قضا شدہ نمازوں کی ادائیگی

فتویٰ نمبر:1085

سوال:محترم مفتیان کرام 

السلام و علیکم!

مفتیان کرام مجھے معلوم کرنا ہے کہ قضا شدہ نمازوں کی ادائی کا حساب بلوغت سے لگایا جائے گا یا سات سال کی عمر سے؟

والسلام

سائل: مدثر

پتا: شرلی اوکس

الجواب حامدا و مصلیا

بلوغت سے قبل انسان شریعت کے احکام کا مکلف نہیں۔نماز وغیرہ کے احکام کا دارومدار بھی عاقل بالغ ہونے پہ ہے۔اگر بلوغت کی یقینی عمر معلوم نہ ہو تو پندرہ سال مکمل ہونے پہ بالغ سمجھا جائے گا۔ لہذا قضا شدہ نمازوں کی ادائی کا حساب بلوغت سے لگایا جائے گا سات سال کی عمر سے نہیں. 

“وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ “

(بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ وَالْمَجْنُونِ الخ۳۱۵/۱۶)

“عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ ۔”

(ابوداود بَاب مَتَى يُؤْمَرُ الْغُلَامُ بِالصَّلَاةِ۴۱۸)

” کل صلاۃ فاتت عن الوقت بعد وجوبھا فیہ یلزمہ قضاوھا سواء ترک عمدا او سھوا او بسبب نوم و سواء کانت الفوائت کثیرۃ او قلیلۃ”۔

{فتاوی عالمگیری ۱/۱۳۴}

“ویجوز تاخیر الفوائت و ان وجبت علی الفور لعذر السعی علی العیال و فی الحوائج علی الاصح ای فیسعی و یقضی ما قدر بعد فراغہ و ثم الی ان تتم”

{رد المحتار ۱/۷۶۸}

🔸واللہ اعلم 🔸

✍بقلم: بنت ذوالفقار عفی عنھا

۲۳ نومبر ۲۰۱۸ء

۱۵ ربیع الاول ۱۴۴۰ھ

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

اپنا تبصرہ بھیجیں