دريافت طلب امر یہ ہے کہ ایک شخص اپنی زکوة پیشگی ادا کرنا چاہتا ہے اسکی صورت کیا ہوگی مثلا اس پر زکوة کی ادائگی لازم ہے رمضان کے مہینے میں لیکن وہ دو ماہ قبل ادا کرنا چاہتا ہے تو کیا اسکو رمضان میں پھر سے زکوة کا حساب لگانا پڑیگا اسلئے کہ ہو سکتا ہے بازار میں نرخ کم زیادہ ہو جائے…
۲: کیا وہ کچھ زکوة ابھی ادا کر دے اور کچھ رمضان میں اسکی گنجائش ہے؟؟؟
الجواب حامدا و مصلیا
اگر مذکورہ شخص صاحب نصاب ہے تو پیشگی زکوۃ ادا کرنا جائز ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ وقتا فوقتا جو بھی زکوۃ دیتا رہے اس کاباقاعدہ حساب رکھے اور جب زکوۃ کی ادائیگی کا دن آجائے تو اس دن اپنے کل مال زکوۃ کا حساب لگا کر دیکھ لے کہ اس پر کتنی زکوۃ واجب ہے، پھر جتنی زکوۃ واجب ہو اس میں سے پہلے ادا شدہ زکوۃ کی رقم کو نکال دے اور باقی جتنی رقم رہ جائے اب وہ زکوۃ میں ادا کردے اور اگر پہلے دی گئی رقم واجب شدہ زکوۃ سے ہی زیادہ ہوجائے تو ایسی صورت میں زائد رقم کو اگلے سال کی زکوۃ میں شمار کرلے۔
الفتاوى الهندية – (ج 1 / ص 176)
ويجوز تعجيل الزكاة بعد ملك النصاب ولا يجوز قبله كذا في الخلاصة
المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة – (2 / 466)
ويجوز تعجيل الزكاة قبل الحول إذا ملك نصاباً عندنا؛ لأنه أدى بعد وجود سبب الوجوب؛ لأن سبب الوجوب نصاب نام؛ فإن نظرنا إلى النصاب فالنصاب قد وجد؛ وإن نظرنا إلى النماء فقد وجد أيضاً؛ لأن العبرة لسبب النماء وهو الإسامة أو التجارة لا لنفس النماء، وقد وجد سبب النماء.
بخلاف ما إذا عجل قبل كمال النصاب؛ لأنه أدى قبل وجود سبب الوجوب، وإذا عجل زكاة سنتين، يجوز عن علمائنا الثلاثة
بدائع الصنائع، دارالكتب العلمية – (2 / 50)
وأما حولان الحول فليس من شرائط جواز أداء الزكاة عند عامة العلماء، وعند مالك من شرائط الجواز فيجوز تعجيل الزكاة عند عامة العلماء
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمد عاصم عصمہ اللہ تعالی