قیمت طے کئے بغیر معاملہ کرنا

سوال: میں چیز خریدنے گیا دکاندار کہتا  ہے کہ   جو کمپنی کی طرف سے لکھی ہوئی قیمت ہے  اس پر میں تمہیں بیچتا ہوں  معاملے کے وقت  مجھے قیمت معلوم نہیں ہے  البتہ جب چیز ہاتھ میں آئے گی تو قیمت بھی معلوم ہو ہی جائے گی  تو کیا اس طرح سودا کرنا درست ہوگا ؟

الجواب حامدا ومصلیا

واضح رہے کہ بازاری قیمت یا کمپنی کی طرف سے طے شدہ قیمت پر   خریدوفروخت کا معاملہ اس وقت درست ہے جبکہ مارکیٹ کے اندر  بیچی جانے والی چیزکے ریٹ  میں اتنا فرق نہ ہو کہ جو بعد میں  جھگڑے کا  باعث بنے  مذکورہ صورت  میں  چونکہ کمپنی کی طرف سے طے شدہ قیمت پر معاملہ ہو رہا ہے اور کمپنی کے ریٹ میں عام طور پر فرق نہیں ہوتا  لہذا  اس  طرح  معاملہ  کرنا جائز ہے ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 529)

“(وشرط لصحته معرفة قدر) مبيع وثمن (ووصف ثمن)”

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 156)

“(ومنها) أن يكون المبيع معلوما وثمنه معلوما علما يمنع من المنازعة.فإن كان أحدهما مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة فسد البيع، وإن كان مجهولا جهالة لا تفضي إلى المنازعة لا يفسد؛ لأن الجهالة إذا كانت مفضية إلى المنازعة كانت مانعة من التسليم والتسلم فلا يحصل مقصود البيع، وإذا لم تكن مفضية إلى المنازعة لا تمنع من ذلك؛ فيحصل المقصود”

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 297)

“والأثمان المطلقة لا تصح إلا أن تكون معروفة القدر والصفة”

فقہ البیوع۱/۴۱۶

“اما المتاخرون الحنفیۃ فاجازوا البیع بسعر السوق فیما لا تتفاوت آحادہ ولا یتغیر سعرہ لآحاد الناس۔۔۔ تتفاوت اسعارہ بتفاوت الآحاد ولا یمکن تحدید سعرھا بمعیار منضبط معلوم۔۔۔ لان سعر السوق ان لم یکن معلوما للمتبایعین عند العقد فی مثل هذه الاشیاء اصطلاح غیر مستقر فیبقی الثمن مجهولا فاحشةتفضی الی النزاع”

واللہ اعلم بالصواب

حنظلہ عمیر بن عمیر رشید

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھواراجی کراچی

۲۱/۱۰/۱۴۴۱ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں