پاکستان کے لئے خطرناک ممالک
(04) پاکستان کے لئے خطرناک ممالک کی فہرست میں امریکہ چوتھے نمبر پر آتا ہے۔ امریکہ سے پاکستان کے تعلقات ابتدائی دور میں اس درجے کے دوستانہ تھے کہ جب فیلڈ مارشل ایوب خان امریکہ کے دورے پر گئے تو صدر جان ایف کینیڈی نے اپنی اہلیہ اور اعلیٰ حکام سمیت پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ائیرپورٹ پر ان کا استقبال کیا۔ اپنی استقبالیہ تقریر میں صدر کینیڈی نے کہا کہ ایوب خان کا استقبال میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔ قافلہ ائیر پورٹ سے نکلا تو منزل مقصود تک سڑک کے دونوں جانب ہزاروں امریکیوں نے تالیوں اور استقبالی کلمات سے ایوب خان کا عوامی استقبال کیا جو صدر کینیڈی کے ساتھ کھلی چھت والی لیموزین میں سوار تھے۔ یہ ہر لحاظ سے ایک ایسا استقبال تھا جو کسی عظیم طاقت والے ملک کے سربراہ کا ہی ہوسکتا تھا حالانکہ تب پاکستان کی کل عمر ہی 14 سال تھی اور وہ کسی اینگل سے بھی ایک عظیم طاقت نہیں تھا۔ اس استقبال کی بنیادی وجہ یہ تھی خطے میں افغانستان اور بھارت سوویت یونین کے اتحادی تھے جبکہ کمیونسٹ چین بھی وجود میں آچکا تھا۔ ایران کے بعد پاکستان دوسرا ملک تھا جو امریکہ کا سٹریٹیجک پارٹنر تھا۔ مگر 1967ء میں اسرائیل نے عرب دنیا سے جنگ چھیڑ ی تو پاک فضائیہ کے پائلٹ عربوں کی مدد کو جا پہنچے۔ یہ وہ موقع تھا جب امریکہ تلملا کر رہ گیا اور اسے یہ اندازہ ہوا کہ مشرق وسطیٰ میں اس کے لاڈلے منے کو تو اس کے اس سٹریٹیجک پارٹنر سے خطرات لاحق ہیں۔ یوں دوستی ایک خفیہ دشمنی میں بدل گئی اور پاکستان کو کمزور کرنا اس کی اہم ضرورت بن گیا کیونکہ طاقتور پاکستان اسرائیل کے راستے کی رکاوٹ ہوتا۔
چنانچہ جلد ہی ہم نے دیکھا کہ بھارت اور سوویت یونین نے جب مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کی ملٹری مہم شروع کی تو پاکستان امریکی بحری بیڑے کا انتظار ہی کرتا رہ گیا۔ امریکہ نے بھارت اور سوویت یونین کو یہ کھلا راستہ اسی لئے دیا تاکہ حجم کے لحاظ سے پاکستان کم ہو سکے۔ اس جنگ میں آدھا ملک ہاتھ سے گیا، پاکستان کے نوے ہزار فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے۔ فوجی سربراہ برطرف کردیے گئے۔ یوں گویا عسکری لحاظ سے پاکستان شرمناک ہی نہیں بدترین دور میں بھی کھڑا ہو گیا۔ اب پاکستان کو مستقل کمزور رکھنا اور اسرائیل کو طاقتور سے طاقتور بنانا امریکہ کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل نظر آتا تھالیکن یہ کیا ؟ ملک ٹوٹنے کے صرف دو سال بعد پاک فضائیہ کے پائلٹ ایک بار پھر عرب اسرائیل جنگ میں ؟ تو گویا کہ ملک ضرور ٹوٹا ہے لیکن حوصلے نہیں ٹوٹے۔ اب قدرت کا کھیل دیکھئے کہ اِدھر ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالنی شروع کی اُدھر سوویت یونین افغانستان میں فوج اتار کر کمزور پاکستان کی جانب لپکنے کی تیاری میں لگ گیا۔ بھٹو ایٹمی پروگرام کی وجہ سے امریکہ کی نظر میں دشمن قرار پا گئے اور حل یہ سوچ لیا گیا کہ انہیں ملٹری کے ذریعے پھانسی پر لٹکا دیا جائے تو یہ ایٹمی پروگرام رک جائے گا۔ مگر ہوا یہ کہ نہایت ذہین مگر جذباتی بھٹو کی جگہ نہایت شاطر مگر مسکین دکھنے والا جنرل ضیاء اقتدار میں آگیا۔ جس نے سوویت خطرے سے ڈرا ڈرا کر نہ صرف امریکہ سے کنوینشنل وار فیئر کے ہتھیار لینے شروع کردئے بلکہ اسی خطرے کی آڑ لیتے ہوئے امریکی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر 1984ء میں پاکستان کو ایٹمی ملک بھی بنا دیا۔ چنانچہ 1991ء میں امریکہ جیسے ہی سوویت جھنجٹ سے آزاد ہوا اس نے پاکستان پر پابندیاں لگا کر ایٹمی پروگرام روبیک کرنے کے مطالبے شروع کردئے جو نہ فوج نے مانے نہ ہی نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے۔
