٣٢؁ۚ

اور اس ذات سے ڈرو جس نے ان چیزوں سے نواز کر تمہاری قوت میں اضافہ کیا ہے جو تم خود جانتے ہو۔

قوم کاجواب :
قوم عاد کو حضرت ہود ؑ نے ہر طرح سمجھایا مگر انہوں نے کوئی بات نہ مانی اور نہ ایمان لائےاور تکبر وناشکری کرنے لگے ۔
فَاَمَّا عَادٌ فَاسْـتَكْبَرُوْا فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۭ اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَهُمْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۭ وَكَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْــحَدُوْنَ 15؀
پھر عاد کا قصہ تو یہ ہوا کہ انہوں نے زمین میں ناحق تکبر کا رویہ اختیار کیا، اور کہا کہ : کون ہے جو طاقت میں ہم سے زیادہ ہو۔ بھلا کیا ان کو یہ نہیں سوجھا کہ جس اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے وہ طاقت میں ان سے کہیں زیادہ ہے اور وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے(حم سجدہ )
اس پر ہود ؑ نے انہیں جواب دیا :
مِنْ دُوْنِهٖ فَكِيْدُوْنِيْ جَمِيْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ 55؀
اب تم سب کے سب ملکر میرے خلاف چالیں چل لو  اور مجھے ذرا مہلت نہ دو۔
اِنِّىْ تَوَكَّلْتُ عَلَي اللّٰهِ رَبِّيْ وَرَبِّكُمْ ۭ مَا مِنْ دَاۗبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِيَتِهَا ۭ اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ 56؀
میں نے تو اللہ پر بھروسہ کر رکھا ہے جو میرا بھی پروردگار ے اور تمہارا بھی پروردگار۔ زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے قبضے میں نہ ہو، یقینا میرا پروردگار سیدھے راستے پر ہے۔
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ مَّآ اُرْسِلْتُ بِهٖٓ اِلَيْكُمْ ۭ وَيَسْتَخْلِفُ رَبِّيْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ۚ وَلَا تَضُرُّوْنَهٗ شَـيْـــًٔـا ۭ اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَفِيْظٌ 57؀
پھر بھی اگر تم منہ موڑتے ہو تو جو پیغام دے کر مجھے تمہارے پاس بھیجا گیا تھا میں نے وہ تمہیں پہنچا دیا ہے، اور (تمہارے کفر کی وجہ سے) میرا پروردگار تمہاری جگہ کسی اور قوم کو یہاں بسا دے گا، اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے۔ بیشک میرا پروردگار ہر چیز کی نگرانی کرتا ہے۔
قوم کے کافر سردار کہنے لگے :
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖٓ اِنَّا لَنَرٰكَ فِيْ سَفَاهَةٍ وَّاِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ 66؀
ان کی قوم کے سردار جنہوں نے کفر اپنا رکھا تھا، کہنے لگے : ہم تو یقینی طور پر دیکھ رہے ہیں کہ تم بے وقوفی میں مبتلا ہو، اور بیشک ہمارا گمان یہ ہے کہ تم ایک جھوٹے آدمی ہو۔
قَالَ يٰقَوْمِ لَيْسَ بِيْ سَفَاهَةٌ وَّلٰكِنِّيْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ 67؀
ہود نے کہا : اے میری قوم ! مجھے کوئی بے وقوفی لاحق نہیں ہوئی، بلکہ میں رب العالمین کی طرف سے بھیجا ہوا پیغمبر ہوں۔
اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّيْ وَاَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِيْنٌ 68؀
میں اپنے پروردگار کے پیغامات تم تک پہنچاتا ہوں، اور میں تمہارا ایسا خیر خواہ ہوں جس پر تم اطمینان کرسکتے ہو۔
اَوَعَجِبْتُمْ اَنْ جَاۗءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰي رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِيُنْذِرَكُمْ ۭ وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاۗءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَصْۜطَةً ۚ فَاذْكُرُوْٓا اٰلَاۗءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 69؀
بھلا کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے رب کی نصیحت ایک ایسے آدمی کے ذریعے تم تک پہنچی ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تاکہ وہ تمہیں خبردار کرے؟ اور وہ وقت یاد کرو جب اس نے نوح (علیہ السلام) کی قوم کے بعد تمہیں جانشین بنایا، اور جسم کی ڈیل ڈول میں تمہیں (دوسروں سے) بڑھا چڑھا کر رکھا۔ لہذا اللہ کی نعمتوں پر دھیان دو، تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو۔
قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا ۚ فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ 70؀
