قضانماز پڑھنے کا طریقہ

صاحب ترتیب کسے کہتے ھیں کتنی نمازے قضاء بونے کے بعد مسلمان صاحب ترتیب نہیں گھٹا.نیز اگر اندازے سے نمازوں کی قضاء کر لے تو کیا پھر صاحب ترتیب ہو جائے گا۔اور اگر کوئی شخص صاحب ترتیب ہے اور اس سے نماز قضا ہو جائے تو کس طرح لوٹائے گا۔تفصیل سے بتائے بڑی مہربانی ہو گی۔اللہ آپ سب کی علم و عمل میں ترقی عطا فر مائیں

فتویٰ نمبر:110

 جواب:اگر کسی شخص کے ذمہ بالغ ہونے سے لیکر اب تک چھ یا اس سے زیادہ نمازوں کی قضاء نہیں ہے تو وہ ’’صاحب ترتیب‘‘ ہے۔ اور اگر کسی کے ذمہ چھ یا اس سے زیادہ نمازوں کی قضاء ہے تو وہ صاحب ترتیب نہیں ہے۔ اور پھر اگر وہ شخص اپنی قضاءنمازوں کو ادا کرلے اوراس کا غالب گمان یہ ہو کہ اس نے اپنی تمام فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرلی ہے اور اس کے ذمہ ایک بھی نمازکی قضاء لازم نہیں ہے تووہ دوبارہ صاحبِ ترتیب بن جائے گا، اب وہ چھ نمازیں قضاء ہونے تک جس میں وتربھی شامل نہیں ہے،صاحبِ ترتیب رہ سکتاہے،البتہ اگراب اس سے ترتیب ساقط ہوجائے تودوبارہ صاحبِ ترتیب بننے کے لئے ضروری ہوگاکہ اس کے ذمہ ایک نمازبھی باقی نہ رہے۔

صاحب ترتیب سے اگر کوئی نماز قضاء ہوجائے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ پہلے قضاء نماز ادا کرے اور پھر وقتیہ نماز ادا کرے ، البتہ اگر وقتیہ نماز کا وقت ختم ہونے والا ہو یا اپنی قضاء نماز بھول جائے یا قضاء نمازوں کی تعداد چھ ہوجائے تو پھر ترتیب ساقط ہوجاتی ہے اور پہر قضاء نماز بعد میں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔
الدر المختار – (2 / 65)
( الترتيب بين الفروض الخمسة والوتر أداء وقضاء لازم ) يفوت الجواز بفوته۔۔۔۔ ( فلم يجز )۔۔۔( فجر من تذكر أنه لم يوتر ) لوجوبه عنده ( إلا ) استثناء من اللزوم فلا يلزم الترتيب ( إذا ضاق الوقت المستحب ) ۔۔۔( أو نسيت الفائتة )۔۔۔ ( فإن كثرت وصارت الفوائت مع الفائتة ستا ظهر صحتها ) بخروج وقت الخامسة التي هي سادسة الفوائت۔۔۔( وإلا ) بأن لم تصر ستا ( لا ) تظهر صحتها بل تصير نفلا
حاشية ابن عابدين – (2 / 68)
قوله ( أو فاتت ست ) يعني لا يلزم الترتيب بين الفائتة والوقتية ولا بين الفوائت إذا كانت ستا كذا في النهر۔۔۔۔قوله ( اعتقادية ) خرج الفرض العملي وهو الوتر فإن الترتيب بينه وبين غيره وإن كان فرضا لكنه لا يحسب مع الفوائت ا هـ ح أي لأنه لا تحصل به الكثرة المفضية للسقوط لأنه من تمام وظيفة اليوم والليلة والكثرة لا تحصل إلا بالزيادة عليها من حيث الأوقات أو من حيث الساعات ولا مدخل للوتر في ذلك إمداد
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں