سوال:اگر کوئی زبردستی قرآن پر ہاتھ رکھوا کر قسم دلوائے اور دوسرا شخص مجبورا ہاتھ رکھ کر قسم کھالے جبکہ اس کے دل میں قسم کی نیت نہ ہو تو کیا ایسے قسم نافذ ہو جائے گی اور اگر وہ شخص اس قسم کے خلاف عمل کرے تو کیا کفارہ ہوگا؟
جواب:محض قرآن پر ہاتھ رکھنے سے قسم منعقد نہیں ہوتی جب تک کہ قسم کھانے والا زبان سے الفاظ ادا نہ کرے کہ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں یا میں قرآن کی قسم کھاتا ہوں کہ فلاں کام نہیں کروں گا؛ لہذا اگر ان الفاظ کے ساتھ قسم کھائی گئی ہے گو جبرا کھائی گئی ہو قسم ہو جائے گی اور قسم توڑدی تو قسم توڑنے کا کفارہ دینا ہوگا اور اگر ان الفاظ کے ساتھ قسم نہیں کھائی، بلکہ صرف قرآن پر ہاتھ رکھ کر یہ کہا کہ میں یہ کام نہیں کروں گا تو ایسی صورت میں قسم نافذ نہیں ہوگی اور نہ کفارہ واجب ہوگا۔
قسم کا کفارہ یہ ہے کہ اگر مالی استطاعت ہے تو دس غریبوں کو کپڑوں کا جوڑا دے، یا دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کے برابر رقم دے دے، یا ایک ہی مسکین کو دس دن تک دو وقت کھانا کھلائے یا اسے دس دن تک روزانہ ایک ایک صدقہ فطر کی رقم دیتا رہے، اور اگر اتنی استطاعت نہ ہو تو پھر لگاتار تین دن روزے رکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ولا یقسم بغیر اللّٰہ تعالیٰ کالنبي والقرآن والکعبة، قال الکمال: ولا یخفی أن الحلف بالقرآن الآن متعارف فیکون یمینًا”۔
(الدر المختار مع الشامي، کتاب الأیمان / مطلب في القرآن ۵؍۴۸۴ زکریا ، کذا في فتح القدیر / باب ما یکون یمینًا وما لا یکون یمینًا ۵؍۶۹، مجمع الأنہر / کتاب الأیمان ۲؍۲۷۶ کوئٹہ)
“وکفارته تحریر رقبة أو أطعام عشرة مساکین أو کسوتهم بما یستر عامة البدن وإن عجز عنها وقت الأداء صام ثلاثة أیام ولاء”.
(تنویر الأبصار مع رد المحتار، مطلب کفارة الیمین)