انہوں نے کہا : کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم تنہا اللہ کی عبادت کریں، اور جن (بتوں) کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں انہیں چھوڑ بیٹھیں؟ اچھا اگر تم سچے ہو تو لے آؤ ہمارے سامنے وہ (عذاب) جس کی ہمیں دھمکی دے رہے ہو۔
قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَّغَضَبٌ ۭ اَتُجَادِلُوْنَنِيْ فِيْٓ اَسْمَاۗءٍ سَمَّيْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ ۭ فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّىْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِيْنَ 71؀
ہود نے کہا : اب تمہارے رب کی طرف سے تم پر عذاب اور قہر کا آنا طے ہوچکا ہے۔ کیا تم مجھ سے (مختلف بتوں کے) ان ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے رکھ لیے ہیں، جن کی تائید میں اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی؟ بس تو تم انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔
فَاَنْجَيْنٰهُ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَمَا كَانُوْا مُؤْمِنِيْنَ 72؀ۧ
چنانچہ ہم نے ان کو (یعنی ہود (علیہ السلام) کو) اور ان کے ساتھیوں کو اپنی رحمت کے ذریعے نجات دی، اور ان لوگوں کی جڑ کاٹ ڈالی جنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا، اور مومن نہیں ہوئے تھے۔
ظالم قوم ، قوم نوح کی طرح ان کا مذاق اڑاتی رہی کہ تم پر ہمارے بتوں کی مار پڑی ہے ا س لیے تم ایسی باتیں کرتےہو۔ یہود ؑ انہیں دعوت حق دیتے رہے یہاں تک کہ ان کی قوم نے کہہ دیا آپ ہمیں وعظ سناتے رہیں ہم اپنی روش نہ چھوڑیں گے یہ تو پرانے لوگوں کا دین ہے ۔ آخر ہود ؑ نے اللہ تعالیٰ سے مدد کی درخواست کی ۔اللہ تعالی درخواست قبول فرمائی۔
سورۃا لشعراء میں ہے :
اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ ١٣٥؀ۭ
حقیقت یہ ہے کہ مجھے تم پر ایک زبردست دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔
قَالُوْا سَوَاۗءٌ عَلَيْنَآ اَوَعَــظْتَ اَمْ لَمْ تَكُنْ مِّنَ الْوٰعِظِيْنَ ١٣٦؀ۙ
وہ کہنے لگے : چاہے تم نصیحت کرو، یا نہ کرو، ہمارے لیے سب برابر ہے۔
اِنْ ھٰذَآ اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِيْنَ ١٣٧؀ۙ
یہ باتیں تو وہی ہیں جو پچھلے لوگوں کی عادت رہی ہے۔
عذاب :
قوم عاد کی سرکشی اور ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے پہلے اللہ تعالی نے ان پر بارش بند روک دی ۔ فصل اور باغات جل گئے ۔ لوگ بارش کی خواہش کرنےلگے ۔
پھر ایک دن ایک سیاہ بادل انہیں آتا نظر آیا وہ خوشی سے پوچھنے لگے کہ یہ بادل ہم پر برسے گا۔ اصل میں ابر کی صورت میں وہ قہر الٰہی تھا جس عذاب کی وہ جلدی مچارہے تھے وہ ایسی آندھی تھی جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ جس نے ان کی بستیوں ، درختوں، خیموں اورپہاڑوں پر تعمیر کردہ محلوں تک کو اڑا پھینکا سب کچھ تباہ وبرباد کردیا ۔اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں متعدد آیات میں قوم عاد کی تباہی کا ذکر فرمایا ہے ۔
فَلَمَّا رَاَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِيَــتِهِمْ ۙ قَالُوْا ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ۭ بَلْ هُوَ مَا اسْـتَعْــجَلْتُمْ بِهٖ ۭرِيْحٌ فِيْهَا عَذَابٌ اَلِيْمٌ 24؀ۙ
پھر ہوا یہ کہ جب انہوں نے اس (عذاب) کو ایک بادل کی شکل میں آتا دیکھا جو ان کی وادیوں کا رخ کر رہا تھا تو انہوں نے کہا کہ : یہ بادل ہے جو ہم پر بارش برسائے گا۔ نہیں ! بلکہ یہ وہ چیز ہے جس کی تم نے جلدی مچائی تھی۔ ایک آندھی جس میں دردناک عذاب ہے۔
تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍۢ بِاَمْرِ رَبِّهَا فَاَصْبَحُوْا لَا يُرٰٓى اِلَّا مَسٰكِنُهُمْ ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَ 25؀ ( سورۃ الاحقاف )
جو اپنے پروردگار کے حکم سے ہر چیز کو تہس نہس کر ڈالے گی، غرض ان کی حالت یہ ہوگئی کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ ایسے مجرم لوگوں کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔
سورۃ الذاریات میں ہے :
وَفِيْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيْحَ الْعَقِيْمَ 41؀ۚ
