قرض کی تعریف

فتویٰ نمبر:476

السلام علیکم ورحمہ اللّہ وبرکاتہ
حضرت لون لینے سے متعلق آپکی جو تحقیق تھی عنایت فرما دیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامداًومصلیاً
واضح ر ہے کہ قرض وہ ہوتا جسے اس کی مثل سے ادا کیا جاسکے اور مقروض کے ذمہ اس چیز کی مثل ادا کرنا ضروری ہے جوقرض دینے والے سے لی ہے،لہذا جہاں یہ تعریف پائی جائے گی وہ قرض ہوگا، مثال کے طورپر اگر کوئی کسی سے سونا ،چاندی، نقدی یعنی کیش، عددی اشیاء وغیرہ لے تو چونکہ ان سب اشیاء کا ان کی مثل کے ساتھ واپس کرنا ممکن ہے لہذا یہ چیزیں کسی کو ادھار دی تو قرض شمار ہوں گی۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ میرا یہ مکان ایک مہینہ کیلئے قرض پر لے لو تو یہ قرض نہیں بن سکتا کیونکہ شرعا اس مکان کی منفعت ذوات الامثال (بعینہ اس مکان کی منفعت کی مثل کے ساتھ ادا کرنے پر قدرت )نہیں،البتہ کرائے پر لیاجاسکتا ہے جس کا قرض سے کوئی تعلق نہیں۔

بالکل اسی طرح موبائل کمپنی والوں سے ہم کارڈ لیکر لوڈ کرتے ہیں یا ایزی لوڈ کرواتے ہیں تو اس کے بدلےوہ ہماری سم میں بیلینس ظاہر کرتے ہیں جو درحقیقت ایک سند اور رسیدہے جو اس بات کی علامت ہے کہ حاملِ بیلنس کمپنی کی اس قدر منفعت و سہولت استعمال کرنے کا حقدار اور مستحق ہے، یعنی حاملِ بیلنس کمپنی کے نیٹ ورک اور عملہ کی خدمات(کی شکل میں متعین منفعت)کو متعین رقم کے عوض کو بطور اجارہ ( کرایہ) استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے ،یہی وجہ ہےاگر کمپنی کا نیٹ ورک خراب ہوجائے تو کمپنی قانوناصارفین سے یہ کہہ کر سبکدوش نہیں ہو سکتی کہ کمپنی نے آپ لوگوں کو بیلنس(قرض) فراہم کردیا تھا بلکہ کمپنی اس کی تلافی کرنے کی پابند ہے،لہذا معلوم ہواکہ بیلنس پر قرض کی تعریف صادق نہیں آتی۔

جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ لوڈ کروانے کی صورت میں ہماری سم میں جو بیلنس ظاہرہوتا ہے وہ صرف ایک رسید ہے جس پرحامل رسید متعین منفعت (متعین منٹ تک بات کرنا) کا حقدار ہےتو ایڈوانس لون (کمپنی نے نام لون کا رکھا ہے لیکن شرعی دلائل کی روشنی میں یہ لون نہیں بنتا) لینے کی صورت میں بھی اس کمپنی کی طرف سے کوئی قرض نہیں ملتا بلکہ صارف کی سم میں بیلنس ظاہر ہوتا ہے جو درحقیقت ایک سند اور رسیدہے جو اس بات کی علامت ہے کہ حاملِ بیلنس کمپنی کی اس قدر منفعت و سہولت استعمال کرنے کا حقدار اور مستحق ہےاور کمپنی پہلے سے یہ طے کرچکی ہوتی ہے کہ اس منفعت اور سہولت کے ہم اتنے چارجز لیں گے جوکہ نقد رقم سے یہ سہولت حاصل کرنے سے کچھ زیادہ ہوتے ہوں گے تو شرعا اس میں کوئی حرج نہیں جیسےکسی شخص کا ایک مکان ہو اور وہ ایک ماہ کیلئے اپنےمکان میں رہائش کی سہولت و منفعت کسی دوسرے کو دینا چاہتا ہو اور کہتا ہو کہ اگر کوئی شخص میرے مکان کی منفعت و سہولت کی اجرت ایڈوانس دے گا تو میں اس سے 50ہزار لوں گا اور اگر کوئی منفعت و سہولت استعمال کرنے کے بعد اجرت دے گا تو میں ساٹھ ہزار لوں گااب اگر کوئی شخص اس منفعت کی اجرت کے نقد یا ادھار میں سے ایک متعین کرلے کہ میں یہ اجرت نقدادا کروں گا یا یہ متعین کرلے کہ میں اجرت ادھارادا کروں گا تو یہ معاملہ چند مزید شرائط کے ساتھ شرعا جائز ہے۔

مذکورہ بالاتفصیل سےمعلوم ہوا کہ بیلنس خواہ پیشگی ادائیگی کے ذریعہ کیا جائے یا لون کے نام سے بہر صورت وہ بذاتِ خود منفعت نہیں ہے بلکہ منفعت کی رسید ہے اور کمپنی اور صارفین کا مذکورہ معاملہ اجارہ کا ہے۔ پہلی صورت میں صارف اجرت پیشگی ادا کردیتا ہے اور منفعت بعد میں حاصل کرتا ہےجبکہ دوسری صورت میں کمپنی اسی صارف کو منفعت پہلے فراہم کردیتی ہےاور اجرت کی ادائیگی میں ایک خاص وقت تک مہلت دیتی ہے، بہرحال دونوں میں سے کسی بھی صورت میں کمپنی صارفین کو رقم فراہم نہیں کرتی بلکہ منفعت فراہم کرتی ہےاور صارفین سے کمپنی کے نیٹ ورک کو استعمال کرنے کی سہولت فراہم کرنے کی اجرت لیتی ہےاس لئے مذکورہ بیلنس(ادھار منفعت کی صورت میں)قرض قرار دیکر معاملہ کو سودی قرار دینا شرعی نقطہ نگاہ سے درست نہیں اگرچہ کمپنی اور صارفین لاعلمی میں یا مغالطہ کی بنا پر اسے قرض کا نام دیتے ہوں کیونکہ یہاں جانبین سے رقم کا تبادلہ نہیں ہورہا بلکہ ایک جانب سے منفعت اور دوسری جانب سے رقم کا تبادلہ ہورہا ہے جس میں کچھ رقم کمپنی سروس چارجز اور ٹیکس کے نام سے اور کچھ رقم قرضے کی واپسی کے نام سے وصول کرتی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ کمپنی کی طرف سے زائد پیسوں کی کٹوتی شرعی نقطہ نگاہ سے سود نہیں ہے بلکہ یہ بھی کمپنی کی سروس، ٹیکس اور حاصل کردہ سہولت کا معاوضہ ہے۔

===================
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمدعاصم عصمہ اللہ تعالی

اپنا تبصرہ بھیجیں