نائن الیون ہوا تو امریکہ کے لئے یہ ایک سنہری موقع بن گیا کہ وہ بقدم خود پاکستان کے باڈر پر آکر بیٹھ جائے اور وہ آیا۔ جو عقل کے اندھے یہ سمجھتے ہیں کہ اسامہ بن لادن اور اس کے چھ سو ساتھیوں کے خلاف امریکہ نے ایک لاکھ پچیس ہزار فوج افغانستان میں اتاری تھی انکی عقل کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ وہ پاکستان کی ایٹمی قوت ختم کرنے کی غرض سے ہی یہاں آیا تھا۔ یہ سوال آپ کے ذہن میں آ سکتا ہے کہ پھر اس نے ایسا کیا کیوں نہیں ؟ تو جواب یہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان ایک سو سات ایٹمی ہتھیاروں والا ملک ہے مگر انکے تحفظ کے لئے ایسا شاندار میکنزم بنایا گیا ہے کہ پاکستان میں ایک بھی ایسا سول یا فوجی شخص نہیں ہے بشمول آرمی چیف کے جو تمام ہتھیاروں کے مقام سے واقف ہو کہ وہ کہاں کہاں موجود ہیں ؟ اگر امریکہ ملٹری آپریشن کے ذریعے اٹھانا بھی چاہے تو تمام دانے کسی صورت نہیں اٹھا سکتا۔ پاکستان کی اس حکمت عملی کے پیچھے یہ سوچ موجود ہے کہ اگر ٹاپ لیول پر بھی کوئی غدار پیدا ہو جائے تو وہ بھی فقط چند ہتھیاروں کا درست مقام بتا سکے۔ تو جب خفیہ فوجی آپریشن کے ذریعے پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں سے یقینی طور پر غیر مسلح کرنا ممکن ہی نہیں تو اس کا فائدہ ؟۔ ان حالات میں امریکہ کے لئے واحد آپشن یہی تھی کہ ملک کو اندر سے سیاسی وعسکری طور پر اتنے زخم لگائے جائیں کہ یہ بکھر کر رہ جائے اور اس میں خانہ جنگی کی ایسی کیفیت بنادی جائے جس سے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کا ملک پر کنٹرول ختم ہو جائے اور جسے جواز بنا کر یہاں اقوام متحدہ کی فوج اتاری جائے اور خوب تسلی سے سارے “دانے” ڈھونڈ لئے جائیں۔ چنانچہ ایک طرف ٹی ٹی پی کھڑی کی گئی جسے یہ ہدف دیا گیا کہ تم اس ملک کو عسکری زخم لگاؤ اور دوسری طرف صحافیوں اور دانشوروں کو خریدا گیا جنہیں یہ ہدف دیا گیا کہ تم عوام کا اعتماد تباہ کرو اور انہیں فوج سے بدظن کرو۔ دونوں ہی نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا لیکن جس ملک نے حرمین کے تحفظ کی ذمہ داری کا بیڑہ اٹھا رکھا ہو اس کے تحفظ کے لئے اللہ ہی کافی تھا۔ نتیجہ یہ کہ امریکہ اپنے زخم چاٹتا ہوا انخلا کر رہا ہے اور پاکستان اپنے اندرونی دشمنوں کو چن چن کر مار رہا ہے اور میری یہ بات یاد رکھیں کہ بچینگے وہ دانشور اور صحافی بھی نہیں جو گزشتہ دس سال کے دوران سی ڈی 70 موٹر سائیکل سے ڈیڑھ ڈیڑھ کروڑ کی گاڑیوں تک پہنچ گئے ہیں انہیں بتانا ہوگا کہ 5000 سے بیس ہزار تک کی تک کی تنخواہ پانے والا ورکنگ جرنلسٹ صرف دس سال میں کروڑوں اور اربوں روپے کا مالک کیسے بن سکتا ہے ؟۔
الحمدللہ اب پاکستان اپنے مستقبل کے منصوبوں کی جانب بڑھ رہا ہے اور ان منصوبوں میں پاک چائنا اکنامک کوریڈور اتنا عظیم الشان منصوبہ ہے جو پاکستان کا مقدر بدل کر رکھدیگا جبکہ دوسری طرف عرب کہہ رہے ہیں کہ ہم سے بلینک چیک لے لو لیکن ہمارا دفاع مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کردو۔ 6 عرب ملک پاکستان کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھولنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ترکی طویل المیعاد منصوبوں میں پاکستان کے ساتھ شراکت ڈیزائن کر رہا ہے۔ چائنا پینتیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہےجس کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ یہ اصل فگر نہیں ہے، حقیقی فگر اس سے کہیں بڑا ہے۔ ان حالات میں یہ دو ٹکے کے دانشور جو آپ کو تلملاتے نظر آرہے ہیں یہ وہ بھاڑے کی فکری فوج ہے جو آپ کا اعتماد قائم نہیں ہونے دیتی اور آپ کو ہر وقت شکوک و شبہات میں مبتلا رکھنا چاہتی ہے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر یکسو نہ ہوسکے۔ آپ کے اسی ذہنی انتشار کا فائدہ اٹھا کر دھرنوں اور مارچوں کا بازار گرم کر کے ترکی، چائنا اور سعودی عرب کی مدد سے شروع ہونے والے ترقی کے سفر کو آغاز میں ہی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ امریکی مفادات کے لئے استعمال ہونا چاہتے ہیں یا نہیں ؟ آپ کی آنکھیں کھلی ہیں کہ نہیں ؟ آپ کا دماغ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ نہیں ؟۔ ترقی کا یہ سفر پندرہ سے بیس سال کا ہے جس میں کئی حکومتیں آئینگی اور جائینگی۔ میری رائے یہ ہے کہ جو بھی حکومت آئے، جس کی بھی آئے اسے کام کرنے دیں اسے کمزور مت کریں کیونکہ اب آپ حکومتوں کو نہیں بلکہ اپنے مستقبل کو کمزور کر رہے ہونگے۔ میں اور آپ ایک کمزور اور زخمی پاکستان میں جئے۔ کیا اپنی اولاد کو بھی کمزور اور زخمی پاکستان دینا ہے ؟ (جاری ہے)
Load/Hide Comments