نیز قوم عاد میں (بھی ہم نے ایسی ہی نشانی چھوڑی تھی) جب ہم نے ان پر ایک ایسی آندھی بھیجی جو ہر بہتری سے بانجھ دی۔
مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ اَتَتْ عَلَيْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيْمِ 42؀ۭ
وہ جس چیز پر بھی گزرتی، اسے ایسا کر چھوڑتی، جیسے وہ گل کر چورا چورا ہوگئی ہو۔
سورۃ القمر میں ہے :
كَذَّبَتْ عَادٌ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ وَنُذُرِ 18؀
عاد کی قوم نے بھی تنبیہ کرنے والوں کو جھٹلانے کا رویہ اختیار کیا، پھر دیکھ لو کہ میرا عذاب اور میری تنبیہات کیسی تھیں؟
اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا صَرْصَرًا فِيْ يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ 19۝ۙ
ہم نے ایک مسلسل نحوست کے دن میں ان پر تیز آندھی والی ہوا چھوڑ دی تھی۔ (٦)
تَنْزِعُ النَّاسَ ۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنْقَعِرٍ 20؀
جو لوگوں کو اس طرح اکھاڑ پھینک دیتی تھی جیسے وہ کھجور کے اکھڑے ہوئے درخت کے تنے ہوں۔
فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ وَنُذُرِ 21؀
اب سوچو کہ میرا عذاب اور میری تنبیہات کیسی تھیں؟
سورۃ الحاقہ میں ہے :
وَاَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِيْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ Č۝ۙ
اور جو عاد کے لوگ تھے، انہیں ایک ایسی بے قابو طوفانی ہوا سے ہلاک کیا گیا
سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَّثَمٰنِيَةَ اَيَّامٍ ۙ حُسُوْمًا ۙ فَتَرَى الْقَوْمَ فِيْهَا صَرْعٰى ۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ Ċ۝ۚ
جسے اللہ نے ان پر سات رات اور آٹھ دن لگاتار مسلط رکھا۔ (٣) چنانچہ تم (اگر وہاں ہوتے تو) دیکھتے کہ وہ لوگ وہاں کھجور کے کھوکھلے تنوں کی طرح پچھاڑے ہوئے پڑے تھے۔
فَهَلْ تَرٰى لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِيَةٍ ۝
اب کیا ان میں سے کوئی بچا ہوا نظر آتا ہے؟
فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا صَرْصَرًا فِيْٓ اَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيْقَهُمْ عَذَابَ الْخِــزْيِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۭ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَخْزٰى وَهُمْ لَا يُنْصَرُوْنَ 16؀ ( سورۃ حم السجدہ )
چنانچہ ہم نے کچھ منحوس دنوں میں ان پر آندھی کی شکل میں ہوا بھیجی تاکہ انہیں دنیوی زندگی میں رسوائی کے عذاب کا مزہ چکھائیں اور آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ رسوا کرنے والا ہے۔ اور ان کو کوئی مدد میسر نہیں آئے گی۔
کہا جاتا ہےکہ یہ آندھی اتنی تیز تھی کہ گھوڑوں ، مال مویشیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ دے مارتی تھی۔سات دن رات یہ تیز ہوائيں چلتی رہی اور اس دوران ریت کا طوفان اٹھا اور تمام مکانوں اور انسانوں پر گرا اور سب لوگ ہلاک ہوگئے صرف حضرت ہود اور ان کے چند اصحاب جنہوں نے امن کی جگہ پناہ لی تھی بچ گئے۔
وَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا نَجَّيْنَا هُوْدًا وَّالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا ۚ وَنَجَّيْنٰهُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِيْظٍ 58؀
اور ( آخر کار) جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اپنی رحمت کے ذریعے ہود کو اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے تھے، ان کو بچا لیا، اور انہیں ایک سخت عذاب سے نجات دے دی۔
حضرت ہود ؑکی وفات :
اس واقعے کے بعد حضرت ہود سرزمین ” حضرموت” چلے گئے اور وہاں باقی عمر گذاری ۔اس واقعہ کی تاریخ کے بارے میں مورخین کا اتفاق ہےکہ یہ واقعہ شوال کے مہینے میں رونما ہوا البتہ اس کے دن کے بارے میں اختلاف ہے کہ کس دن رونما ہوا۔ بعض نے پہلی شوال اور بعض نے تیس شوال ذکر کیاہے۔
جنہوں نے پہلی شوال اختیار کیاہے وہ شوال کے پہلے ہفتے کو ” برد العجوز ” کہتے ہیں ۔ اس نام کی وجہ یہ ہے کہ عجوزی اس مہینے میں ایک گھر میں چھپ گيا جو زیر زمین میں تھا اور ریت کے طوفان سے امان میں رہا ، یہاں تک کہ چھٹے دن طوفان نے اس کے گھر بھی متاثر کیا اور وہ بھی ہلاک ہوا۔
مرتب: محمدانس عبدالرحیم

اپنا تبصرہ بھیجیں