فتوی نمبر:887
سوال: محترم جناب مفتیان کرام! السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
ایک شخص نے اپنے دوست کو تین سال پہلے قرض دیا سعودی ریال کی صورت میں اس وقت ریال کی قیمت تقریبا پاکستانی 28 روپے تھی…قرض دیتے وقت طے پایا تھا کہ ادائیگی ریال کی صورت میں ہی ہوگی..دونوں اس پہ راضی ہیں .اب ریال کی قیمت 33 روپے ہیں ..پوچھنا یہ ہے کہ جو قیمت میں اضافت ہوئی ہے تو یہ زائد رقم لینا درست ہے؟
جب قرض دیا تھا تو پاکستانی ساڑھے تین لاکھ تھے۔
جواب درکار ہے .جزاکم اللہ خیراً!
والسلام
الجواب حامدۃو مصلية
سوال میں مذکورہ صورت میں جب یہ طے ہوا تھا کہ قرض کی ادائی سعودی ریال کی صورت میں ہی کی جائے گی تو اب ویسا ہی کیا جائے ۔ پھر اگر قرض دینے والا اس بات پر راضی ہو جائے کہ پاکستانی کرنسی میں واپس کر سکتے ہیں تو اب اِس وقت سعودی ریال کی جو مارکیٹ میں قیمت چل رہی ہے اسی کا حساب لگا کر اتنے ہی پاکستانی روپے دینے ہوں گے۔ مثلاً اگر 3000 سعودی ریال قرض تھا تو اب موجودہ وقت میں 3000 ریال جتنے پاکستانی روپے کے بنتے ہیں اتنے ہی ادا کرنے ہوں گے اور اس میں کوئی سود نہیں ہوگی کیونکہ مختلف ممالک کی کرنسی مختلف الجنس کے حکم میں ہے جس میں کمی زیادتی سود کے حکم میں نہیں۔لہذا اس وقت اگر ساڑھے 3 لاکھ پاکستانی روپے کا قرض بنتا تھا اور اب اس سے زیادہ ہو رہا ہے تو وہ اضافہ دینا لازم ہے۔
“إن الدیون تقضی بأمثالہا علی معنی أن المضمون مقبوض علی القابض، ولرب الدین علی المدین مثلہ”
(شامي، کتاب الأیمان، باب الیمین في الضرب والقتل، مطلب الدیون تقضي بأمثالہا، زکریا ۵/ ۶۷۵، کراچی ۳/ ۸۴۸)
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:16 محرم ،1439ھ
عیسوی تاریخ:26ستمبر،2018ء
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
📩فیس بک:
HTTPS://M.FACEBOOK.COM/SUFFAH1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
📮ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک👇
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: