السلام علیکم و رحمہ اللہ وبرکاتہ۔
سوال:نماز میں قضا عمری دو دو رکعت کی نیت سے پڑھیں مطلب ہم نaے گنے نہ ہوں ویسے ہی پڑھتے جائیں یا باقاعدہ گنتی کرکے پڑھا جائے،اور قضا کب سے شروع ہوگی 10 سال کی عمر سے نماز فرض ہوتی ہے ؟
الجواب باسم ملہم الصواب!
وعلیکم السلام و رحمہ اللہ وبرکاتہ۔
جس کی کوئی نماز چھوٹ گئی تو اس کی قضا میں جلدی کرے بغیر کسی عذر کے قضا پڑھنے میں دیر لگانا گناہ ہے۔
قضا نمازیں متعینہ طور پر معلوم ہوں تو ان کی نیت میں ضروری ہے کہ جس نماز کی قضا پڑھی جارہی ہے اس کی مکمل تعيين کی جائے یعنی فلاں دن کی فلاں نماز پڑھی ہوں ،مثلا پچھلے جمعہ کے دن کی فجر کی نماز قضا پڑھ رہی ہوں۔البتہ اگر متعین طور پر قضا نماز کا دن اور وقت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح متعین کرنا مشکل ہو تو اس طرح بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلا جتنی فجر کی نماز یں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی فجر کی نماز ادا کررہی ہوں یا مثلا جتنی ظھر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظھر کی نماز ادا کررہی ہوں،اسی طرح بقیہ نمازوں میں بھی نیت کریں، اسی طرح پہلی کے بجائے اگر آخری کی نیت کرے تو بھی درست ہے۔مثلا جتنی فجر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے آخری ادا کررہی ہوں۔
ایک دن کی تمام فوت شدہ نمازیں یا کئی دن کی فوت شدہ نمازیں ایک وقت میں پڑھ لیں،یہ بھی درست ہے۔نیز ایک آسان صورت ہے فوت شدہ نمازوں کی یہ بھی ہے کہ ہر وقت فرض نماز کے ساتھ اس وقت کی قضانمازوں میں سے ایک پڑھ لیا کریں، (مثلا:فجر کی وقتی فرض نماز ادا کرنے کے ساتھ قضا نمازوں میں سے فجر کی نماز بھی پڑھ لیں)،جتنے برس یا جتنے مہینوں کی نمازیں قضا ہوئی ہیں اتنے سال ہا مہینوں تک ادا کرتے رہیں،جتنی قضا نمازیں پڑھتے جائیں انہیں نوٹ کرتے جائیں، اس سے ان شاء اللہ مہینے میں ایک مہینے کی اور سال میں ایک سال کی قضا نمازوں کی ادائیگی بڑی آسانی سے ہوجائے گی۔
اور دو رکعت والی نماز کی دو رکعت قضا لازم ہے اسی طرح تین کی تین اور چار کی چار اور تین وتر کی قضا بھی واجب ہے۔۔
بلوغت کے بعد نماز کی فرضیت ہوتی ہے۔
———————————–
(القضاء فعل الواجب بعد وقته)
(الترتيب بين الفروض الخمسة والوتر أداء و قضاء لازم يفوت الجواز بفوته)
(٢ /٥٣٣ من حاشية رد المحتار على الدر المختار)
(ان القضاء يحكي الأداء الا لضرورة)
(صبي احتلم بعد صلاة العشاء و استيقظ بعد الفجر وامه قضائها)
(٢/٥٣٨من حاشية رد المحتار على الدر المختار)
“كثرت الفوائت نوى اول ظهر عليه أو اخره”
(الدر المختار و حاشية ابن العابدين:رد المحتار)٧٦/٢
فقط والله أعلم بالصواب.