ہر تخلیق کا خالق ہے۔ ہر معلول کی ایک علت ہے۔
کیا اس میں کوئی شک کیا جاسکتا ہے؟
نہیں! یہ ایک وجدانی حقیقت ہے، جسے منطقی دلیل کی ضرورت نہیں۔ تم تصور ہی نہیں کرسکتے کہ کوئی چیز اپنے آپ ہی بن گئی یا اپنے آپ ہی پایۂ وجود تک پہنچ گئی۔ پھر اس میں طرح طرح کے تصرفات ایک واضح ریاضی اصول کے تحت خود بخود ہونے لگے اور وہ بجائے کسی تباہی کے، ترقی کی جانب مبذول ہوئی۔
یعنی مجھے ماننا پڑے گا کہ مادی کائنات میں ہر چیز ایک دوسری چیز کی علت کی وجہ سے پابند ہے۔ وہ علت اپنے ماتحت کو معلول کرتی ہے۔
اس علت اور معلول کی زنجیر کی کڑیاں جوڑتے جاؤ تو تمہاری عقل ختم ہوجائے گی لیکن یہ زنجیر ختم نہیں ہوگی۔
لیکن کوئی یہ نہیں تصور کرتا کہ جب ہر معلول کی ایک علت ہے تو خود علت کی علت کیا ہے؟ اگر میں علت کو بھی معلول کہوں تو اس معلول بنام “علت” کی کیا علت ہوئی؟
ایک مثال سے سمجھو! مثلاً تم جانتے ہو کہ ہر وقت سے پہلے ایک وقت ہے۔ پھر اس سے پہلے بھی ایک وقت ہے۔ اس زنجیر کو جوڑتے جاؤ تو وقت کا کوئی سرا نہیں موجود ہوگا۔ لیکن یہ تم بھی جانتے ہو کہ کائنات کے وجود میں آنے سے پہلے یا بگ بینگ سے پہلے وقت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ یعنی اس وقت سے پہلے کسی “پہلے” کا وجود ہی نہیں تھا۔
تو معلوم ہوگا کہ جب علت اور معلول کے رشتے کا وجود ہی نہیں تھا اس وقت کسے علت کی ضرورت تھی؟
علّیت (علت و معلول کے رشتے) کی تخلیق کرنے والا “الف” ہے۔ اس نے اس رشتے کی تخلیق کی تو ہر چیز علت و معلول کی پابند ہوئی۔ اب ازلی طور پر سب سے بڑا وجدانی سچ یہ ہے کہ ہر معلول کو کسی علت کی ضرورت ہے۔
“الف” خدا کا نام ہے۔