زید اپنے مرحوم والد کی طرف سے اپنے مال میں سے ان کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ دینا چاھتا ہے اس نے حساب کتاب بھی کر لیا ہے، اب یہ رقم غریبوں کو دینا ضروری ہے یا کسی کو بھی ( بشمول میت کے اصول وفروع کو) بھی دی جاسکتی ہے؟ بکر کہتا ہے کہ یہ فدیہ دینا چونکہ مرھوم کی وصیت سے نہیں اور زید تبرعا اپنی طرف سے دینا چاھتا ہے تو یہ صدقہ نفلی ہے جس کا ایصال ثواب کسی بھی امیر غریب یا اصول وفروع کو دینا جائز ہے ۔ہاں اگر اس کی وصیت ہوتی تو اس کے تہاءی مال سے صرف مستحقین کو دیا جاتا آپ حضرات اس مسئلے کی شرعی تفصیل کیا ہے؟
اخت سیف اللہ
الجواب باسم ملھم الصواب
اس مسئلے کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ اگر میت نے وصیت نہ کی ہواورکوئی وارث اپنے مال میں سے فدیہ اداکرناچاہے تویہ میت کے ساتھ احسان کامعاملہ ہوگااورمیت کوانشاء اللہ اس کاثواب ملے گا،اورفدیہ انہیں لوگوں کودیاجاسکتاہے جوزکوۃ کے مستحق ہوں۔اصول وفروع کو جس طرح زکوۃ نہیں دی جاسکتی اسی طرح فدیہ بھی نہیں دیاجاسکتا۔ یہاں وارث کی طرف سے ادائیگی اگرچہ نفلی حیثیت سے ہے؛ لیکن مصارف کے اعتبارسے مستحق کی شرط برقراررہے گی۔ اور اگر وہ میت کے دوسرے رشتہ داروں ( اصول وفروع کے علاوہ)کو فدیہ دیناچاھے اور وہ غریب بھی ہو تو یہ بدرجہ اولی جائز ہے اور اس میں دو اجر ہیں ایک صدقہ کا دوسرا صلہ رحمی کا ۔
والافضل في الزكاة والفطر والنذور المصرف اولا الي الاخوة والاخوات ثم الي اولادهم ثم الي العمات والاعمام ثم الي اولادهم ثم الي الاخوال والخالات ثم الي اولادهم ثم الي ذوي الارحام ثم الي اهل الجيران ثم الي اهل حرفة ثم الي اهل مصراه اوقريته ( فتاوي هندية 1/122)
وايضاً:
ومصرف ھذہ الصدقۃ ما ھو مصرف الزکاۃ۔(فتاویٰ ہندیہ،الباب الثامن فی صدقۃ الفطر1/194)
واللہ اعلم بالصواب
زوجة ارشد
1 1 جمادي الاولي 1438
9 فروري 2017
صفه آن لائن کورسز