پرائز بانڈ کے بارے میں بریلوی مکتبہ فکر کے علماء کا فتوی *جواز* کا ہے وہ اس پر ملنے والی اضافی رقم کو انعام کہتے ہیں اس کو وہ سود نہیں مانتے ہیں.
گروپ پر آئے ہوئے سوال کا مختصر تجزیہ فی الوقت ارسال خدمت ہے.
پرائز بانڈ کے جواز کے بارے میں ان علماء کرام کی طرف سے مختلف دلائل پیش کیے جاتے ہیں.
ان علماء کرام میں سے بعض حضرات اس کو بیع و شراء (دستاویزات کی بیع و شراء) کے تحت داخل کرتے ہیں.
اور بعض حضرات ان بانڈز کے مقاصد (جیسا کہ حضرت مفتی عبد القیوم ہزاروی صاحب زید مجدھم سے منسوب اس تحریر میں ہے) کو اساس بناتے ہیں. اور بعض حضرات اس پر ملنے والی اضافی رقم کے دائر بین الوجود و العدم (یعنی بانڈ خریدنے والے کو اضافی رقم ملنے اور نہ ملنے دونوں کے امکان) ہونے کو دلیل بناتے ہیں کہ یہ انعام ہے سود نہیں ہے کیونکہ یہ مشروط نہیں ہے.
لیکن یہ سارے دلائل جو ان علماء کرام کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں ان پر مختلف اشکالات وارد ہوتے ہیں اور اس معاملے کو محض انعام کا معاملہ (جعالہ) مان لینا یا اس کو بیع و شراء قرار دے دینا یا مقاصد کے پیش نظر اس کو درست سمجھ لینا یہ سارے دلائل ہمارے علماء کی رائے میں فقہی بنیادوں پر مضبوط دلائل نہیں ہیں.
اس معاملے کو بیع و شراء ماننے پر اشکال یہ کہ یہ حقیقتا بیع نہیں ہے اور اس کیلئے بیع و شراء کی اصطلاح محض مجازا استعمال کی جاتی ہے اصل اصطلاح *سبسکرپشن* کی ہے. وجہ اس کو بیع و شراء نہ ماننے کی یہ ہے کہ اس دستاویز کو حاصل کرنے والا دراصل قرض دے کر ایک رسید حاصل کرتا ہے اور قرضے کے لین دین کا یہ عمل ایک طریقے اور قانون کے تحت انجام پاتا ہے لہذا اس رسید کو *بانڈ* (اردو میں تمسکات یا دستاویزات) کہتے ہیں. اس بانڈ کو *خریدنا* درحقیقت قرض دے کر بانڈ کو حاصل کرنا ہے. حقیقتا بانڈ تو ایسا مبیع ہے ہی نہیں جس پر مال کا اطلاق درست ہو یہ تو ایک *رسید* ہے جو خود تو مقصود ہوتی بھی نہیں ہے اور یہ قانونا *زر* بھی نہیں ہے جس کو باقاعدہ لیگل ٹینڈر قرار دے دیا گیا ہو. لوگ اس کو بعض دفعہ ثمن کے طور پر جو قبول کرلیتے ہیں وہ اس کے با آسانی کیش ہوجانے کی وجہ سے کرتے ہیں.
لہذا یہ تو طے ہے کہ یہ *سند القرض* ہے. اب جب یہ طے ہے تو اس کے جواز کیلئے مقاصد کو بنیاد بنانا تو بالکل درست نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ مقاصد کی بنیاد پر ذرائع کو کسی قانون میں درست قرار نہیں دیا جاتا ہے. اگر ایسا ہوتا تو تاج کمپنی کیلئے ایسا بانڈ جاری کرنا بطریق اولی جائز ہوتا ہے.
لہذا پرائز بانڈ کے جواز کیلئے اس کو بیع و شراء قرار دینے یا اس رقم کے استعمال کو پیش نظر رکھنے کے دلائل تو بالکل کمزور اور قابل غور نہیں ہیں.
تیسری دلیل جو نسبتا مؤثر معلوم ہوتی ہے وہ یہ بانڈ پر ملنے والی اضافی رقم کے *ملنے یا نہ ملنے* کی خصوصیت (Probabilistic return/Actuarial pay off) ہے. یعنی چونکہ ہر پرائز بانڈ والے کو انعام ملنا ضروری نہیں ہے بلکہ کچھ کو ملے گا اور زیادہ تر کو نہیں ملے گا لہذا بانڈ پر ملنے والی اس اضافی رقم کو مشروط نہیں کہا جاسکتا ہے یہ مستقرض کی طرف سے ایک تبرع ہے یعنی تحفہ اور انعام ہے.
یہ دلیل بھی اگر غور کیا جائے تو اتنی مضبوط نہیں ہے. کیونکہ پرائز بانڈ پر ملنے والی اضافی رقم من حیث المجموع مشروط ہوتی ہے یعنی جتنے انعامات دینے کا اعلان کیا جاتا ہے اتنی رقم دینا مستقرض پر لازم ہوتا ہے چنانچہ یہ رقم لا علی التعیین کچھ کو دینا لازم ہوتا ہے.
اور ہوتا دراصل یہ ہے کہ مستقرض پر مجموعی طور پر جتنی اضافی رقم دینا لازم ہوتی ہے وہ یہ رقم *تمام* قرض دینے والوں پر تقسیم کرنے کے بجائے کچھ کو دیتا ہے اور باقی کو نہیں دیتا ان کو ان کی اصل رقم لوٹا دیتا ہے.
لہذا بانڈ کو ناجائز کہنے والے حضرات کی رائے میں یہ کہنا درست نہیں ہے کہ پرائز بانڈ جاری کرکے حاصل کی جانے والی رقم پر دیا جانے والا اضافہ *مشروط* نہیں ہوتا ہے. یہ بالکل مشروط ہوتا ہے اور قانونا واجب الاداء بھی ہوتا ہے یعنی قابل دعوی بھی ہوتا ہے.
لہذا ان نکات کی روشنی میں پرائز بانڈ پر ملنے والی اضافی رقم *سود* ہی قرار پاتا ہے اور اس کا لینا درست نہیں ہے.
ہاں یہ بات درست ہے کہ یہ جوا نہیں ہے کیونکہ اصل راس المال واپس ملتا ہے لہذا اس میں راس المال متردد بین الوجود و العدم نہیں ہوتا اس پر ملنے والا سود متردد بین الوجود و العدم ہوتا ہے. اس وجہ سے اس میں جوے کا عنصر نہیں ہے.
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ارشاد احمد اعجاز